آپ اور آپ کا قیدی

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 15 اکتوبر 2016

ہر انسان کے اندر ایک کامیاب ، دانش مند اورعقل مند انسان قید ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اندر قید اس انسان کو کیسے آزادی دلوا سکتا ہے۔ آئیں! پہلے سقراط کا ایک قصہ پڑھتے ہیں، سقراط کا باپ سو فرونس کس ایک نامور سنگ تراش تھا ۔ گھر کے صحن میں جب بھی اس کابا پ کا م کرتا تھا تو وہ اس کا ہاتھ بٹاتا تھا، خاصے عرصے تک سقراط صرف تراش خراش کے ابتدائی کام کرتا رہا۔

ابتدائی مشق کے لیے سنگ مرمر جیسی قیمتی چیزکو ضایع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے سطح کے ہموار ہو جانے کے بعد جب اصل کام شروع ہوجاتا، تو سقراط کا باپ خود کام کرنے لگتا اور سقراط ایک ایک کرکے اسے اوزار دیتا رہتا اور کام کو غور سے دیکھتا رہتا، ایک مرتبہ ایک فوارے کے منہ کے لیے ایک شیرکا سر بنانا تھا، سوفرونس کس نے سنگ مر مر کا ایک ٹکڑا لیا، اور اس پر کام شروع کردیا۔

سقراط نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہوتا ہے کہ تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی سخت چوٹ لگائیں تو وہ انتہائی کوشش کے باوجود صحیح جواب نہیں دے سکا۔ اس نے کہا ’’یوں سمجھو کہ سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے پھر یوں محسوس کرو کہ شیر سطح کے نیچے قید ہے وہ تمہارا منتظر ہے اور تمہیں اسے آزاد کرنا ہے اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ تمہیں تیشہ کہاں رکھنا چاہیے اور کتنی سخت چوٹ لگانی چاہیے۔

سقراط نے اپنے باپ کی اس بات پر بہت غور کیا اور اس موقعے پر اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی ایک بات یاد آئی وہ دائی کے کام میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھی۔ سقراط نے اس سے پوچھا تھا ماں تم یہ کام کس طرح کر لیتی ہو‘‘ اس نے جواب دیا تھا ’’میں ’خود کچھ بھی نہیں کرتی میں تو بچے کے آزاد ہونے میں معاون ہوتی ہوں‘‘ یاد رکھیں اگر آپ اپنے آپ کو اپنے آپ سے آزاد نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو دریافت نہیں کریں گے تو پھر آپ اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھاتے رہیں گے اور پھر ایک دن آپ کے اندر قید کامیاب ، خوشخال ، دانش مند اور عقل مند انسان آپ کے ساتھ ہی مرجائے گا ، وہ انسان اپنے جنم لینے سے پہلے ہی مرجائے گا۔

’ہر چیز ممکن ہے یقین ہی ان چیزوں کی اصل حقیقت ہے جن کی ہم امید کرتے ہیں ان چیزوں کا ثبوت ہے جو دکھائی نہیں دیتیں‘ ہنری فورڈ کی سوانح عمری اس مختصر اور انتہائی رجائیت پسندانہ فارمو لے پر ختم ہوتی ہے یہ آخری الفاظ ایک قسم کا روحانی ترکہ ہیں اور اس نے یقین کے بارے میں جو کہا ہے وہ قطعاً کوئی اتفاقیہ کہی گئی بات نہیں ہے۔

اس کی تمام زندگی اور کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر متزلزل یقین کے حامل شخص کے لیے سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں کوئی یخ بستہ جمی ہوئی مچھلی دیکھی ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس مچھلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی ہے، اگر نہیں تو پھر آپ اپنے نزدیکی مچھلی بازار میں دوڑتے ہوئے جائیے اور اس یخ بستہ مچھلی کا انتخاب کیجیے جو آپ کو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور اسے خرید کر گھر لے۔

آئیے اس یخ بستہ مچھلی کو پھر اپنے ہاتھ میں تھام لیجیے اس کی آنکھوں میں دیکھیے اور جہاں تک ممکن ہو اس سے باتیں کرنے کی کو شش کیجیے اپنے آپ اور اس یخ بستہ مچھلی کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں کے ذریعے تعلق قائم کرنے کی کو شش کیجیے تاکہ آپ کے اندر موجود آپ کی ذات کا یخ بستہ مچھلی کے ساتھ بامقصد ذاتی تعلق استوار ہوجائے اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آپ کو اس کی جانب سے یہ پیغام ملے گا کہ ’’ ایک یخ بستہ مچھلی کی مانند نہ بنیے ‘‘ آپ پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ آپ کو کامیابی و کامرانی نصیب ہو لیکن پھر بھی لوگ ناکام ہوجاتے ہیں کیوں ؟

ان کی ناکامی میں یقیناً فطرت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ فطرت ہر حال میں انسان کے لیے کامیابی چاہتی ہے اور جب انسان اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کامیابی اور کامرانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی تمنا فطری قانون واصول کے عین مطابق ہے۔ لوگ صرف اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں اور کامیابی و کامرانی حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ اپنے آپ کے اندر کے انسان کو ساری عمر قید رکھتے ہیں وہ اپنے آپ سے ملاقات ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پاتے ہیں۔

ایک مشہور کہاوت کے مطابق ’’جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتا ہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے‘‘، اس لیے آپ فوراً رونا دھونا بند کردیجیے اپنے نصیبوں کو برا بھلا کہنا فوراً روک دیجیے اور ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا کی برائیاں کرنا فوراً چھوڑ دیجیے، کیونکہ آپ کی ناکامی، بدحالی، غربت افلاس ، بے اختیاری کا سارا قصور نہ تو آپ کے نصیبوں کا ہے اور نہ ہی آپ کی قسمت خراب ہے ان تمام ناکامیوں کے آپ ہی اکلوتے ذمے دار ہیں۔

اس لیے یہ رونا دھونا، چیخنا چلانا، دہائیاں دینا اور کوسنا آخر کیوں، کیا آپ معذور ہیں محتاج ہیں، بیمار ہیں، اپاہج ہیں۔ کیا آپ ہی صرف بغیر صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پیدا کیے گئے ہیں۔ کیا آپ کو کسی نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپنے آپ کو لعنت ملامت کیجئے اپنے آپ کو شرمندہ کیجیے امریکہ ، روس ، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگوں کی حالت تو ہم سے کہیں زیادہ بد ترین تھی لیکن انھیں اس بات پر یقین تھا کہ فطرت ہر حال میں ان کی کامیابی و کامرانی چاہتی ہے۔

بہت عرصے پہلے ایک بہت ہی کمزور، معذور بچہ ایلیس ہوتا تھا وہ اس قدر غریب تھا کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکثر بھوک کا شکار رہتے تھے اور انھیں کھانے کے لیے کوئی چیز بھی میسر نہ ہوتی تھی۔ اس نے سینے کی مشین ایجاد کی لیکن کوئی شخص بھی اسے خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کی تجربہ گاہ میں آگ لگ گئی اس کی بیوی فوت ہوگئی لیکن وہ پھر بھی مسلسل کوشش کرتا رہا اور بالآخر اپنی یہ مشین بیچنے میں کامیاب ہوگیا اور پھر ایلیس محض بارہ سال کے اندر کروڑ پتی بن گیا۔

عظیم سائنس دان اور برقی سائنس کا موجد ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا اس عظیم سائنس دان کا نام مائیکل فراڈے تھا۔ ایلس فوٹی میک ڈوگال خاتون نیو یارک کے ریلو ے اسٹیشن پرکافی اور بسکٹ فروخت کیاکرتی تھی پھر ایک دن اس نے پچاس لاکھ ڈالر مالیت پر مشتمل بے شمار ریسٹوران قائم کیے۔ سٹیوارٹ نیویارک آیا تو اس کی جیب میں صرف ڈیڑھ ڈالر تھے اور محنت کے بعد جلد ہی کروڑوں پتی بن گیا۔

اینڈریو جیکسن اور ابراہم لنکن دونوں امریکا کے عظیم صدور تھے ابتدائی زندگیوں میں یہ دونوں اشخاص انتہائی غریب تھے اولیسس ایس گرانٹ ابتدا ء میں ایک کاروباری فرد کی حیثیت سے ناکام ہوگیا۔ 39سال کی عمر میں وہ ایندھن کے لیے استعمال کرنے کے لیے لکڑیاں کاٹتا تھا اور پھر صرف 9سال بعد ہی وہ امریکا کا صدر بن گیا۔ مصطفی کمال ترک فوج میں ایک عام سپاہی تھا جو ترکی کا حکمران بن گیا۔

رضاشاہ ایرانی فوج میں ایک ادنیٰ رنگروٹ تھا جو بعد میں ایران کا شہنشاہ بنا۔ جولیس سیزر مرگی کا مریض تھا جس نے معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ دیماس تھینز ہکلا کر بولتا تھا لیکن وہ قدیم یونان کا ایک عظیم خطیب اور مقرر بنا۔ فرینکلن دی روز ویلٹ بچپن میں فالج کا شکار ہوگیا تھا لیکن سخت محنت کے باعث امریکا کا صدر بنا ۔ اگر آپ اب بھی اپنے اندر قید کامیاب ، خوشحال، دانشمند اور عقل مند انسان کو رہائی دلوانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آپ کے لیے دعائیں بھی بے اثر رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔