جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہوتی

شاہد سردار  ہفتہ 15 اکتوبر 2016

جب انسان یا کسی ملک کے سر میں بڑی طاقت بن جانے کا سودا ہو تو اس کی گفتگو میں نہ منطق ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تاریخی صداقت، اور بھارت گزشتہ کئی برسوں سے اسی مرض یا زعم میں مبتلا ہے۔ حالانکہ پاکستان کی اکثریت نے ہندوستان کو تسلیم کرلیا ہے لیکن ہندوستانیوں کی اکثریت نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ نتیجے میں پاکستان اور انڈیا میں آئے دن کشیدگی نظر آتی ہے۔

ان دنوں بھی دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کے بعد دونوں ملکوں کے عوام میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا یا جنگ کسی بھی مسئلے یا تنازعے کا حل نہیں ہوتی، ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے لاکھوں جانیں ضایع ہوتی ہیں اور املاک کو شدید نقصان پہنچتا ہے، لہٰذا دانائی کا تقاضا ہے کہ آپس میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالا جائے کیونکہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہوتی۔

پاکستان 1947 میں اپنے قیام کے وقت سے کوشاں رہا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت پیدا ہونے والے تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جائے اور پاکستان اور بھارت خیرسگالی ومفاہمت کی ویسی ہی فضا قائم کریں، جیسی امریکا اورکینیڈا کے درمیان دکھائی دیتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ خواہشات ہمیشہ ہی تشنہ رہیں اوردونوں ممالک کی جنگوں سے گزرکر ایک بار پھر ایسی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے دوچار ہیں، جس میں معمولی سی غلطی بھی پورے خطے کے لیے ہولناک ہوسکتی ہے۔

عالمی منظرنامہ اس بات کا ہمیشہ گواہ رہے گا کہ پاکستان نے بھارتی اشتعال کے باوجود ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تحمل اور برداشت کی اس اخلاقی قوت کا مظاہرہ وطن عزیز بار بارکرتا رہا ہے جسے شاید پاکستان کی کمزوری سمجھ کر اسے دھمکیاں دینے اور اس کے خلاف مہمیں چلانے کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں سات لاکھ فوجیوں کے جبروستم کے نتیجے میں ابھرنے والی آزادی کی نئی لہر طوفان کا روپ دھارتی محسوس ہورہی ہے۔

دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا اوراقوام متحدہ نے دونوں ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔ لیکن اس مذاکرات کا سب سے بڑا اندیشہ اور مسئلہ کشمیر  پر مذاکرات سے کمزور، ظلم، غاصب اورقابض فریق کو سب سے بڑا اندیشہ یہی ہوتا ہے کہ اس کے دلائل اور ثبوت اسے سچا ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے اور اسی اندیشے کے تحت بھارت کے حکمران کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے خلاف ہیں جو فیصلہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں یا فیصلے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

اس حوالے سے حضرت علی نے فرمایا تھا کہ جو انجام سے ڈر رہا ہوتا ہے وہ انجام کی جانب ہی بڑھ رہا ہوتا ہے۔ غاصبوں کے مددگار جو انھیں انجام اور فیصلوں سے محفوظ رکھنا یا بچانا چاہتے ہیں انھیں محفوظ رکھنے میں کامیاب تو نہیں ہوسکتے مگر ان کے فیصلے کی گھڑیوں کو آگے لے جانے میں کامیاب ضرور ہوسکتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے آخری فیصلے کو نصف صدی سے بھی زیادہ آگے لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مودی کا بھارت پاکستان کے لیے نہیں بلکہ خود بھارت کے لیے ہی ایک چیلنج ہے، وہ جمہوریت اور سیکولر بھارت کے لیے ایک چیلنج ہے، بھارت کی پیشہ ورانہ صحافت اور میڈیا کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بھارت کا جنگی جنون مودی کی سیاست ہے۔ پاکستان سے نفرت کی پالیسی کے ذریعے وہ اگلے انتخابات جیتنا چاہتا ہے۔

لمبے عرصے سے بھارتی ریاستی اداروں نے اپنے میڈیا کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والے ہر غلط کام کو پاکستان کے نام سے منسوب کردیں اسی طرح بھارتی اسٹیبلشمنٹ خود حملے کروا کر پاکستانی افواج پر اس کی ذمے داری ڈال دیتی ہے۔ اڑی حملہ، کنٹرول لائن پرگولہ باری یا فائرنگ پانی بند کرنے کی دھمکیاں اور دیگر تمام اقدامات کا مقصد بھارت کا یہی ہے کہ وہ دنیا کی توجہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹا دے۔

بھارت کی یہ تمام حرکتیں خطے میں امن کے لیے خطرے کا باعث ہیں، اس کا کشیدگی بڑھانا انتہائی خطرناک ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کو معلوم ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف خفیہ حملے کرنے کی ذمے داری بھی سونپی گئی ہے جس میں دہشت گردی کے واقعات، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر کو نشانہ بنانا اور حافظ سعید اور مسعود اظہر کو قتل کرانا بھی شامل ہے۔

پاکستان کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کو بھی یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ وہ مودی حکومت کو ہزیمت سے بچانے کے لیے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے دوچار کرنے کو یقینی بنائے۔ یہی نہیں بلکہ بھارتی سازش کے باعث اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس بھی ملتوی ہوگئی ہے، اور بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان نے اس کانفرنس میں عدم شرکت کی تصدیق کردی ہے۔

اب یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ مودی نے بھارت کو اپنی ذہنیت کا یرغمال بنالیا ہے اور ملک کو انتہاپسندی کی جانب جھکا دیا ہے۔کرکٹ، فلم غرض ہر اہم چیز یا شعبے کو انھوں نے یرغمال بنایا ہے۔ بھارت کے مرکزی دھارے کے الیکٹرانک میڈیا کے ایک بڑے حصے کا لہجہ بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہا ہے۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جوہری ریاستیں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ وہ لڑ نہیں سکتیں بلکہ تباہ کرسکتی ہیں، جو لوگ جنگ کے امکان کے بارے میں سوچتے ہیں وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ دونوں جاپانی شہر دوسری جنگ عظیم میں رونما ہونے والے انسانی تاریخ کی بدترین آفت سے اب بھی مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکے۔لہٰذا بھارت آسانی سے پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ چھیڑنے کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے یہ 1960 کی دہائی نہیں ہے۔

ایسے میں بھارتی میڈیا کی طرف سے اسے ایٹمی جنگ کے لیے اکسانا اپنے ملک کو ہلاکت میں ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم دنیا اور انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ایٹمی جنگ کے حالات کو روکنا پوری عالمی برادری کا فرض ہے۔ کیونکہ ایٹمی جنگ سے دوکروڑ فوری ہلاکتیں ہوجائیں گی اور اس کے بعد دنیا بھر میں تابکاری کے جو اثرات پھیلیں گے، ان سے مزید 2 ارب انسان فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے، قحط سے دنیا میں 2 ارب انسان مر جائیں گے۔

مہلک بیماریوں میں حد درجہ اضافہ ہوگا، پاکستان اور بھارت کے علاوہ چین کے 1 ارب 30 کروڑ باشندے بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے، 50 لاکھ ٹن دھوئیں کا بادل 50 کلومیٹر فضا میں بلند ہوکر پوری دنیا کو ڈھانپ لے گا، سورج کی کرنیں زمین پر نہیں پہنچ پائیں گی اور چھوٹے پیمانے پر برفانی دور شروع ہوجائے گا، کم بارشوں سے زراعت شدید متاثر ہوجائے گی، آگ کا طوفان ہر شے کو خاکستر کرکے رکھ دے گا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی غلطیوں میں شمار کی جائے گی اور اس غلطی میں کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ آزادی کے ساتھ بھارتی حکومت کی 70 سالوں پر پھیلی ہوئی ہٹ دھرمی کا دخل عالمی نگاہوں سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ جنگی جنون کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرے۔

وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی باتیں کر رہا ہے لیکن خود اس کی اپنی اقتصادی حالت پتلی ہے جس سے بھارتی معیشت دباؤ میں آگئی ہے۔ سرحدی علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہوگئی ہے۔ خالصتان تحریک پھر سے سر اٹھانے لگی ہے اور کئی دوسری ریاستوں میں علیحدگی کی مہم زور پکڑنے لگی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔