بستی جہاں دروازے ہیں نہ تالے! ؛ لوگوں کو ڈاکے اور چوری چکاری کا کوئی خطرہ نہیں

سید عاصم محمود  منگل 18 اکتوبر 2016
اُدھر توہم پرستی پر یقین نہ رکھنے والے وہ وجہ ڈھونڈ لائے جس کی وجہ سے گاؤں میں چوری چکاری نہیں ہوتی: فوٹو : فائل

اُدھر توہم پرستی پر یقین نہ رکھنے والے وہ وجہ ڈھونڈ لائے جس کی وجہ سے گاؤں میں چوری چکاری نہیں ہوتی: فوٹو : فائل

ذرا ایسے گاؤں کا تصّور کیجیے جس میں واقع ایک بھی گھر دروازہ نہیں رکھتا اور نہ ہی لوگ گھروں میں اپنی قیمتی اشیا الماریوں میں تالا لگا کر رکھتے ہیں۔ یقیناً آپ یہی کہیں گے کہ ایسا کون سا انوکھا گاؤں ہے جس کے باشندے پستول و بندوق کے اس زمانے میں خود کو اتنا محفوظ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے گھروں میں دروازے ہی نہیں بنائے؟ مگر بھارت میں ایک ایسا گاؤں آباد ہے۔ ’’شانی شگن پور‘‘ نامی یہ گاؤں ریاست مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر میں واقع ہے۔

طلسم ہوش ربا سے ملتے جلتے اس گاؤں کی حیرت انگیز داستان کا آغاز صدیوں قبل ہوا۔ تب ایک رات زوردار بارش ہوئی۔ اس زمانے میں دریائے نپاسلا گاؤں کے قریب ہی بہتا تھا۔ جب صبح ہوئی تو گاؤں کے گڈریوں نے دیکھا، دریا کنارے ایک بڑی سی سیاہ سل پڑی ہے۔ وہ اسے آسمانی تحفہ جان کر گاؤں لے آئے۔

اسی رات مقامی دیوتا، شانی گاؤں کے مکھیا کے خواب میں جلوہ گر ہوا۔ اس نے انکشاف کیا کہ یہ سیاہ سل دراصل اس کا زمینی روپ ہے۔ شانی دیوتا نے پھر مکھیا کو حکم دیا کہ وہ اس بت کو گاؤں میں رکھ لے۔ بدلے میں وہ گاؤں والوں کی حفاظت کرے گا اور شر پسند انسان وہاں نہیں آنے پائیں گے۔ چناں چہ وہ سیاہ سل نما بت گاؤں کے وسط میں نصب کردیا گیا۔

اس کے بعد گاؤں والوں نے اپنے گھروں میں دروازے بنانے چھوڑ دیئے۔ حتیٰ کہ دکاندار بھی اپنی دکانوں کو تالا نہیں لگاتے۔ گھروں میں زیور اور دیگر قیمتی اشیا کھلی الماریوں میں رکھی جاتی ہیں۔ گاؤں والوں کا پختہ اعتقاد ہے کہ دیوتا شانی چوبیس گھنٹے ان کی حفاظت کررہا ہے۔ لہٰذا انہیں ڈاکے اور چوری چکاری کا کوئی خطرہ نہیں۔

گاؤں والوں کو یہ بھی یقین ہے کہ جس چور اچکے نے شانی شگن پورہ میں چوری کی، وہ اندھا ہوجائے گا۔ یا پھر ساڑھے سات سال تک اس پہ نحوست چھائی رہے گی۔ یہی نہیں، گاؤں میں گھر پر دروازہ لگانے والے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ مقامی روایت کے مطابق دس سال قبل ایک گاؤں والے نے اپنے گھر دروازہ لگوالیا تھا۔ اگلے ہی دن وہ ایک کار کے نیچے آکر مارا گیا۔اس حادثے نے گاؤں والا کا اعتقاد گہرا کر دیا۔

دلچسپ بات یہ کہ گاؤں میں پاخانے بھی دروازے نہیں رکھتے، بس پلاسٹک کا پردہ لٹکا دیا جاتا ہے۔ بعض گاؤں والوں نے گھروں کے داخلی مقام پر چوبی پٹیاں لگوا لی ہیں تاکہ کتا بلی وغیرہ گھر میں داخل نہ ہوسکیں۔ مگر وہ گھر بھی باقاعدہ دروازے نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ نئی تعمیرات کو بھی گاؤں کی اس ’’پوتّر‘‘ روایت کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔

2015ء میں گاؤں میں پولیس اسٹیشن تعمیر ہوا۔ اس کا بھی داخلی دروازہ عنقا ہے۔ آج تک اسٹیشن میں کوئی رپٹ نہیں لکھوائی گئی اور وہ مجرموں سے خالی ہونے کے باعث بھائیں بھائیں کرتا رہتا ہے۔

2015ء ہی میں بھارت کے ایک کمرشل بینک نے گاؤں میں اپنی شاخ کھول لی۔ اس برانچ کا بھی کوئی داخلی دروازہ نہیں، بس گلاس سے بنا متحرک شیشہ وہاں نصب ہے۔ بینک انتظامیہ نے تو گاؤں کی روایت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے لاکروں میں بھی ایسے جدید تالے لگوائے ہیں جو بہ مشکل دکھائی دیتے ہیں۔

شانی دیوتا پر گاؤں والوں کا اعتقاد حیران کن امر ہے۔وہاں آباد لوگ خود کو اتنا زیادہ محفوظ و مامون سمجھتے ہیں کہ گاؤں سے باہر جائیں، تو اپنے پڑوسیوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ذرا ہمارے گھر کا خیال رکھنا۔ انہیں کامل اعتقاد ہے کہ دیوتا شانی کی وجہ سے چور ڈاکو ان کے گھر جھانک بھی نہیں سکتا۔

اسی عجیب و غریب روایت نے شانی شگن پور کو پورے بھارت میں مشہور کردیا۔ لوگ شگن دیوتا کی زیارت کرنے اور ایسے گھر و دکانیں دیکھنے آنے لگے جو کوئی دروازہ نہیں رکھتے۔ آج روزانہ تیس چالیس ہزار سیاح گاؤں آتے اور یہاں کے عجوبے دیکھتے ہیں جو شاید دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ سیاحوں کی آمد کے باعث گاؤں میں کاروباری سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکیں۔

زمانہ قدیم میں دیہاتیوں نے سیاہ سل کو ایک درخت کی شاخ سے لٹکایا تھا۔ اب وہ ایک بڑے مندر میں قیام پذیر ہے۔ اس مندر کے نام کئی جائیدادیں وقف ہیں اور لوگ بھی اسے چندوں سے نوازتے ہیں۔ غرض مندر کی انتظامیہ کروڑوں روپے میں کھیل رہی ہے۔

توہم پرستی اور مزہب کے مخالف بھارتی سیاہ سل نما شانی دیوتا کو فراڈ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر معمولی پتھروں کو دیوتا بنالینا پروہتوں اور پجاریوں کا قدیم وتیرہ ہے۔ اسی طریقے سے وہ اپنی کمائی کے دھندے تخلیق کرتے ہیں۔

شانی دیوتا کی مقدس حیثیت کو اکتوبر 2010ء میں ضرب پہنچی جب ایک گاؤں والا اپنے بٹوے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پھر وقفے وقفے سے سیاح چوروں کا نشانہ بننے لگے۔ حتیٰ کہ 2011ء میں ایک گھر میں بھی چوری ہوگئی اور چور زیور لے اڑے۔

ان چوریوں کے باعث اب بعض گاؤں والے اپنے گھروں میں دروازے لگانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں گاؤں کی گرم پنچایت سے اجازت کا انتظار ہے۔ تاہم گاؤں والوں کی اکثریت اب بھی بے دروازہ گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ ان کا اعتقاد ہے کہ شانی دیوتا ہر دم جاگتے سبھی رہائشیوں کی حفاظت کررہا ہے۔

اُدھر توہم پرستی پر یقین نہ رکھنے والے وہ وجہ ڈھونڈ لائے جس کی وجہ سے گاؤں میں چوری چکاری نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ شانی شگن پورہ کے چاروں اطراف دور دور تک کوئی آبادی نہیں۔ چوری ڈاکا نہ ہونے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ ظاہر ہے، چور ڈاکوؤں کو احساس ہے کہ جرم کرنے کے بعد انھیں بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا۔ چناں چہ گرفتاری اور گاؤں والوں کے ہاتھوں مار پیٹ کا خوف ہی انہیں کوئی جرم کرنے سے باز رکھتا ہے۔ چناں چہ گاؤں کو محفوظ و مامون بنانے میں سیاہ سل المعروف بہ شانی دیوتا کا کوئی ’’چمتکار‘‘ نہیں… وہ بیچارا تو ہل کر پانی بھی نہیں پی سکتا،کسی کو کیا بچائے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔