اندھیروں میں ڈوبے لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 19 اکتوبر 2016
یاد رکھو ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے انسان ہی اس کو روک سکتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

یاد رکھو ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے انسان ہی اس کو روک سکتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

آپ نے جنگی پناہ گزینوں کی وہ ولولہ انگیز داستان توسنی ہو گی، جو ایک نہایت مشکل راستے کے ذریعے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے چونکہ انھیں پیدل چلنا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس امر پر بہت زیادہ غور کیا کہ کیا وہ اپنے ساتھ ایک ماں اور اس کی چھوٹی بچی کو لے جا سکتے ہیں، بالآخر انھوں نے اس بچی کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا جسے ان میں شامل طاقتور مردوں نے اٹھانا تھا۔ مسلسل تین دن وہ نہایت ہی مشکل کے عالم میں چلتے رہے اور ان کاراستہ مزید دشوار سے دشوار گزار ہوتا گیا۔ بالاخر ایک بوڑھے آدمی کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ وہ اسے یہیں مرنے دیں اور اپنا سفر جاری رکھیں۔

شاید اس طرح وہ بچ سکیں بادل نخواستہ اور افسوس کے عالم میں قافلہ آگے بڑھنے لگا، لیکن پھر ماں نے اپنی ننھی بچی کو اٹھایا اور بوڑھے شخص کے پاس واپس چلی گئی۔ اس نے نہایت آہستگی کے ساتھ یہ بچی بوڑھے آدمی کی بانہوں پر رکھ دی اور نہایت سکون سے کہا ’’تم اس طرح اپنی ذمے داری سے دستبردار نہیں ہو سکتے، اب میری بچی اٹھانے کی تمہاری باری ہے‘‘ پھر وہ ماں مڑی اور قافلے کے پیچھے روانہ ہو گئی، تھوڑی دیر بعدانھوں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو انھیں وہ بوڑھا شخص نظر آیا جو نہایت ثابت قدمی سے ان کے پیچھے آ رہا تھا اور بچی اس کے بازوؤں میں نہایت آرام سے بیٹھی ہوئی تھی۔ اس دنیا کی تاریخ رقم کر نے والے جب ایک عظیم مورخ سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے تاریخ عالم سے کیا سبق حاصل کیا تو اس نے محض یہ جواب دیا ’’جب بہت زیادہ اندھیرا ہو جاتا ہے تو پھر ستارے چمکنے لگتے ہیں۔‘‘

یہ سچ ہے اور حقیقت ہے کہ ہم بیس کروڑ آج گھپ سیاہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اتنے سیاہ اندھیروں میں کہ ہم ایک دوسروں کو بھی دیکھ نہیںپا رہے ہیں اور کامیابی،خوشحالی، ترقی، اختیار اور آزادی کی جانب جانے والا کوئی راستہ دکھائی دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور ستم تو یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی ستارے نہیں چمک رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ہمیں اندھیروں میں ڈوبنے والے خود روشنیوں سے کھیلتے پھررہے ہیں۔ اب اس صورتحال میں یاتوہم سب کامیاب ہونگے یا پھر سب کے سب ناکام ہوجائیں گے تیسری کوئی بھی صورت ہمارے لیے نہیں بچی ہے۔ اب آپ اپنے آپ سے پوچھ لیجیے کہ ان دونوں صورتوں میں سے آپ اپنے لیے کونسی صورت پسند کررہے ہیں۔

یاد رہے تم سب کی کچھ نہ کچھ ذمے داریاں اور فرائض ہیں وہ تمام ذمے داریاں اور فرائض حسرت بھری نگاہوں سے تمہیں تک رہے ہیں۔ ذہن میں رہے تم سب کے سب نجانے کتنوں کی امیدیں ہو نجانے کتنوں کے خواب ہو نجانے کتنوں کی زندگیاں تمہیں پکار رہی ہیں۔ لہذا اب تم ہی سوچ لوکہ تم کیا اس طرح خاموش، چپ چاپ اور دبک کر بیٹھ کر اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے کیا دستبردار ہوسکتے ہو۔ پومپی آئی کے سپاہی کا واقعہ کس نے نہ سنا ہوگا۔ آج سے دوہزار سال قبل کوہ وسو ولس کی آتش فشانی سے پومپی آئی(اٹلی) کا سارا شہر راکھ کے نیچے دفن ہوگیا تھا، لیکن اب یہ شہر اپنی عمارتوں، سڑکوں اور باسیوں سمیت منظر عام پرآ گیا ہے۔

راکھ کے اس ہولناک طوفان میں ایک سپاہی نے جو فرض کا مظاہرہ کیا وہ لا زوال ہے۔ اس سپاہی نے موت کے ہنگامے کے باوجود پہرے پر سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقرر کیا گیا تھا وہ وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھک کے دھویں میں گھٹ کر مر گیا اور راکھ میں دفن ہوگیا لیکن اپنا فرض نبھاتا رہا وہ سپاہی خود اس کا نیزہ اور زرہ بکتر آج بھی نیپلز کے عجائب گھر میں موجود ہے۔

اب آپ ہی کہیے کیا آپ اس بوڑھے شخص اور اس سپاہی سے بھی گئے گزرے ہیں کیا آپ اتنے بزدل، ڈرپوک اور موت سے ڈرنے والے ہیں کہ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے بھاگے جارہے ہیں ان سے ڈر رہے ہیں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتلا دیجیے کہ آپ ان سیاہ اور کالے اندھیروں میں بغیر آواز کے کیوں دبکے بیٹھے ہیں، چیختے چلاتے کیوں نہیں باہر نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے احتجاج کیوں نہیں کرتے، اندھیرے تو باہر ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اندھیرے تمہارے اندر بھی داخل ہوچکے ہیں، اگر تم اٹھو گے نہیں تو پھر یاد رکھو جلد ہی یہ اندھیرے تمہیں نگل لیں گے یہ دکھ اور غم کبھی کسی کو معاف نہیں کرتے ہیں۔ یہ تیزاب کا کام کرتے ہیں کوئی چھوٹا سا دیا جلاکر اپنے آپ کو دیکھ لو تم آہستہ آہستہ گھل رہے ہو پگھل رہے ہو تم اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے مار رہے ہو۔

یاد رکھو ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے انسان ہی اس کو روک سکتا ہے ایسا وقت بھی ہوتا ہے۔ جب ہم ناانصافی اور ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوؤں کو اپنی قبروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے۔

خلیل جبران نے کہا تھا ’’قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جاچکا ہو‘‘ جب کہ والڈو کہتا ہے ’’انسانی زندگی کے سب سے بڑے دشمن وحشی حقائق نہیں بلکہ وہ بزدل انسان ہیں جو حقائق کا مقابلہ نہیں کرسکتے ‘‘ہر انسان اپنی ذات کی حد تک ہر فیصلے کا مکمل اختیار رکھتا ہے لیکن جب آپ کے فیصلوں کے اثرات آپ کے اپنوں پر اثرانداز ہوتے ہوں تو پھر آپ کو کسی بھی صورت غیردانشمندانہ اور غیر عقلی فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیں ذمے داریاں اور فرائض انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں آپ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے فرار حاصل نہیں کرسکتے ہو۔ اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے اور آپ اپنے آ پ سے شرمندہ اور شرمسار ہورہے ہوں اور اپنے آپ پر لعنت ملامت کررہے ہوں۔ آؤ مل کر ان اندھیروں کو سولی پر چڑھا دیں اور اپنے لیے خوش حالی، ترقی، کامیابی، آزادی کا راستہ خود بنا لیں اور آپ ذرا پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیں ستارے نکل آئے ہیں اور پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں اور وہ سب تمہارے اقدام کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔