شکرگزار قلم…!

رئیس فاطمہ  اتوار 16 اکتوبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

احسان کر کے فراموش کر دینا ایک بہت بڑی بات ہے۔ صاحب ظرف لوگ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنا احسان جتاتے نہیں ہیں۔ حالانکہ جن پر احسان کیا جائے وہی عام طور پر نقصان بھی پہنچاتے ہیں اور کارا وار بھی کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اس تلخ حقیقت کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی کسی ضرورت مند کی مدد کرنے سے باز نہیں رہتے۔ خواہ وہ مخالف کیمپ کا آدمی یا خود دشمن کیوں نہ ہو۔

اہل ظرف، اللہ اور اس کے رسولؐ سے ڈرنے والے اور ان کے احکامات پہ عمل پیرا ہونے والے ہمیشہ کسی بھی ضرورت مند کی مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ یہی صدقہ جاریہ بھی ہے اور انسانی عظمت کی دلیل بھی۔ جب کہ احسان فراموش موقعے سے فائدہ اٹھا کر احسان کرنے والے کی غیر موجودگی میں ایک طرف نماز پڑھ کے سلام پھیرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں۔

دوسری طرف کسی دوست یا رشتے دار سے احسان کرنے والے کی غیبت جی بھر کے کرنی شروع کر دیتے ہیں، لیکن اس بدگوئی میں وہ یہ بات صاف چھپا جاتے ہیں کہ جس کی برائی وہ کر رہے ہیں وہی نیک بندہ ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کا باعث بنا ہے۔ لیکن خدا سب جانتا ہے۔ اسی لیے یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ وہ نیک لوگ جو بنا غرض کسی کے بھی کام آتے ہوں اور پروپیگنڈا بھی نہ کرتے ہوں، ان سے اللہ راضی رہتا ہے۔ کوئی دشمن کتنے بھی وار کرے، کارگر نہیں ہوتے بلکہ مخالفین اور دشمنوں کی ہزار کوششوں کے باوجود خدا راستے کھولتا جاتا ہے۔ ایک در بند ہوتا ہے تو اللہ کوئی دوسرا در کھول دیتا ہے۔

قارئین کرام! یہ تمہید باندھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ یہ اعتراف کرسکوں کہ ہزارہا برائیوں کے باوجود ہزارہا خود غرضیوں اور بے بسی کے باوجود اب بھی دنیا میں نیک اور ہمدرد لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے بے غرض لوگوں میں سرفہرست میں اپنے ان قارئین کو رکھتی ہوں بلکہ سلام پیش کرتی ہوں، جنھوں نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا اور میری ایک درخواست پر ان مستحق لوگوں کی مدد کی جن کا ذکر میں نے اپنے کالم میں کیا تھا۔

سب سے پہلے میں اس تازہ ترین کالم کا ذکر کروں گی جس میں ایک مستحق میاں بیوی کا ذکر اپنے کالم (26 جون 2016) میں کیا تھا۔ اس کالم کے جواب میں اندرون ملک، بیرون ملک اور کراچی سے بہت سارے مخیر خواتین و حضرات نے رابطہ کیا۔ محترمہ افروز اختر اور میرے ویمن کالج ناظم آباد نمبر1 کی ساتھی پروفیسر راشدہ نے براہ راست میرے ذریعے اس خاندان کو رقم پہنچائی۔ مذکورہ میاں بیوی نے مجھ سے بصد اصرار کہا تھا کہ میں اپنے کالم کے ذریعے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کر دوں، جنھوں نے ان کی دکان میں سامان ڈلوایا، فریج کا انتظام کروایا اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم مہیا کی۔

کسی نے ایزی پیسہ کے ذریعے رقم بھیجی، کسی نے گھر بلا کر دی، کسی نے ان کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی۔ خاص طور پر میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی جنھوں نے پشاور سے رقم بھیجی۔ میں ان تمام لوگوں کی تہہ دل سے ممنون ہوں کہ جنھوں نے میرے لفظوں کا اعتبار کیا۔ بہت سے لوگوں نے ان خاتون کو فون کر کے یہ بھی کہا کہ رمضان میں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ دوسری جگہ دے چکی ہیں۔ آئندہ خیال رکھیں گی۔

میں ان تمام خواتین و حضرات سے دوبارہ درخواست کرتی ہوں جنھوں نے عیدالفطر کے بعد مدد کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اپنا وعدہ نبھائیں کہ مذکورہ خاتون ایک حادثے کا شکار ہو کر بستر پہ پڑی ہیں۔ سلائی کڑھائی اب وہ بہت دن تک نہ کر سکیں گی۔ جہاں اتنے لوگوں نے مدد کی وہاں کچھ ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جنھیں جب یہ معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ خاندان کا تعلق ’’کراچی‘‘ سے ہے تو وہ ترنت فون بند کر دیتے تھے۔ خاتون دل برداشتہ ہوتی تھیں، جب انھوں نے فون کر کے مجھے یہ صورتحال بتائی تو میں نے انھیں ایک محاورہ یاد دلایا جو کچھ یوں ہے ’’آدمی، آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر‘‘۔

جی چاہتا ہے آج بہت سے لوگوں کا شکریہ ادا کروں۔ ان سب کا جنھوں نے ہمیشہ میرا مان رکھا ہے۔ 2001ء میں سب سے پہلے ایک خاندانی فیملی کے لیے اپنا کالم ذریعہ بنایا تھا۔ جہاں ایک شخص کے دل کا آپریشن تو ہو چکا تھا لیکن ڈاکٹروں نے انھیں اپنے تجربے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ میرے اس پہلے کالم کے جواب میں ان خاتون کی جو مدد ہوئی میں خود اس پر حیران تھی اور خوش بھی تھی یہ سوچ کر کہ ہمارا ایکسپریس کہاں کہاں پڑھا جا رہا ہے اور پڑھنے والے ہمارے لفظوں کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔

ایکسپریس کے قارئین اور دیگر مخیر خواتین و حضرات کی مدد سے نہ صرف ان خاتون کے شوہر کا شافی علاج ہوا، بلکہ انھوں نے اس رقم سے نارتھ کراچی میں ایک چھوٹا سا فلیٹ بھی خرید لیا۔ اسی طرح میری سابقہ اسٹوڈنٹ سبین کے والدین کا فلیٹ جسے ہاؤس بلڈنگ والے قرضہ ادا نہ ہونے کی بنا پر قرق کرنا چاہتے تھے وہ بھی میرے ایک کالم کی بدولت قرقی سے بچ گیا۔

میرے قارئین نے یہاں بھی میرا مان رکھا۔ اسی طرح سید وارث علی کے لیے لکھے گئے دو کالموں نے ان کی فیملی کی بہت مدد کی۔ آج بھی ان کالموں کی بدولت ان کی مدد ہو رہی ہے۔ میں یہاں بھی شکر گزار ہوں۔ اور ریلوے کے اس ملازم کے لیے لکھے گئے کالم کے حوالے سے بھی میں ممنون ہوں جس کا پتہ مجھے اپنے اخبار کے سٹی پیج پہ چھپی خبر کے ذریعے سے چلا تھا، جس میں ایک ٹرین کی زد میں آنے والے اس ملازم کی تفصیل تھی جس میں اس کی ٹانگیں کٹ گئی تھیں۔

میرے لیے وہ اجنبی تھا لیکن انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت لکھے گئے اس کالم کی وجہ سے جس طرح اس شخص کے علاج معالجے، دواؤں، مصنوعی ٹانگیں اور دیگر اخراجات کے لیے وصول ہونے والی رقم کی اطلاع وہ شخص خود اور اس کا بھائی مجھے ہر روز دیتے تھے۔ پھر میں نور جہاں یعنی بانو اماں کے لیے مانگی گئی مدد کے جواب میں ملنے والی رقم کے لیے بھی شکر گزار تھی۔ بانو اماں کینسر کی مریضہ ہیں اور زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں اور آخر میں 26 جون کو لکھے گئے اس کالم کے جواب میں ملنے والی مدد کے لیے بھی ایک بار پھر شکر گزار ہوں۔

البتہ ایک بات کا شکوہ ضرور کروں گی کہ جب بانو اماں کے لیے کالم لکھا تو ایک تکلیف دہ انکشاف ہوا، وہ یہ کہ ان سے پہلے جو بھی کالم کسی مستحق کی مدد کے لیے لکھے گئے ان میں کسی نے مجھ سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ کسی نے بھی ان سے ان کے مسلک یا مذہب یا زبان کے بارے میں نہیں پوچھا۔ لیکن جب نورجہاں اماں نے مجھے گھر آ کر یہ بتایا کہ بعض لوگوں نے ان سے ان کے مسلک اور فرقے کے بارے میں پوچھا اور جواب سن کر کہا کہ وہ ان کی مدد کرنے سے معذرت چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتیں، کسی نے اردو اسپیکنگ ہونے کی وجہ سے ان کی مدد سے معذرت چاہی۔ بعض نے ان کی نواسی کے دیے گئے موبائل نمبر پر فحش اور بے ہودہ گفتگو کی۔

تنگ آ کر اس نے اپنا فون نمبر بدل لیا۔ یہ سب جان کر مجھے بہت صدمہ ہوا کہ ہم لوگ کس طرف جا رہے ہیں؟ زبان، فرقے، مسلک اور مذہب کے بت تراشے جا رہے ہیں اور انسانیت کے روشن مینار پہ کالک پوتی جا رہی ہے۔ ہم ایک قوم کبھی نہیں بن سکتے، کیونکہ ہمارے خمیر میں بت پرستی شامل ہو گئی ہے۔ اسلام بت پرستی کے خلاف ہے۔

ہم نے کعبہ سے تو بتوں کو نکال پھینکا لیکن مذہب، فرقوں، زبان اور صوبوں کے بت اپنے اندر سجا لیے کیونکہ ان بتوں کو اپنے سینوں میں جگہ دینے کی قیمت ہمیں ہمارے سیاستدان بھاری معاوضوں، پرمٹ، پلاٹ، بینکوں کے قرضوں، شوگر ملوں اور بڑے بڑے عہدوں کی شکل میں دیتے ہیں اور اس بت پرستی کو فروغ دینے میں ہمارے ٹی وی والے بھی پیش پیش ہیں۔ کیونکہ وہ بھی سیلزمین ہیں اور اپنی اس پروڈکٹ کو بیچنا اچھی طرح جانتے ہیں جن کی قیمت انھیں ہمیشہ سے بہت اچھی ملتی رہی ہے اور ملتی رہے گی۔

لیکن ان سب سے قطع نظر دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو صرف اور صرف ’’دوسروں کے واسطے زندہ رہو‘‘ کے جذبے پہ یقین رکھتے ہیں۔ اہل ظرف نہ کسی کی عیاری اور مکاری پہ دھیان دیتے ہیں نہ کسی کی دشمنی پر۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ’’کون مشکل میں ہے‘‘ اور ’’کس کی مدد وہ کر سکتے ہیں‘‘ اسی لیے وہ صرف اللہ کی خوشنودی اور اپنی قبر کو روشن رکھنے کے لیے کسی بھی ضرورتمند کی مدد کو تیار ہو جاتے ہیں۔ خواہ وہ مدد کالم لکھ کر کی جائے یا کسی اور ذریعے سے۔

وہ احسان فراموشوں کی بد زبانی کو بھی ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ان کے منفی پروپیگنڈے کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور مخالفین کو لمبی عمر کی دعا دیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جس کی جھولی میں جو ہو گا وہی تو وہ دوسروں کو دے گا۔ اگر پھول ہوں گے تو پھول برسائے گا اور کانٹے ہوں گے تو جھولی سے کانٹے ہی نکلیں گے۔ اہل ظرف اس سورج کی مانند ہوتے ہیں جس کی روشنی دوست دشمن سب کے لیے ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔