تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

مقتدا منصور  پير 17 اکتوبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ان گنت الٹے سیدھے سوالات وقتاً فوقتاً ذہن کے گوشوں میں ابھر کر سوچوں کو منتشر کرتے رہتے ہیں۔ کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں، جنھیں خوفِ فسادِ خلق میں ذہن سے جھٹک دینے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ ذہن پر مسلسل کچوکے لگاتے رہتے ہیں، مگر زبان پہ لانا گویا قیامت کو آواز دینا ہے۔ جب کہ کچھ سوالات ایسے بھی ہیں، جنھیں سنبھال رکھا ہے کہ اگر عالم برزخ میں موقع ملا تو بزرگوں سے ضرور کریں گے۔ شاعر  نے کہا تھا کہ

بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکتے ہیں

مگر اب تو یہ زمانہ آ گیا ہے کہ ہے کہ اہل کرم کا تماشہ دیکھنے کے لیے بھیس بدلنے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ ان کی ستم ظریفیوں کے مظاہرے بنا کسی روک ٹوک کھلے عام دھڑلے کے ساتھ جاری ہیں۔ یہ خطہ جو برصغیر کہلاتا ہے، اہل کرم کے تماشوں کا اسٹیج بنا ہوا ہے۔ 70 برس سے اہل کرم نے اس خطے کے امیر وغریب، متمول ومفلس سبھی کو اپنے تماشوں کے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے۔

تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تاریخ ہو یا ذرایع ابلاغ کے توسط سے ملنے والی اطلاعات ہوں، سبھی اہل کرم کے متعین کردہ تصوارت کی عکاس ہوتی ہیں۔ اس لیے بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود علامہ اقبال کا یہ مصرعہ دہراتے ہوئے کہ ’’یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری‘‘ اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور ہیں۔

برٹرینڈ رسل تعلیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی کتاب On Education میں لکھتے ہیں کہ کسی معاشرے میں نئی نسل کو وہی کچھ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے، جو ریاستی مقتدرہ کی مرضی ومنشا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ وہی نصاب پڑھانے کے پابند ہوتے ہوتے ہیں، جو ریاست کا تیار یا منظورکردہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے اساتذہ نہ سقراط ہیں اور نہ ہی کنفیوشس کہ اپنے شاگروں کو سوال کرنے کی اجازت دے کر ان کے ذہنوں میں کلبلاتے سوالات کی تشفی کریں۔

اس لیے اگر نصاب میں یہ درج کردیا جائے کہ برف کالی ہوتی ہے، تو اساتذہ برف کو کالا ہی پڑھائیں گے۔ مباداً کوئی بچہ یہ سوال کردے کہ برف کالی نہیں بے رنگ ہوتی ہے، تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ گویا ہم اپنے معاشروں میں سوجھ بوجھ اور سوال کرنے والے ذہن تیار کرنے کے بجائے ایسے روبوٹس تیار کررہے ہیں، جو اشرافیہ کے متعین کردہ ریاست کے منطقی جواز اور قواعد وضوابط ہی کو حقیقی سمجھیں‘‘۔ جب برطانیہ جیسے ملک کا دانشور اپنے ملک کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہو، جسے مثالی جمہوریت سمجھا جاتا ہے، تو پھر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے بارے میں گفتگو کارِ لایعنی ہے۔

تاریخ، فلسفہ اور ادب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مضامین ذہن کے خوابیدہ گوشوں کو وا کرکے فکری وسعت میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معلوم تاریخ کے ہر دور میں حکمران اشرافیہ نے ان مضامین کی تدریس پر کڑی نگاہ رکھی۔ بعض ادوار میں فلسفہ کی تدریس پر پابندی رہی۔ تاریخ وہ پڑھائی گئی، جو حکمرانوں کی تعریف و توصیف اور ان کے کارناموں کو اجاگر کرتی ہو۔ ادب وہ پڑھایا جاتاہے، جس میں مزاحمتی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو۔ بلکہ ادب میں معاشرے کے مروجہ عقائد پر لکھے گئے مضامین کو شامل کرکے ادب سے زیادہ اسے دینیات بنادیا جاتا ہے۔

مگر سوال پھر بھی اٹھتے رہتے ہیں، کبھی دبے الفاظ، کبھی ببانگ دہل۔ کہیں سوالات کرنے والوں کی گردنیں گلوٹین کی غذا بنیں، تو کہیں سوالات نے خونریز انقلابات کو جنم دیا۔ اسی لیے وہ تمام سوالات، جو حکمران اشرافیہ کے فیصلوں اور ان کی کارکردگی کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں، ہمیشہ ناپسندیدہ قرار دیے جاتے رہے ہیں۔

یہی کچھ معاملہ ذرایع ابلاغ کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ذرایع معلومات تک رسائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کو معلومات کا حصول اور ابلاغ ہورہا ہے؟ کیا لوگوں تک حقیقت احوال پہنچ رہی ہے؟ اگر نہیں تو پھر اسے ابلاغ کہیں گے یا پروپیگنڈا؟ ہمارے ایک دوست کے والد نے برسوں پہلے تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میاں ماضی کے حقائق تک رسائی تو دور کی بات ہے، ہمیں تو آج کے دور کے حقائق کا بھی صحیح علم نہیں ہوپاتا‘‘۔ بات درست ہے۔ آج انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب اطلاعات کا سمندر عام آدمی کی خواب گاہ تک پہنچ گیا ہے، ہم اپنے اطراف رونما ہونے والے بیشتر واقعات کی اصل حقیقتوں سے ناآشنا رہتے ہیں۔ ہمیں جو بتایا یا سنایا جاتا ہے، اسی کو حقیقت سمجھنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ وہ صرف تصویر کا ایک رخ ہوتا ہے۔

آج ذرایع ابلاغ اپنی آزادی اور مستعدی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود وہی کچھ کہنے اور لکھنے پر مجبور ہیں، جو ریاستی مقتدرہ اور منصوبہ ساز ان سے چاہتے ہیں۔ اگر کوئی صحافی اپنی تفتیشی صحافت کے جواہر دکھانے کی کوشش کرے، تو ایوان اقتدار لرز اٹھتے ہیں۔ میٹنگوں پہ میٹنگیں ہوتی ہیں، پریس ریلیزوں پہ پریس ریلیزیں جاری ہوتی ہیں۔ جب کہ رپورٹ دینے والے صحافی کا نام ECL میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس غریب کی معلومات کا ذریعہ وہ عمائدین ہوتے ہیں، جو شہ کے اطراف بیٹھتے ہیں۔ مگر معاملہ حکمرانوں کے کالروں میں لگے کلف کا ہے کہ کسی کو یہ جرأت کیونکر ہوئی کہ وہ ان سے جواب طلبی کرے۔

یہ طے ہے کہ قومی مفاد یا قومی سلامتی جیسے امور کا تعین کوئی ریاستی ادارہ نہیں منتخب پارلیمان کرتی ہے۔ اس لیے یہ اتنی نازک نہیں ہوتی کہ کسی اخباری رپورٹ سے بکھر جائے۔ پھر ہمیں ہمہ وقت یہ جتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کچھ ریاستی ادارے مقدس ہیں۔ ان کی کارکردگی اور طریقہ کار پر انگشت نمائی ممکن نہیں۔ مگر کوئی یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ ادارے نہیں ملک کا آئین مقدس دستاویز ہوتی ہے۔ وہی ریاست کی سمت اور اس کی منزل کا تعین کرتی ہے۔ عوام ہی ملک و معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، اس لیے اصل اہمیت ان کے وجود اور تصورات کی ہے۔ مگر اقتدار اور طاقت کے زعم میں کوئی بھی یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ آئین شکنی کسی زندہ معاشرے میں سب سے قبیح جرم ہوتا ہے۔ اسی لیے حکومتوں اور وزارتوں سمیت کوئی بھی ریاستی ادارہ احتساب کے عمل سے ماورا نہیں ہے۔

نظم حکمرانی کے قواعد و ضوابط کی طرح سیاست کا سبق بھی ہم نے برطانیہ ہی سے سیکھا ہے۔ وہاں سیاسی جماعتیں صرف عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ عوام ہی ان کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر وہاں مائنس یا پلس کا کلیہ نہیں چلتا۔ کسی کی خواہش پر قیادتیں تبدیل نہیں کی جاتیں۔ ویسے بھی حکومتوں کو یہ اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہے کہ وہ کسی جماعت کے سربراہ کو مائنس یا سیاستدانوں کے کسی گروہ کو زبردستی پلس کرانے کی کوشش کرے۔ اسی کھیل کے نتیجے میں پورا ایک صوبہ (مشرقی پاکستان) مائنس ہوگیا۔ مگر حکمران اشرافیہ کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ اگر آنکھیں کھلی ہوتیں، تو بنگلہ دیش کی آزادی کے محض تین برس بعد بلوچستان میں فوج کشی کا ایڈونچر نہ کیا گیا ہوتا۔ صرف بلوچستان ہی پر کیا موقوف، سندھ بھی وفاقی حکومت کی چیرہ دستیوں کا مسلسل شکار چلا آرہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ دعوؤں پہ دعوے تو بہت ہورہے ہیں، مگر بیانیہ درست کرنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ یعنی ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لے کر معاملات کو ازسرنو ترتیب دینے کی بھی فرصت نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکمران خود کو عقل کل سمجھتے ہیں، جب کہ اہل علم دانش، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کو کمّی اور کمدار سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر فیصلہ، ہر حکمت عملی اور ہر اقدام چند ہی برسوں میں ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پھر حکمران اشرافیہ کے ذہن میں یہ خناس بھی بیٹھا ہوا ہے کہ ان کے علاوہ باقی سب لوگوں کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ اس طرز عمل کے ساتھ ملک نہیں چلا کرتے۔ مگر یہ سمجھائے کون اور کسے سمجھائے؟ شاید غالبؔ نے اپنے زمانے میں دربار کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہی یہ مصرعہ کہا تھا کہ ’’تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔