پاکستان میں سائنسی صحافت؛ وقت کی ایک اہم ضرورت

ڈاکٹر ریحان احمد صدیقی  بدھ 19 اکتوبر 2016
پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد نمک میں آٹے کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد نمک میں آٹے کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

آج کے اس دور میں کسی خبر کو آپ تک پہنچانے میں میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے اور خبروں کو آپ تک پہنچانے میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ملک کی ترقی میں سائنسی تحقیقات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب کوئی سائنسدان کسی قسم کا کارنامہ انجام دیتا ہے تو اس کارنامے کو دنیا اس وقت تک تسلیم نہیں کرتی جب تک اس کی اشاعت کسی سائنسی جریدے میں نہیں ہوجاتی لیکن ان جریدوں میں شائع کئے گئے مضامین کی سمجھ صرف سائنسدانوں اور اس خاص شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو ہی آتی ہے۔ یہ مضامین عام افراد کیلئے ناقابل فہم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں خاص سائنسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کی جانے والی تحقیقات کے بارے میں عام عوام کو کس طرح اِس طرح کے علم اور فہم کے بارے میں باآسانی آگاہ کیا جائے؟ 

یہاں ضرورت ہوتی ہے ’’سائنسی صحافت‘‘ کی۔ سائنسی صحافت کا بنیادی مقصد سائنس کے بارے میں صحیح معلومات عام فہم الفاظ میں ان لوگوں تک منتقل کرنا ہے جن کا براہِ راست سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہو۔ اس شعبے میں کام کرنے والے صحافیوں کا کردار سائنسدانوں اور عوام میں باہمی ربط قائم کرنا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی صحافت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد نمک میں آٹے کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے باعث پاکستانیوں کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس ملک میں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا جا رہا، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام کے بعد سے اب تک اس ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس ملک کے سائنسدانوں کی جانب سے عالمی سائنسی جریدوں میں سائنسی مضامین کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور سالانہ اشاعت کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔

ایک بین الاقوامی ادارے تھامسن ریوٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے سال 2006ء میں 2000 سائنسی مضامین کی قومی اور بین الاقوامی جریدوں میں اشاعت کی گئی اور 2015ء میں ان کی تعداد میں 3 گنا اضافہ دیکھا گیا یعنی 9000 مضامین شائع ہوئے۔ مزید ان مضامین کے حوالہ جات (Citation) کے لحاظ سے پاکستان نے BRIC ممالک یعنی برازیل، روس، انڈیا اور چائنا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو پاکستانی سائنسدانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان میں سائنسی تحقیقات کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو قابل توجہ اہمیت نہیں دے رہا۔ جبکہ سوشل میڈیا جیسا قابل ذکر میڈیم ’منفی اور غیرسنجیدہ‘ معلومات عوام تک پہنچا کر ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں مصروف ہے۔

پاکستان میں سائنسی صحافت کے رجحان کو بڑھانے کیلئے چند تجاویز پر غور کرکے ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافے کیلئے تین مختلف قسم کے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر کام کیا جاسکتا ہے۔

  • ایک وہ لوگ جن کا تعلق پہلے ہی صحافت سے ہے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے، ان لوگوں کیلئے ایسے کورسز متعارف کروانے چاہیئے کہ جن سے ان میں سائنس کی بنیادی معلومات اور موجودہ سائنسی تقاضوں کے بارے میں علم و فہم پیدا کیا جاسکے۔
  • دوسرے وہ لوگ جن کے پاس کسی بھی سائنسی شعبہ علم میں بیچلرز یا ماسٹرز کی ڈگری ہو۔ ایسے لوگوں کیلئے وہ کورسز متعارف کروانے چاہیئے جن سے ان میں صحافتی مہارت پیدا کی جاسکے۔ یہ کام پہلے قسم کے لوگوں کی نسبت آسان ہوگا۔
  • لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جن کا براہ راست سائنسی تحقیقات سے تعلق موجود ہو، ایسے لوگوں کیلئے چھوٹی چھوٹی ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہئے جس سے ان لوگوں میں سائنسی مضامین کو عام فہم زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔ ایسے افراد کے ساتھ کام کرنا دونوں قسم کے لوگوں کے مقابلے میں آسان اور زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ افراد سائنسی علوم میں مہارت اور تجربہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔

جس طرح ہمارے سائنسی تحقیقی اداروں میں متعدد ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے اسی طرح کچھ ورکشاپس سائنسی صحافت پر بھی منعقد کی جانی چاہیئے اور ان میں شرکت کرنے والے لوگوں میں اس رجحان کو فروغ دینا چاہیئے کہ وہ اپنی فیلڈ سے منسلک مضامین، ملکی ضرورت کو مدنظر رکھ کر لکھنے سے اس کام کا آغاز کریں۔

ان تمام تجاویز پر عمل کرکے اس ملک میں سائنسی صحافت کو فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ ان کوششوں کی بدولت اس ملک میں کی جانے والی تحقیقات کو ملکی اور عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے اور پاکستان میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ریحان احمد صدیقی

ڈاکٹر ریحان احمد صدیقی

بلاگر کلینیکل پیتھالوجی میں گولڈ میڈلسٹ ہیں جنہوں نے حال ہی میں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی تحقیقی ادارے کے شعبہ مالیکیولر میڈیسن سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی rehan.mtech پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔