سمبارا

جاوید قاضی  ہفتہ 15 اکتوبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کیا لکھے گا مورخ آج سے ایک سو سال بعد یا آج سے ایک ہزار سال بعد؟ اگر دنیا میں ماحولیاتی بربادی نہیں آئی جو آج ہی کی تہذیب کی اس دھرتی کو دی ہوئی میراث ہے۔ الپس البانیا اپنی کتاب Tale of Indus(وادی مہران کی کتھا) میں لکھتی ہیں پاکستان ہزاروں سال سے بہتی، سندو ماتھری میں صرف ستر سال کی کہانی ہے۔

مجھے کامل یقین ہے کہ یہ ملک کرہ ارض پر رہے گا مگر اس طرح سے نہیں جس طرح اس کی کہانی ستر سال پر مبنی ہے۔ ہاں کوئی بری بات نہیں، کہنے دیجیے جب میں نے کواسجی سے پوچھا تھا ’’سالا رومن امپائر بھی ٹوٹ گیا‘‘ کل تو چیف جسٹس آف پاکستان بھی برہم نظر آئے ہاں یہ بھی حقیقت کہ اس آدھی جمہوریت (quash) یا یوں کہیے کہ لنگڑی بوڑھی ملاوٹی جمہوریت (Diluted Democracy) کا بھی چلنا کتنا دشوار ہے۔

وہی پانامہ اور کوئی نہیں ہنگامہ، نہ ہے کوئی احتساب۔ اور دوسری طرف سائل کی کہانی اس کی زبانی یا اس کی زباں پہ رکھی گئی تھی۔ ’’آدمی مگر کس سے بات کرے‘‘۔ہم ایسے تو نہ بنے تھے، ہم کو بنایا گیا تھا، ہندو انتہا پرست کوی کوکھ سے ہم پھوٹے تھے اور پھر اس کوکھ کے پس منظر میں ہم نفرت کدوں کی شب بن گئے۔

میری سوچ کے منظر کا کینوس بہت بڑا ہے، زمان و مکاں سے بڑا، اسٹیفن ہاکنگ کی طرح (اگر اس بات کو میری مغروری نہ کہیے) طبل و علم، مال و ہشم سے بڑا ، پاکستان سے آگے، ہندوستان سے آگے، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں میں نے کبھی شاعر مشرق کو آپ کی طرح محدود زینے نہیں پہنائے۔

اس لیے کہ کار جہاں دراز ہے۔ آپ رہے نیشنل سیکیورٹی کے چکر میں اور سنبھال کے رکھیے اپنے حساس حصص (Strategic Assets)مجھے تو یہ پتا ہے کہ 22 فیصد پاکستانی غذا کی کمزوری کا شکار ہیں، دو کروڑ سے زائد بچے اسکول جا نہیں سکتے، پانچ کروڑ لوگ مختلف ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں اور یہ خطہ ہے کہ ابھی بھی پراکسی جنگوں کی وبا میں غلطاں ہے۔

جب ہٹلر کی فوجیں روس میں گھس آئیں تو پھر اسٹالن کے سوویت یونین میں لگا ہر کارخانہ پھر کلاشنکوفیں و بارود بنانے میں پڑ گیا تھا۔ ہم نے تو گلی کوچوں میں ایسے خودکش حملہ آوروں وغیرہ کی فیکٹریاں بنائی ہوئی ہیں اور جنگ ابھی ہوئی نہیں ہے۔ ہم نے تو اپنے لوگوں پر جنگ مسلط کردی ہوئی ہے۔

میں نے نہیں ووٹ دیا تھا ہٹلر کو، جرمن قوم نے دیا تھا اس نے پوری جرمن قوم کے بیانیہ Narrative کو کرپٹ کردیا۔ جرمنی کوئی وفاق تھوڑی تھا ایک قوم تھی جس کویہ گماں ہوا کہ ساری دنیا ہماری غلامی کے لیے ہے ہم ہیں سپر قوم۔ وہ بے چارے Nietge اپنے فلاسفر کی Superman کی تھیوری کو کرپٹ کر بیٹھے ۔ میں نے نہیں دیا تھا ووٹ مودی کو ،ہندوستان نے دیا تھا۔ وہ ہندوستان جو ہماری طرح وفاق نہیں۔ ان کے ہندو ہونے میں اکھنڈ بھارت کے فلسفے سے دبا دبا سا سیر قوم ہونے کا ۔ مودی جنگ نہیں بیچے گا تو کیا کباب بیچے گا۔ اسے پتا ہے چائے بیچنے سے کچھ نہیں ہوتا ، جنگ بیچو جنگ۔

بہت سارا سامان ہے جو بٹوارے میں میرا ہندوستان میں رہ گیا ہے۔ ’’ابن مریم ہوا کرے کوئی، میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔‘‘ جی ہاں سعادت منٹو کی طرح لکھا کرے کوئی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح جب ہندوستان و پاکستان میں پاگلوں کا بٹوارا ہوا تھا۔ ہندو پاگل تم لے لو اور مسلمان پاگل مجھے دے دو۔ ہم نے اپنا یار پکہ لاہور پہ بھگت سنگھ بھی انھیں دے دیا۔ کوڑیوں کے بھاؤ۔ اندھے کباڑے کے خوابوں کی طرح سب کھوٹے سکے سمجھ کے بے دام دے دیا۔ تاریخ و تمدن و تہذیب دے دی۔ میرا دے دی، رادھا دے دی، سمبارا دے دی۔

اور وہ بھی ایسے فتنہ پرست تھے جس کے ماتھے پہ تلک تھا وہ لے لیا۔ نہ لیا ہمارا سورہ بادشاہ نہ لیا باوجود اس کے کہ وہ پاکستان بننے کے نہیں متحدہ ہندوستان یا آزاد سندھ کی بات کرتے تھے۔ نہ لیا انھوں نے شہید اللہ بخش سومرو نہ لیا باوجود اس کے کہ وہ آزاد پاکستان کی بات نہیں متحدہ ہندوستان کی بات کرتے تھے۔

یہ وہی تھے جس نے انگریزوں کو سارے تمغے دیے ہوئے و سارے خطاب واپس کیے جب چرچل نے ہاؤس آف کامن میں تقریر کرتے کہا تھا کہ ہم ہندوستان کو صدیوں تک غلام بنا کے رکھیں گے۔ ہاں انھیں صرف آزادی کا متوالا اس سندھ میں صرف میموں کالانی نظر آیا۔ یہ ہے وہ آڈوانی کے ہندوستان کی کتھا۔ جس کا کانسی کا بنا ہوا بت اپنے پارلیمنٹ کے باہر سجا دھجا کے رکھا ہے۔ مگر ہم نے کبھی ان سے امیر خسرو نہ مانگا، اس کا حضرت نظام الدین اولیا، (وہ نظام نہیں کہہ سکتا تھا) مانگا؟ ہمارا تو سب کچھ وہیں رہ گیا۔

قوالی ہماری تھی ہم نے قوالی بدت بنادی اور انھیں دے دی۔ کتھک رقص وادی مہران کی پرورش تھی ہم نے انھیں دے دی۔ ستار خسرو کی ایجاد تھی ہم نے انھیں دے دی۔ یہ راگ یہ راگنیاں، بڑے تونگر و مولئی جو مسلمان گھرانوں سے تھے ہم نے انھیں دے دیے۔ یہ لو استاد بڑے غلام علی تم لے لو۔ یہ لو قرۃ العین حیدر تم لے لو۔ تم ٹوبہ ٹیک سنگھ لے لو تم بھگت سنگھ لے لو۔ اور جب اپنی شناخت کا خسارہ جو ہوا ، خلاجو ہوا تو ہم نے سب امپورٹ کیا۔ ہم نے عربوں سے سب لے لیا۔ اچھا برا سب۔ ہم نے ان سے کاری کی رسم بھی لے لی اور اب نفرتوں کے زینے ہیں اور ہمارے قدم ہیں نہ جانے کہاں ڈیرا ہوگا خدا خیر کرے۔

ہم نے ان کو اس ستر سال والے پاکستان جو وادی مہران کی کل تاریخ میں دو فیصد کا زماں و مکاں بھی نہیں وادی مہران کا سمبارا بھی بخشش کردیا۔

ہاں مگر اب سنا ہے کچھ متوالے اب پاکستان کی تاریخ سے آگے وادی مہران کی تہذیب کے وارث بننے میں بھی فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ان میں بلاول بھٹو کو بھی لینا پڑے گا۔ اور وہ جس نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے۔ آرکیالوجی کے ماہر قاسم علی قاسم کی طرح۔ بٹوارا ابھی پورا نہیں ہوا جب تک سمبارا ہم ان سے لے نہیں لیتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ رہنے دیجیے سمبارا کے کہیں ہم اس کا حشر بامیان کے بتوں جیسا نہ کرلیں۔ آپ نے کبھی وہ سمبارا کی مورتی دیکھی ہے جس نے بے تحاشا چوڑیاں اپنی بانہوں میں کسی ہوئی ہیں جس طرح تھر کے مکیں دلت قوم والے پہنتے ہیں، بھورو بھیل والے، ماروی پہنتی تھی۔

سمبارا دوبارہ زندہ ہوئی تھی ماروی کے روپ میں۔ جسے شاہ لطیف نے دریافت کیا تھا۔ ماروی دوبارہ زندہ ہوئی تھی بے نظیر کے روپ میں، بے نظیر بھٹو اس لاڑکانہ کے سٹی والے ایک شخص کی بیٹی تھی اور وہیں مٹی ہوئی۔ آئیے ہم سب سمبارا کو واپس لائیں اور اپنی مٹی میں اسے رچائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔