کب کُھلا تجھ پہ یہ راز؟

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 19 اکتوبر 2016
پاکستان اِسوقت مشرقی اور شمالی دونوں محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان اِسوقت مشرقی اور شمالی دونوں محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے خواہش مند دشمن ملک سے ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور ایک سیاسی جماعت اسلام آباد پر یلغارکرکے ریاست کو مفلوج کردینا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے یعنی ایک گروہ اسلام آباد پر قبضہ کرکے سب سے طاقتور اسلامی ملک کو دنیا میں بے توقیر کردیتا ہے تو اس پر کون خوش ہوگا اور کون رنجیدہ؟ یقیناً ہمارا دشمن بھارت بغلیں بجائے گا اور ہمارے قریب ترین دوستوں ترکی، چین اور سعودی عرب کو دکھ ہوگا اور تشویش بھی۔

ہر وہ شخص پریشان ہے جو وطنِ عزیز کی عزت اور وقار کو سیاسی اورگروہی تعصبات سے بالا سمجھتا ہے۔ ہر شخص پوچھ رہا ہے کہ عمران خان ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کیا عمران خان کرپشن سے نفرت کی وجہ سے ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ صرف پی ٹی آئی کے ورکروں کا لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے ؟ یااصل ہدف کوئی اور ہے؟

عمران خان صاحب کاکہناہے کہ ’’پانامہ لیکس میں نوازشریف کا جرم ثابت ہوگیا ہے لہٰذا وہ وزیرِ اعظم نہیں رہ سکتا‘‘ دوسری طرف سے جب کہا جاتا ہے کہ ’پانامہ لیکس میں وزیرِ اعظم کا نام نہیں ہے‘  تو چیئر مین فرماتے ہیںکہ ’’وزیرِ اعظم کا نہ سہی اُنکے بیٹوں کا جو ہے۔ وہی کافی ہے۔  عوام کہتے ہیںکہ  ’’ وزیرِ اعظم کے بیٹوں کی آف شور کمپنیاں ثابت ہوئی ہیں  مگر آپ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ آپ نے بھی آف شور کمپنی بنائی تھی۔

آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہ سہی ناپسندیدہ فعل ضرور ہے ( کیونکہ یہ Tax evasionتو نہیں Tax avoidanceکی کوشش ہے)  تو پھر وزیرِ اعظم کے بیٹے اور آپ، دونوںایک بلند اخلاقی سطح (High moral grround)سے محروم ہوگئے ہیں۔  اس ریکارڈ کے ساتھ اگر آپ کسی یورپی ملک میں اہم ترین پبلک آفس کے امیدوار بنتے تو میڈیا آپ پر وہ تیراندازی کرتا کہ آپ کا دامن چھلنی ہوجاتا‘‘۔

غالباً اسی لیے اب خان صاحب نے موقف تبدیل کرکے آف شور کمپنی کا نام لینا بند کردیا ہے اور اب وہ فرماتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے بیٹوں نے نوے کی دہائی میں لندن میں جو فلیٹ خریدے تھے وہ پاکستان سے بھیجے گئے پیسے سے خریدے گئے تھے جو قانونی طریقے سے باہر نہیں گیا چونکہ گمان یہ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نوازشریف نے بھیجا تھا،لہٰذا وہ پیسہ ڈکلیئر نہ کرنے پر منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے ہیں۔  یعنی وہ جرم جس پر عمران خان صاحب وزیرِ اعظم کی گردن اتارنا چاہتے ہیں وہ قتل، اغوا، زنا، رشوت لینے یا کمیشن کھانے کا نہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا ہے ۔کیا کوئی ان سے بصد احترام پوچھ سکتا ہے کہ جب منی لانڈرنگ کا  پانامہ لیکس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ تو پھر پانامہ کا شور کیسا؟

جہاں تک منی لانڈرنگ کا تعلق ہے تو یہ بات جب تک عدالت میں ثابت نہیں ہوتی (کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے)اُس وقت تک صرف قیاس ہے کہ پیسہ وزیرِ اعظم نے بھیجا ہوگا اور غیر قانونی طریقے سے ہی بھیجا ہوگا۔ اگر جج نے خود اپنی آنکھوں سے کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہو تو بھی وہ قاتل کوپورے عدالتی ضابطے اور پروسیجر کے بغیر قاتل قرار دے کر سزا نہیں دے سکتا ۔لیکن فرض کیا کہ عمران خان کا قیاس اور گمان درست ہے اور جرم سرزد ہوا ہے تو جس جرم پر خان صاحب آج طیش میں آکر اسلام آباد پر یلغار کررہے ہیں کیا یہ جُرم اِسی سال یا پچھلے سال یا دھرنوں والے سال میں ہوا ہے؟

جی نہیں اس کا ارتکاب ایک سال یا دو سال یا پانچ سال یا دس پندرہ سال پہلے نہیں بلکہ خان صاحب کے اپنے بقول اس کا ارتکاب نویّ کی دہائی میں یعنی تیس سال پہلے ھوا تھا۔ بہت خوب! تیس سال پہلے کیے گئے جرم کی پاداش میںخان صاحب منتخب وزیرِ اعظم کوبغیر کسی عدالتی فیصلے کے آج خود سزا دینا چاہتے ہیں اور وہ بھی دنگا فساد کے ذریعے، چاہے اس فساد میںخود جمہوریّت بھی روند دی جائے۔ تو اگریہ سارا شور تیس سال پہلے کیے گئے جرم پر ہے تو پھر خان صاحب سے یہ پوچھنا پڑے گا کہ حضور!آپ کو اس جرم کا کب علم ہوا ؟ آپ پر لندن کے فلیٹس کے بارے میں کب انکشاف ہوا؟کیاان فلیٹوں کے بارے میں آپ کو  2016سے پہلے کوئی علم نہیں تھا؟۔ یعنی عوام اقبالؒ کے الفاظ میں خان صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ

کب کُھلا تجھ پہ یہ راز؟

کیا ہم بصد احترام خان صاحب سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ نوے کی دہائی (جب فلیٹس خریدے گئے اور آپکے بقول منی لانڈرنگ ہوئی) کے بعد آپ درجنوں بار میاں نوازشریف سے دوستانہ انداز میں ملتے رہے ۔کیا آپ نے کبھی منی لانڈرنگ پر نفرت یا غصّے کا اظہار کیا ؟۔ دور نہ جائیے 2014 میں وزیرِ اعظم نواز شریف بنی گالا میں آپکے مہمان بنے اور آپ نے اپنی روایت سے ہٹ کر اُنکی بے پناہ خاطر مدارت کی،(اور فرمائش کرکے اپنی سڑک بھی بنوائی )کیا آپ کو اسوقت لندن کے فلیٹوں کے بارے میں علم نہیں تھا؟۔آپ کو بخوبی علم تھا ۔ اُس ’’راز‘‘ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی آپ نے وزیرِاعظم سے نہ سوال کیا نہ کبھی تذکرہ کیا۔

آپ اﷲ کو حاضر ناظر جان کر یہ بھی بتادیںکہ کیاآپ نہیں جانتے کہ آپ کی اپنی پارٹی کے ایک نہیں درجنوں لیڈروں نے منی لانڈرنگ کے ذریعہ پیسہ باہر بھجوایا ہے؟  آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپکو 2014 میں اور اس سے بہت پہلے لندن کے فلیٹوں کے بارے میں پورا علم تھا۔کرپشن کے خلاف آپ کی نفرت تیس سال بعد جویکدم بیدار ہوئی ہے اورشعلۂ جوالہ بنکر ہر چیز کوحتیٰ کہ جمہوریت کی ہر علامت کو بھسم کردینا چاہتی ہے یہ دراصل کرپشن کے خلاف نفرت نہیں ہے، کیونکہ ’’کرپشن کے خلاف‘‘ اپنے جلوسوں میں شمولیت کے لیے تو آپ کرپشن کے پہاڑوںکومدعو کرتے رہے ہیں۔

آپ کی پوری خواہش تھی کہ’’لوٹ مار کے خلاف‘‘ نکالے جانے والے آپکے جلوس کو لوٹ مار کے چیمپئن لیڈ کریں۔ وہ الگ بات ہے کہ وہ شامل نہیں ہوئے مگر اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اصل ہدف کرپشن نہیں ہے ایجنڈا کوئی اور ہے۔ اب بھی کنٹینر پر آپ کے آس پاس کھڑے آپکے ساتھیوں کو دیکھ کر لوگ ہنستے ہیں کہ کرپشن کے خلاف تحریک کو لیڈ بھی کرپشن کے مگرمچھ کررہے ہیں۔ خان صاحب ! کرپشن کے خلاف تحریک چلانے سے پہلے آپ اپنے گھر کی صفائی کرتے اور اپنی پارٹی میں بدنام لوگوں کو نکال باہر کرتے تو پوری قوم آپکے ساتھ ہوتی۔ موجودہ حکمرانوں کے بعد ان کے بچّے حکمران بن جائیں یہ غلط ہے مگر اس کے لیے اسلام آباد پر قبضے کے بجائے آپ رائے عامہ ہموار کریں ۔

خان صاحب! صرف ایک سال رہ گیا ہے دارلحکومت پر دھاوے اور یلغار سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ 2018 کے انتخاب کی تیاری کرتے۔ خیبر پختونخواہ میں ترقیاتی کاموں کے جال پھیلادیتے اپنی ذاتی Goodwillکو استعمال کرکے دنیابھر سے فنڈز لاتے، وزیرِاعظم سے ہمہ وقت برسرِ پیکار  رہنے کے بجائے ایک باوقار اور مدبّر رہنما کی طرح کا طرزِ عمل اپناتے ، مرکزی حکومت سے فنڈز لے کر کے پی کے کی سیکڑوں سڑکیں بنواتے اور خیبر پختونخواہ میں، جہاں دنیا کے خوبصورت ترین مقامات ہیں عالمی معیار کے دس پندرہ Tourist Resortقائم کرتے ، آپ پانچ سالوں میں اسے ایک ماڈل صوبہ بناسکتے تھے مگر افسوس کہ آپ جنگ و جدل میں ہی لگے رہے۔

آپ نے اپنی پارٹی کے صاحبانِ دانش اور مدبّر رہنماؤں کے بجائے شیخ رشید کو اپنا اتالیق بنالیا۔ پی ٹی آئی کے ایک دوست نے بتایا ہے کہ شیخ صاحب نے آپ کے کان میں پھونک ماردی ہے کہ’’ نواز شریف کو 2018 تک کا وقت مل گیا تو بجلی کا مسئلہ حل ہوجائیگا اور پھر 2018کا الیکشن بھی وہی جیت جائے گا ۔ لہٰذا نوازشریف کو بجلی کا مسئلہ حل کرنے کی مہلت کبھی نہ دینا، اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے لڑائی، دنگا، فساد، قتل، لاشیں کچھ بھی کرنا پڑے کرگزرو‘‘۔ لہٰذا آپ کی جدوجہد کا ٹارگٹ یہ ہے کہ ملک میں انرجی کا مسئلہ حل نہ ہو اور بجلی نہ آنے پائے، سبحان اﷲکیا اعلیٰ ٹارگٹ ہے!۔

خان صاحب!آپ قائدِ اعظمؒ کو بھی اپنا رہنما قرار دیتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ قائدؒ زندگی بھر کبھی ایسے منفی ٹارگٹ مقرّر کرسکتے تھے جن سے ملک کا نقصان ہو!  اگر آپ واقعی کرپشن کا خاتمہ چاہتے تو اپنی پارٹی میں موجود کرپٹ لوگوں کو نکالتے، شیرپاؤ پارٹی کو دوبارہ حکومت میںکبھی شامل نہ کرتے اوراحتساب کے موثر اور شفاف نظام کے بارے میں قوم کو واضح پروگرام بتاتے جو آپ نہیں بتاسکے۔

پاکستان اِسوقت مشرقی اور شمالی دونوں محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے تمام مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، ان حالات میں اسلام آباد پرچڑھائی کرکے ملک کو عدمِ استحکام کا شکار کرنا ملک سے خیرخواہی کی کونسی قسم ہے ؟ کیا مسائل میں گھرا ہوا وطنِ عزیز اس کا متحمل ہوسکتا ہے؟  خان صاحب! جس ملک نے آپ کو اتناکچھ دیا ہے عزّت، شہرت،  نوجوانوں کی محبت ۔کیا اس ملک کے لیے آپ اپنی ضد کی قربانی نہیں دے سکتے ؟ کیا آپ ایک سال انتظار نہیں کرسکتے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔