اور بحری جہاز نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔

سید بابر علی  اتوار 16 اکتوبر 2016
دوسری جنگ عظیم میںبحری جہاز کو نظروں سے غائب کرنے کی کوشش کئی جانیں نگل گئی، کیا ہوا، کیوں ہوا؟ اب تک ایک رازہے۔ فوٹو: فائل

دوسری جنگ عظیم میںبحری جہاز کو نظروں سے غائب کرنے کی کوشش کئی جانیں نگل گئی، کیا ہوا، کیوں ہوا؟ اب تک ایک رازہے۔ فوٹو: فائل

اگر امریکا کے جنگی جرائم پر نظر ڈالی جائے تو ان کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن دنیا پر حکومت کا خواب دیکھنے والے امریکی سام راجوں کے لیے اپنی ہی فوج کو ہول ناک تجربات کی بھینٹ چڑھانا بھی معمولی بات ہے۔ ایسا ہی ایک تجربہ ریاست فلاڈیلفیا کے نیول یارڈ پر پراجیکٹ رینبو کے نام سے کیا گیا۔

پراجیکٹ رینبو (فلاڈیلفیا ایکسپیری منٹ) مبینہ طور پر امریکی بحریہ کا ایک ایسا تجربہ تھا، جو نہ صرف ناکام ہوا بل کہ اس میں شریک عملے کے کچھ ارکان کے جسم پگھل کر جہاز کے دھاتی فرش سے چپک گئے اور باقی ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگئے تھے۔

مشہور سائنس داں البرٹ آئن اسٹائن کی سربراہی اور ان کی ایک تھیوری کی بنیاد پر ہونے والے اس بھیانک تجربے کا مقصد امریکی بحری جہازوں کو دشمنوں کی نظروں سے اوجھل کرنا تھا۔ اس تجربے کا آغاز 28جون 1943کو ہوا۔ امریکی بحریہ کے جنگی جہاز یوایس ایس ایلڈرگ ڈی ای (ڈسٹرایر اسکارٹ) 173پر ٹنوں وزنی تجرباتی برقی آلات نصب کیے گئے۔

22جولائی 1943کی صبح نو بجے جہاز پر نصب پاور جنریٹرز کو آن کردیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک وسیع مقناطیسی میدان بننا شروع ہوا۔ چند ہی لمحوں میں گاڑھی سبزمائل دھند جہاز کے اطراف میں پھیلنا شروع ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں یہ دھند جہاز سمیت غائب ہوگئی اور اس جگہ جہاں کچھ دیر قبل جنگی جہازایلڈررگ لنگرانداز تھا وہاں پُرسکون پانی اور سبز دُھند کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ بہ ظاہر اس ابتدائی تجربے کی کام یابی نے ساحل پر موجود امریکی بحریہ کے اعلیٰ افسران اور سائنس دانوں کو خوشی سے نہال کردیا۔

جہاز نہ صرف انسانی آنکھ بل کہ عملے سمیت راڈار کی نظروں سے بھی اوجھل تھا۔ پندرہ منٹ بعد عملے کو جنریٹرز بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ جنریٹرز بند ہوتے ہی مقناطیسی میدان ختم اور سبز سبز دھند چھَٹنے لگی، ایلڈررِگ سطح آب پر نمودار ہونا شروع ہوا۔ ساحل پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والوں کے لیے تو بہ ظاہر تو یہ ایک کام یاب تجربہ تھا لیکن ایلڈر رگ پر موجود عملے کے لیے یہ تجربہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ اس بھیانک تجربے میں جہا ز پر موجود انسانوں پر کیا گزری یہ بتانے کے لیے کوئی فرد موجود نہ تھا۔

جہاز کے عرشے پر موجود عملے کے کچھ ارکان کے جسم پگھل کر دھاتی فرش سے چپک گئے تھے، اور جہاز کے نچلے حصے میں موجود عملے کی دماغی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ امریکی بحریہ نے ابتدائی تجربے کی بھینٹ چڑھنے والے عملے کا فوری تبادلہ کرکے ایلڈر رگ پر نیا عملہ تعینات کردیا۔

جہاز سطح آب اور راڈار کی نظروں سے تو غائب ہوگیا تھا، لیکن اس تجربے کے انسانوں پر مرتب ہونے والے خوف ناک اثرات نے سائنس دانوں اور بحریہ کے اعلی حکام کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ طویل مشاورت کے بعد اس تجربے کو تھوڑی ترمیم کے بعد دوبارہ دہرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکام نے اس تجربے میں تھوڑی تبدیلی کرتے ہوئے پورے جہاز کو اوجھل کرنے کے بجائے اسے صرف راڈار کے لیے غیر مرئی بنانے کا فیصلہ کیا۔ تین ماہ بعد 28اکتوبر1943کی شام سوا پانچ بجے ایلڈررِِگ پر حتمی تجربہ کیا گیا۔

اس دور میں ذرایع ابلاغ کی محدودیت اور عملے کے نیم پاگل ہوجانے کے بعد دنیا کو اس بھیانک تجربے کے بارے میں بتانے والا کوئی نہیں تھا ، لیکن کُھلے سمندر میں موجود امریکی مرچنٹ جہازSS Andrew Furuseth پر موجود ایک افسر کارل ایم ایلین کے آنکھوں دیکھے شواہد اسے ذرایع ابلاغ کے سامنے لائے۔

ٹھیک تجربے کے وقت SS Andrew Furuseth کے عرشے پر موجود کارل ایم کا دعویٰ تھا کہ اس نے فلاڈیلفیا کے تجربے کا حصہ بننے والے جہاز یو ایس ایس ایلڈررگ کو خود اپنی آنکھوں سے غائب اور تجربے کے مقام سے 200 میل دور نورفوک ورجینیا کے سمندر میں ٹیلی پورٹ ہوتے دیکھا۔ اس بھیانک تجربے کے نتیجے میں جہاز پر موجود عملے پر کیا بیتی اس پر بھی متضاد کہانیاں موجود ہیں۔ اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس ہول ناک تجربے کو خفیہ رکھنے کے جہاز کے عملے کی برین واشنگ کی گئی تھی۔ تاہم امریکی بحریہ کی جانب سے اس تجربے کی خبروں کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ہمیشہ تردید کی جاتی رہی ہے۔

اس تجربے کے حقیقی یا من گھڑت ہونے کے بارے میں متضاد آرا ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اس بات کے حقیقی ہونے پر متفق ہیں، کیوں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا بھر میں ہتھیاروں کے میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ڈور میں امریکا سرفہرست تھا۔ فلاڈیلفیا کے تجربے کی حقیقت جاننے کے لیے گزشتہ 36سال سے مختلف شواہد جمع کرنے والے مورخ اور محقق اینڈریو hochheimer کا کہنا ہے،’’فلاڈیلفیا کے تجربے میں میری دل چسپی 1980میں اس موضوع پر بننے والی سائنس فکشن فلم دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی۔

فلم دیکھنے کے بعد میں سیدھا ایک لائبریری میں گیا اور برلٹز اور ولیم کی کتاب ’دی ٖفلاڈیلفیا ایکسپیری مینٹ: پروجیک انویزی بلیٹی‘‘ کا مطالعہ کیا، جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کتاب میں بیان کیا گیا تجربہ غیرحقیقی نہیں ہے۔ اس دن سے میں نے اس انوکھے اور مہلک تجربے کے بارے میں ممکنہ حد تک معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اپنی تحقیق کے دوران میں امریکی بحریہ اور ممکنہ طور پر اس تجربے میں شامل افراد سے بھی ملا ، لیکن تقریبا چار دہائی کے عرصے میں البرٹ آئن اسٹائن سمیت سے بہت سے لوگ اس دنیا سے کوچ کر چکے تھے۔ تاہم اس وقت کے امریکی بحریہ کے فورتھ نیول ڈسٹرکٹ پر موجود کچھ افسران کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے دوران فلاڈیلفیا نیول شپ یارڈ پر معمول کی تحقیق جاری تھی، تاہم فلاڈیلفیا تجربے کی غیرمستند اور مفروضہ کہانیوں کی ابتدا دی گیسنگ (ایک سائنسی طریقۂ کار جس میں مقناطیسی میدان میں بچی کچھی مقناطیست کو کم یا ختم کردیا جاتا ہے) کے تجربات سے ہوئی، جس میں جہاز کو دشمن کے راڈار اور مقناطیسی سرنگوں کے لیے اوجھل بنا نے کے اثرات پیدا کرنا تھا۔

ممکنہ طور پر اس من گھڑت کہانی کی ابتدا لیوی ٹیٹیشن (علم طبیعات کا ایک طریقہ کار جس میں کسی شے کومیکانیکی مدد کے بغیر ہوا میں مستحکم پوزیشن پر بلند رکھنا)، ٹیلی پورٹیشن (ایک نظریہ جس کے تحت کسی مادے یا توانائی کو کسی مادی جگہ کے بغیر ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے) یا امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس ٹیمرمین پر جنریٹنگ پلانٹ کے ساتھ ہونے والے تجربات کے انسانی عملے پر مرتب ہونے والے اثرات سے بھی منسوب ہوسکتی ہیں، جس میں ہائی فریکوئنسی جنریٹر کی مدد سے کورونا ڈسچارج پیدا کیا گیا۔ تاہم ان تما م تجربات میں عملے کے کسی فرد کے ہلاک یا ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہونے کو رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔

hochheimer سے قبل 1963میں امریکی مصنف ونسینٹ گیڈیز نے ’’انویزیبل ہوریزنز: ٹُرو مِسٹری آف دی سی‘‘ کے نام سے ایک کتاب شایع کی، جس میں انہوں نے فلاڈیلفیا اور اس جیسے ناکام تجربات کو تفصیل سے بیان کیا۔ 1979 میں امریکی ماہر لسانیات چارلس برلٹز اور یو ایف او لوجسٹ (اُڑن طشتریوں پر تحقیق کے ماہر) ولیم ایل مور نے فلاڈیلفیا کے تجربے پر ایک مفصل کتاب ’’دی ٖفلاڈیلفیا ایکسپیری مینٹ : پروجیکٹ انویزی بلیٹی‘‘ کے نام سے شایع کی۔ اس کتاب میں ولیم نے دعویٰ کیا،’’البرٹ آئن اسٹائن نے ’یونی فائیڈ فیلڈ تھیوری‘ کو مکمل کرنے کے بعد اپنی موت سے قبل تباہ کردیا تھا۔‘‘ تاہم اس دعوی کو بعض مورخین اور آئن اسٹائن کے کام سے واقفیت رکھنے والے سائنس دانوں نے مسترد کردیا۔

مور نے یہ دعویٰ کارل ایلین (امریکی مرچنٹ میرین ایس ایس اینڈریوفروسیتھ پر تعینات ملاح جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر فلاڈیلفیا تجربے کی متنازعہ فرضی کہانی کو عوام میں مشہور کیا) کے مشہور ماہرفلکیات اور اُڑن طشتریوں پر کئی کتابوں کے مصنف مورس کے جیسپ کو لکھے گئے خطوط کی بنیاد پر کیا۔

واضح رہے کہ ایلین نے جہاز کے عرشے سے فلاڈیلفیا کے تجربے کی بھینٹ چڑھنے والے جہاز یو ایس ایس ایلڈررگ کو اپنی آنکھوں کے سامنے غائب اور پھر میلوں دورنورفوک کے پانیوں میں نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ ایلین 28اکتوبر 1943کو ہونے والے اس تجربے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرنے کے باوجود جیسپ جیسے ذہین آدمی کا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ تاہم ایلین سے رابطہ ہونے کے چار سال بعد جیسپ نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی تھی۔

hochheimer کا کہنا ہے کہ اس بابت دو نظریات پیش کیے جاتے ہیں پہلے نظریے کے مطابق یہ تجربہ مبینہ طور پر آئن اسٹائن کی وضح کردہ طبیعات کی ’’یونی فائیڈ فیلڈ تھیوری‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا تھا، جس کا مقصد الیکٹرو میگنیٹک ریڈی ایشن (برقی مقناطیسی تاب کاری) اور کشش ثقل کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے مقناطیسی میدان اور کشش ثقل کو ایک جگہ پر مرتکز کرکے کسی ٹھوس شے کو غیرمرئی بنانا تھا۔

اس تجربے کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں ایک نظریے کے مطابق اس تجربے میں شامل ریسرچرز کا خیال تھا کہ بڑے الیکٹریکل جنریٹرز استعمال کرتے ہوئے اگر روشنی کو کسی شے پر انعطاف (شعاعوں کو منتشر کرنا) کے ذریعے ایک مخصوص زاویے سے جھکاتے ہوئے ڈالا جائے تو وہ شے غیرمرئی ہوجائے گی۔ جہازوں کے غیرمرئی ہونے کے خیال نے امریکی بحریہ کو اس تجربے پر اکسایا اور انہوں نے اس تجربے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے۔

دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ محققین آئن اسٹائن کی کشش ثقل کو سمجھنے کی کوشش کے طور پر سمندر کی تہہ میں کسی بے ترتیبی کی تلاش کے لیے مقناطیسی اور تجاذب (کشش ثقل کی وجہ سے پیدا ہونے والا کھنچاؤ) کی پیمائش کر رہے تھے۔ اور اس کے لیے امریکی بحریہ کے جنگی جہاز یو ایس ایس ایلڈرگ کو منتخب کیا گیا اور فلاڈیلفیا شپ یارڈ پر اس جہاز میں ضروری آلات نصب کیے گئے۔ اس تجربے کی شروعات 1943کے موسم بہار میں کی گئی۔ محدود پیمانے پر کیے گئے آزمائشی تجربے کو کام یاب قرار دیا گیا۔

کچھ عینی شاہدین کے مطابق’’اس تجربے میں ایلڈررگ تقریباً نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا اور اس کی جگہ گہرے سبز رنگ کی دھند نظر آرہی تھی۔ کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ اس ٹیسٹ کے بعد جہاز پر سوار عملے کے کچھ افراد نے جی مالش کرنے (متلی) کی شکایت کی تھی۔ غائب ہونے کے بعد جہاز جب منظر عام پر آیا تو کچھ ملاح جہاز کے عرشے پر دھاتی ڈھانچے سے چپکے ہوئے تھے، جب کہ کچھ ملاح مکمل طور پر ہوش و حواس سے بے گانہ ہوچکے تھے۔ یہ نتائج دیکھ کر بحریہ نے اس تجربے میں کچھ ترمیم کی درخواست کرتے ہوئے یو ایس ایس ایلڈر رگ کو راڈار سے اوجھل کرنے کی درخواست کی گئی۔

ابتدائی تجربے کی ناکامی پر یہ تاویل پیش کی گئی کہ آلات کو صحیح طریقے سے ری کیلیبریٹ نہیں کیا گیا تھا اور اس تجربے کو 28اکتوبر1943کو دوبارہ دہرایا گیا۔ اس مبینہ تجربے میں جہاز کے گرد ایک انتہائی شدید نوعیت کا مقناطیسی میدان تخلیق کیا گیا جس نے راڈار کی لہروں کا رُخ تبدیل کردیا۔ اس مقصد کے لیے ایلڈررگ کے عرشے پر موجود چار مقناطیسی کوائلز کو پاور فراہم کر نے کے لیے 75 کلو واٹ کے دو بڑے جنریٹرز، تین ریڈیو فریکوئنسی ٹرانسمیٹرز (ہر ٹرانسمیٹر 2سو میگاواٹ کا تھا)، تین ہزار 6L6 پاور ایمپلی فائر ٹیوبز، خصوصی طور پر تیار کردہ سنکرنائزنگ اور ماڈیولیشن سرکٹس اور وسیع برقی مقناطیسی میدان بنانے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے آلات نصب کیے گئے۔ جنہیں ایک مخصوص ترتیب سے استعمال کرنے کی صورت میں یہ مقناطیسی میدان جہاز کے اطراف موجود روشنی اور صوتی لہروں کا رُخ موڑ کر جہاز کو دشمن کی نظروں سے اوجھل کردیتا۔

اس تجربے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک کام یاب تجربہ تھا ماسوائے اس کے کہ جہاز طبعی طور پر نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد واپس آگیا تھا ۔ وہ (سائنس داں) جہاز کو آنکھوں سے اوجھل کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے بجائے وہ ٹیلی پورٹ (ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا) ہوگیا تھا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ فلاڈیلفیا کا تجربہ اس تحقیق کا حصہ تھا کہ کس طرح آئن اسٹائن کے نظریے ’’یونی فائیڈ فیلڈ تھیوری فار گریویٹیشن اینڈ الیکٹریسٹی‘‘ کو سمندر میں جہازوں کو برقی کیموفلاج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آئن اسٹائن کی یہ تھیوری جرمنی کے پروشین سائنٹیفک جنرل میں 1925تا1927کے درمیانی عرصے میں شایع ہوئی تھی۔ تاہم اسے بعد میں نامکمل ہونے کی وجہ سے واپس لے لیا گیا تھا۔ اس تحقیق کا مقصد بحری جہاز کو دشمنوں کے راڈار اور تارپیڈوز سے بچانے کے لیے شدید ترین برقی مقناطیسی میدان کی مدد سے ماسک (نظروں سے اوجھل کرنا) چڑھانا تھا۔ اس تحقیق کو بعد میں برقی مقناطیسی میدان کو پانی کے بجائے ہوا میں راڈار سے اوجھل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

حتمی تجربے میں اسی طریقۂ کار کو دہرایا گیا اور جنریٹرز کے آن ہوتے ہی نیلی روشنی کے جھماکوں میں جہاز پانی سے غائب ہو گیا اور چند منٹ بعد ہی ریاست ورجینیا کے ساحلی علاقے نورفوک پر کچھ دیر دکھائی دینے کے بعد دوبارہ فلاڈیلفیا نیول یارڈ پر نمودار ہوگیا۔ اس بار بھی کریو کے کچھ ارکان زخمی ہوئے، کچھ ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی اُن کا سراغ نہ ملا، کچھ پاگل ہوگئے، جب کہ پانچ ارکان کا جسم پگھل کر جہاز کے دھاتی ڈھانچے سے چپک گیا تھا۔ اس بار بھی جہاز کے سارے عملے کو دماغی طور پر ان فٹ قرار دے کر فوج سے فارغ کردیا گیا۔ فلاڈیلفیا کا تجربہ ایک افسانوی واقعہ ہے یا حقیقت، اس راز سے پردہ اٹھنا اب ممکن نظر نہیں آتا، لیکن کچھ سرپھرے ساٹھ سال سے زاید عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس تجربے کے حقائق جاننے کے لیے سرگرداں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔