قانون سازی ہی نہیں، اطلاق بھی ضروری ہے

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 16 اکتوبر 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

عدالت عظمیٰ نے جھوٹی گواہی پر سزا یافتہ قیدی کو بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بے گناہ شخص کی 19 سال قید کا ازالہ کیسے ہوگا؟ جب تک مدعی خود اپنے ساتھ انصاف نہیں کرے گا سچ نہیں بولے گا، ملزم کو سزا نہیں ہوسکتی۔ سب سے پہلے تو اس شخص کو سزا ملنی چاہیے جس نے جھوٹی گواہی دی۔ اس طرح کے مقدمات میں تمام حقائق کا جائزہ لے کر فیصلے کرنے چاہئیں، تاکہ انصاف ہوسکے۔

چند ماہ پیشتر دھنیا چوری کے ایک مقدمے میں بھی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ملک میں اربوں کی کرپشن کرنیوالے آزاد پھر رہے ہیں اور ایک غریب کو دھنیا چوری کے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اخبار میں ایک قیدی کی خبر چھپی ہے کہ وہ محنت مزدوری کرنے کراچی آیا تھا، رکشہ مالک نے اس سے رکشے کے کرایے کی مد میں ناجائز رقم کا مطالبہ کیا اور رقم نہ دینے پر اسے چوری کے جھوٹے مقدمے میں بند کرا دیا۔ عدالت نے اس کی 50 ہزار روپے کی ضمانت منظور کرلی ہے مگر اس کے پاس یہ رقم نہیں ہے۔

ایک اور خبر ہے کہ پولیس نے جعلی پولیس مقابلے میں ایک نوجوان کو مار ڈالا، جب کہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس سے قبل بھی کراچی شہر میں قانون نافذ کرنیوالوں کے ہاتھوں کلفٹن میں ایک نوجوان کے قتل کی ویڈیو سامنے آئی، ناگن چورنگی پر بھی ایک شخص کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔

ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں پولیس اشارے پر نہ رکنے پر جان سے مار ڈالتی ہے یا کسی تکرار، رقم ہتھیانے یا غلط فہمی یا خوف کی بنا پر بے قصور شہریوں کا قتل کرکے اسے پولیس مقابلے کا رنگ دے دیتی ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے خوف و ہراس اور عدم تعاون کا رجحان بڑھ رہا ہے اور ان کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے، جسے محض خوش کن بیانات یا ہفتہ خوش اخلاقی مناکر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انصاف کے حصول اور تعطل میں قانون نافذ کرنیوالے ادارے، استغاثہ، نااہل و کرپٹ وکلا تمام شامل ہیں، جو انصاف کا خون کر رہے ہیں۔ ان شعبوں سے ایسے افراد کی تطہیر اور ان کا احتساب وقت کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتیں جرائم کی بیخ کنی کے لیے وقتی ضرورت کے تحت نئے نئے قانون تو وضع کرتی رہتی ہیں لیکن عموماً ان کی حیثیت وقتی و نمائشی قسم کی ہوتی ہے، ان کا نیک نیتی سے اطلاق بھی نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے مزید پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔

فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین کا نیک نیتی اور دیانتداری سے اطلاق کیا جائے، اس کی بعد عصر حاضر کی ضروریات کیمطابق ان قوانین کو موثر اور متحرک بنانے پر توجہ دی جائے۔ اگر حکومت، قانون نافذ کرنیوالے ادارے، ججز اور وکلا قانون سے کھلواڑ کرنے پر تلے ہوں تو پھر کوئی قانون خود اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا۔

ایک خبر ہے کہ پاکستان کے فوجداری نظام، پولیس سے لے کر استغاثہ، عدالتوں اور ججوں تک نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہتر بنانے کے لیے وزیراعظم کے مشیر اور اٹارنی جنرل مل کر اصلاحات پیکیج پر کام کررہے ہیں۔ اصلاحات پیکیج میں ایف آئی آر کا نظام بہتر بنانے، پراسیکیوشن سروس کی اوور ہالنگ، لیگل سروس کا قیام، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیا وفاقی قانون لانے، فضول قانونی مقدمات کی روک تھام، اپیل کے مختلف مراحل پر مشتمل نظام کا جائزہ لینے، تنازعات طے کرنے کے لیے متبادل نظام لانے اور وراثت کی سند کے اجرا کے لیے نادرا کی خدمات حاصل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون میں ترمیم لانے پر غور کیا جارہا ہے کہ ایف آئی آر صرف اس صورت میں درج کی جائے گی جب کیس کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہوجائیں گی۔ لیگل سروس آف پاکستان کے نام سے ایک ادارے کے قیام پر غور کیا جارہا ہے جو اس قانون کے دائرے میں ہر سطح پر آنے والے ٹیلنٹ کے لیے تربیتی گراؤنڈ کا کام کرے گا۔ یہ ادارہ سول ججز اور اٹارنی جنرل سمیت قانون کے حصے کے تمام افسران کی تربیت کی نگرانی کرے گا۔ ذرائع کیمطابق دہشت گردی کی تمام اقسام سے نمٹنے کے لیے ایک وفاقی قانون لانے پر بھی غور کیا جارہا ہے، جس کے تحت دہشتگردی سے نمٹنے، ملزم کی حراست اور اس میں توسیع، تحقیق اور ریمانڈ جیسے معاملات شامل ہوںگے۔

اس قانون کے تحت ایک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی قائم کرنے کی تجویز ہے جو اس قانون کے تحت جرائم کی تفتیش کرے گی، ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں وفاقی حکومت کے ماتحت لیبارٹری قائم کی جائے گی، اس کے علاوہ آزاد پراسیکیوشن ایجنسی اور وفاقی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی، گواہان، وکلا، تفتیش کاروں اور ججوں کی شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیںگے۔

عدالتی مقدمات کی تاخیر کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی فریق کی عدم تسلی پر سماعت ملتوی کردی جاتی ہے، جو دیگر معاملات میں سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ پورے نظام کو فضول و بے مقصد مقدمات سے نقصان پہنچتا ہے، جنھیں ختم کیا جاتا ہے نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ لامحدود حکم امتناعی کی وجہ سے منفی عناصر طویل قانونی کارروائی شروع کردیتے ہیں، مالی معاملات میں غلط کام کرنیوالے اپنے مقدمات اٹھا کر رکھتے ہیں، اپیل کے نظام میں انتہائی زیادہ وقت خرچ ہوتا ہے، زیادہ تعداد زمینوں پر قبضے اور جائیداد کی بے ضابطگیوں سے متعلق ہے، ان مسائل کے حل کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سطح پر زمین کی ملکیت کا جامع کمپیوٹرائزڈ نظام لایا جارہا ہے تاکہ جھوٹے مقدمہ بازی کا تدارک کیا جاسکے۔ بے جا مقدمہ بازی سے بچنے کے لیے بار بار سماعت ملتوی کرانیوالے فریق یا وکیل پر بھاری بھرکم فیسوں کا اطلاق کیا جائے گا۔ حکومت عدم تعمیل کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے اور مقدمہ نمٹانے کے لیے وقت کا تعین کرنے پر بھی غور کررہی ہے۔

اس قانون کے خدوخال اور موثریت تو اس وقت سامنے آئے گی جب یہ حتمی شکل اختیار کرکے نافذ العمل ہوگا۔ ذرائع سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو عدالتی معاملات اور عوامی مسائل کا خاصی حد تک اندازہ ہے اور ان کا اس قانون میں خاصی حد تک احاطہ کیا گیا ہے، حکومت کو اس قانون کو حتمی شکل دینے سے قبل وراثت ملکیت اور ملکی قوانین سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کو بھی زیر غور لانا چاہیے جو عرصے سے عدم توجہی کا شکار چلی آرہی ہیں۔

جھوٹے مقدمات اور گواہی پر فوری سزا و جرمانہ کا میکینزم وضع کرنے پر بھی غوروخوض کرنے کے علاوہ عدالتی نظام میں روایتی و فرسودہ طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لیے اصلاحات لانی چاہئیں، مثلاً عدالتی نوٹس کی تعمیل کے لیے کورٹ بیلف کو حکم دیتی ہے وہ یہ نوٹس دو گواہوں کی موجودگی میں مدعا علیہ کی جگہ پر چسپاں کرکے گواہوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بھی عدالت میں پیش کرے یا پھر عدالتی تحویل کے نوٹس میں کہا اور لکھا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ املاک پر جائے، ڈھول بجاکر منادی کرے کہ اس جائیداد کو عدالت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جب کہ آج کے دور میں عملاً ایسا نہیں ہوتا اور بیلف عدالت کے روبرو یہ حلفیہ بیان دینے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔

جب یہ عدالتی بیلف جھوٹا حلف دینے کا عادی ہوجائے گا تو وہ اپنے مفادات کے لیے بھی جھوٹا حلف دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ بیلف کی جھوٹی رپورٹوں سے بعض مرتبہ حق دار لاعلمی میں اپنے حق سے محروم یا شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح عدالتی ڈگری کی تعمیل کے سلسلے میں اس پر عمل کرانے کے لیے علیحدہ سے کیس کیا جاتا ہے، جس میں پھر عدالتی کارروائی عمل میں آتی ہے، جس سے وقت اور پیسہ دونوں ضایع ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں اس پہلو پر غوروخوض کیا جانا چاہیے کہ کوئی ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ جس عدالت میں مقدمہ کا فیصلہ ہوا ہو وہ اسی مقدمے میں اپنے فیصلے کی تعمیل بھی کروائے تاکہ عدالت، فریقین اور وکلا وقت اور پیسہ ضایع ہونے سے بچایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔