لاسٹ راؤنڈ نہیں.... فوری مذاکرات

ایڈیٹوریل  بدھ 19 اکتوبر 2016
نوبل انعام یافتہ باب ڈلن نے کہا ہے کہ ہیرو وہ ہے جسے اپنی آزادی میں مضمر ذمے داری کا احساس ہو۔سیاست دان احساس کریں۔ فوٹو:فائل

نوبل انعام یافتہ باب ڈلن نے کہا ہے کہ ہیرو وہ ہے جسے اپنی آزادی میں مضمر ذمے داری کا احساس ہو۔سیاست دان احساس کریں۔ فوٹو:فائل

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے 2 نومبر کو اسلام آباد دھرنا دے کر بند کرنے کا جو اعلان کیا ہے وہ ایک’’ ویک اپ کال ‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی کے اب تک ہونے والے دھرنوں ، احتجاجی مظاہروں اور ملک گیر جلسوں سے سیاسی و عالمی حلقوں، اسٹبلشمنٹ، ن لیگ حکومت اور عوام کو یہی پیغام ملتا رہا ہے کہ وہ کرپشن، بد انتظامی، بیڈ گورننس کو غیر روایتی انداز میں چیلنج کرنے کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہے اور اس کا اصل ایجنڈا پاناما اسکینڈل پر وزیراعظم کو احتساب یا استعفیٰ پر مجبور کرنا ہے۔

اگرچہ دھرنا یا اسلام آباد کے گھیراؤ کے پر امن ہونے کا عندیہ جارہا ہے مگر تلخی ، مخاصمت اور شعلہ نوائی سے خطرات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے، وزیراعظم نواز شریف نے باکو میں اپنے بیان میں کہا کہ اسلام آباد بند نہیں ہوگا ، بعض عناصر ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں ادھر لانگ مارچ کی حکمت عملی اور لائحہ عمل پر مشتمل سیاسی اور انقلابی ارادے سے تحریک انصاف کا دھرنا جو دن 2 بجے فیض آباد اور زیرو پوائنٹ کے درمیانی علاقے میں دیا جائے گا فیصلہ کن بلکہ ’’لاسٹ راؤنڈ‘‘ قرار دیا جارہا ہے جس کے بعد بقول عمران یہ آخری معرکہ ہوگا اس کے بعد کوئی جلسہ ہوگا نہ کوئی دھرنا ہوگا ، انھوں نے زور دے کر کہا ہے اگر وفاقی حکومت نے  انھیں نظربند یا گرفتار کرنے کی کوشش کی تو حکومت باقی نہیں رہے گی ،ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیر کو بنی گالا میں پارٹی کی کور گروپ کی میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

پی ٹی آئی نے 30 اکتوبر دھرنے کی تاریخ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے انتخابات کے باعث تبدیل کی ہے اور اب حقیقت میں گیند حکومت کے کورٹ میں ہے جسے ملکی تاریخ کے ایک خطرناک شو ڈاؤن کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاہم محب وطن حلقے، پاناما لیکس کے ممکنہ نتائج و مضمرات سے واقف مبصرین اور پاکستان کی دوست و حلیف طاقتیں اس انتظار میں  ہیں کہ معاملہ صلح و صفائی، دو طرفہ مکالمے، عدالتی کمیشن کے قیام اور ٹی او آرز کی منظوری کے بعد شفاف تحقیقات پر منتج ہو، سیاسی اکابرین ادراک کریں کہ ایک طرف قوم مہنگائی، بیروزگاری، بد امنی اور دہشتگردی کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، سر پر بھارت سرجیکل اسٹرائیک کی ڈراما بازیوں کے ساتھ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ہم خانہ جنگی کی ریہرسل میں جگ ہنسائی کا پورا سامان کررہے ہیں۔

عمران خان کی ہر بات عقلیت سے عاری نہیں ، اور نہ پی ٹی آئی کو سسٹم تہس نہس کرنے کی مہم جوئی کرنی چاہیے، بلکہ جو کچھ کہا جارہا ہے اسے حکومت پر دباؤکے طبل جنگ سے تعبیر دی جاسکتی ہے مگر جنگ روکی بھی تو جاسکتی ہے، اگر کولمبیا کے صدر ہوان مینول سانتوش کو 50 سالہ خانہ جنگ کے خاتمے اور فارک گوریلا باغیوں سے معاہدہ کرنے پر امن کا نوبل پرائز مل سکتا ہے جب کہ اس معاہدہ کو عوامی ریفرنڈم نے مسترد کیا ہے مگر دنیا پر امید ہے کہ سانتوس امن بحال کرکے دم لیں گے۔ اسی طرح نواز شریف اور ان کی ٹیم کے لیے عمران خان اور اپوزیشن جماعتوں سے محاذ آرائی اور پنگ پانگ کھیل جاری رکھنے سے زیادہ بہتر پاناما لیکس پر شفاف تحقیقات پر اتفاق کی برف کو پگھلانا ناگزیر ہے ۔ سیاست میں کوئی چیز نا ممکن نہیں۔

حکومتی لیت و لعل اور تاخیری ہتھکنڈوں پر پی ٹی آئی سمیت پوری اپوزیشن اور عوامی حلقوں کا مضطرب ہونا غیر فطری نہیں۔ بات چیت آخری آپشن ہے۔ حکومتی بزر جمہر جمہوریت کو بند گلی سے نکالنے میں وزیراعظم کی مدد کریں۔ یہ وقت کسی کو ’’نیرو‘‘ اور دوسرے کو ’’جولیس سیزر‘‘ بنا کر پیش کرنے کا نہیں، وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تصادم المیہ ہوگا، جلاؤ گھیراؤ اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے بجائے کھلے دل سے بات چیت ہو، عوام بھی کسی قسم کی خانہ جنگی،انتشار اور ایسی صورتحال کے حق میں نہیں جو ملکی عدم استحکام اور معیشت کے لیے ضرر رساں ہو۔

عمران خان کے مطابق ہماری پارٹی نے چھ ماہ تک کوشش کی کہ پانامالیکس پر وزیراعظم نوازشریف کا احتساب ہو کیونکہ وزیراعظم کا نام پانامالیکس میںآیا ہے، ہماری پوری کوشش کے باوجود معاملہ افہام وتفہیم سے حل نہیں ہو رہا، ہر طرف سے مایوس ہوئے ہیں ۔بندہ پرورو! یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جہاں لیڈرشپ کا امتحان ہوتا ہے۔ رہبر قوم مایوسی کی تاریک سرنگ سے باہر نکلیں۔ ملک فیصلہ کے موڑ پر کھڑا ہے۔

قوم جمود شکن تبدیلی اور وطن عزیز کی سالمیت اور عوام کی خوشحالی کی منتظر ہے، یہ تاثر مٹ جانا چاہیے کہ ملکی سیاست دان کوتاہ اندیش اور وژن و قوت فیصلہ سے محروم  ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ باب ڈلن نے کہا ہے کہ ہیرو وہ ہے جسے اپنی آزادی میں مضمر ذمے داری کا احساس ہو۔سیاست دان احساس کریں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔