پہاڑوں کا دل وادی ناران کا سفر (تیسرا اور آخری حصہ)

ضمیر آفاقی  بدھ 19 اکتوبر 2016
زندگی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں جس کی حفاظت کے لئے ان علاقوں میں کوئی بندوبست نظر نہیں آتا۔ کسی ہنگامی صورت حال، حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں فوری مدد کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

زندگی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں جس کی حفاظت کے لئے ان علاقوں میں کوئی بندوبست نظر نہیں آتا۔ کسی ہنگامی صورت حال، حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں فوری مدد کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

اس کے علاوہ قریبی پہاڑوں پر کوہ پیمائی بھی کی جاسکتی ہے یا پھر ناران قصبہ کی عمدہ طعام گاہوں سے لاہوری کھانوں کے مزے لئے جاسکتے ہیں۔ قصبہ کے کاروباری مراکز سیاحتی ایام میں رات گئے تک کُھلے رہتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک کی خوبصورتی کو ہمارے ’’گند کلچر‘‘ نے نقصان پہنچا کر گہنا دیا ہے۔ مناسب گائیڈ، حفاظتی بندوبست اور سرکاری رہنمائی کے فقدان سے سیاحوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پہاڑوں کا دل وادی ناران کا سفر (پہلا حصہ)

پہاڑوں کا دل وادی ناران کا سفر (دوسرا حصہ)

ان وادیوں کی خوبصورتی کے مزید تذکرے سے پہلے کچھ بد صورتیوں کی بات بھی ہوجائے جو ہمارے لکھاری حضرات اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ ان علاقوں کے مسائل کی نشان دہی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا یہاں کے دیومالائی قصوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ہے۔ میں اس بات کا پھر اعادہ کررہا ہوں کہ پاکستان قدرت کی بے پناہ نعمتوں کا حامل ملک ہے لیکن ہم نے قدرت کی دی ہوئی ہر نعمت کی نہ صرف ناقدری کی ہے بلکہ ان نعمتوں کو عوام الناس تک بھی پہنچنے نہیں دیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی معشیت کا دار و مدار صرف سیاحت پر ہے، جبکہ ہمارے پاس تو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ زرعی اجناس سے لیکر پھل، پھول، سبزیاں معدنیات بھی موجود ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی ہم بھوکے مر رہے ہیں، بات یہاں تک بھی نہیں رکتی بلکہ یہاں بیروزگاری بڑھنے کے ساتھ ساتھ ملک چلانے کے لئے قرضہ بھی لینا پڑتا ہے۔

ناران میں تمام کاروباری مراکز چاہیں وہ دوکانیں ہوں، ہوٹل یا گیسٹ ہاوسز ہوں، کہیں بھی سرکاری بجلی نہیں ہے بلکہ یہ سب مراکز اپنی بجلی خود پیدا کرتے ہیں، اِس مقصد کے لیے کچھ لوگوں نے ٹربائن لگا رکھی ہیں اور کچھ نے جنریٹر سے بجلی کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جنریٹر کی آلودگی سے ان علاقوں کی قدرتی خوبصورتی اور ماحول بہت متاثر ہورہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان علاقوں کے انفراسڑکچر کو بحال اور بہتر کرنے پر توجہ دے تو بجلی کا مسئلہ قطعی طور پر بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ پانی یہاں وافر مقدار میں ہے، بلکہ بجلی پیدا کرنے کے لئے یہاں قدرتی طور پر آبشاریں اور دریا بھی موجود ہیں جن کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ بہت کم وسائل کے ساتھ یہاں وافر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف تفریحی مقامات جیسے جھیل سیف الملوک، لالہ زار کے علاوہ دیگر مقامات کی جانب جانے والے راستے بہت ہی خراب اور خستہ حال ہیں، بلکہ خطرناک بھی ہیں جن سے جانی نقصان کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وادی ناران کا ’’جیپ مافیا‘‘ نئی سڑکوں کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ خراب سڑکوں کی وجہ سے ابھی سفر صرف انہی کی جیپوں میں ہوتا ہے لیکن اگر نئی سڑکیں بن جائیں تو آمدورفت میں آسان ہوجائے گی اور لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں سفر کرسکیں گے۔ لیکن سڑک نہ بننے کی وجہ چاہے کچھ بہ ہو، مگر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تفریحی مقامات کی جانب جانے والے راستوں کو بہتر کرنے کے ساتھ وہاں حفاظتی اقدامات کا بھی بندوبست کرے۔

زندگی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں جس کی حفاظت کے لئے ان علاقوں میں کوئی بندوبست نظر نہیں آتا۔ کسی ہنگامی صورت حال، حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں فوری مدد کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر ملکی سیاح بہت کم آتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہوٹل مالکان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سیاحوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ان کی عزت و احترام کا خیال رکھیں۔ ساتھ ہی غیر ملکی سیاحوں پر بے جا پابندیوں کا اطلاق بھی سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔

ان علاقوں میں موبائل سروسز اور انٹرنیٹ کی کارکردگی قابل رشک نہیں ہے۔ آج کے مصروف اور کاروباری دور میں ایک لحمہ بھی اپنے رابطوں سے دور نہیں رہا جاسکتا لیکن یہاں آنے کے بعد بندہ دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والے مقامی سیاح بھی زیادہ دن قیام نہیں کرتے۔ حکومت کو سیاحت کے فروغ کے لئے اس کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ سیاحوں کی ضروتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنانے کے ساتھ سیاحت کے ادارے کو فعال کرنا چاہیئے تاکہ ہم صرف سیاحت سے ہی ملکی معشیت کو بڑھا سکیں۔

اب آتے ہیں لالہ زار کی جانب، لالہ زار اور جھیل سیف الملوک کی جانب عازم سفر ہونے کے لئے صرف جیپ ہی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جو ناران میں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کا کرایہ تقریباً 3 ہزار تک وصول کیا جاتا ہے۔ ناران سے 16 کلومیٹر آگے بٹکنڈی کا علاقہ آتا ہے یہاں سے ایک دشوار راستہ بل کھاتی چڑھائی جو کچے راستے پر مشتمل ہے جس پر ایک وقت میں صرف ایک ہی جیپ گزر سکتی ہے۔ مخالف سمت سے آنے والی جیپ کو راستہ دینے کے لئے ایک طرف کے ڈرائیور کو روک کر دوسری طرف کے ڈرائیور کوجگہ دینی پڑتی ہے، یوں یہ آدھے گھنٹے کا راستہ بعض اوقات کئی گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے اور خطرات الگ محسوس ہوتے ہیں ڈرائیور کی زرا سی غفلت کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہاں سّیاح خود کو بھول کر اطراف کے خوبصورت نظاروں میں کھو جاتا ہے، جہاں بلند سرسبز پہاڑوں پر بادل اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر جب اس کی نظر زمین پر پڑتی ہے تو وہ حیرت کے سمندروں میں کھو جاتا ہے کیونکہ گہرے سبز قالین نما گھاس کی زمین رنگ برنگی پھولوں سے بھری ہوتی ہے اور اسے بادل ناخواستہ ان پھولوں کو روندتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ لالہ زار کیمپنگ کے متوالوں کے لئے آئیڈیل مقام ہے۔

جھیل لولوسر اور دودی پت سر بٹکنڈی سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی کی دو خوبصورت جھیلیں ہیں۔ سحر انگیز اور جادوئی جھیل جھیل لولوسر سطح سمندر سے تقریباً 11200 فٹ کی اونچائی پر ہے۔ یہ جھیل ناران سے 60 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ راستہ چونکہ دشوار گزار ہے، اس لئے یہاں تک کم ہی سیاح آتے ہیں ویسے بھی ہر خوبصورت مقام ہر فرد کیلئے نہیں ہوتا۔ عزم و ہمت کا مظاہرہ کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے کچھ وادیاں شاہراہ عام سے ہٹ کر رکھی ہیں۔ 3 کلومیٹر طویل لولوسر جھیل دریائے کنہار کا ماخذ ہے۔ یہاں تک جیپ آتی ہے جبکہ دودی پت جھیل تک جانے کے لئے 5 تا 6 گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ ناران سے گزرتی یہ سڑک بابو سر ٹاپ سے ہوتی ہوئی شاہراہ قراقرم پر چلاس سے جاملتی ہے۔ بابو سرٹاپ سے نانگا پربت اور کئی بلند چوٹیوں کاحسین نظارہ ممکن ہے۔

لاہور سے کاغان اور ناران کا سفر اگرچہ بہت لمبا ہے لیکن جب آپ اس دیومالائی وادیوں میں پہنچتے ہیں تو یہ لمبا سفر اور اس سے منسلک تھکاوٹ آپ کے ذہن سے فوراً محو ہوجاتی ہے۔

گوکہ قدرت کی شاہکار حسین وادیوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر انہی الفاظ پر اکتفا کرتے ہوئے بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں قدرت کی بے شمار نعمتیں موجود ہیں۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ہمیں اس طرح ادا کرنا چاہیئے کہ ہم قدرت کی جانب سے دی گئی نعمتوں میں اضافہ کریں انہیں برباد اور خراب نہ کریں جس کے لئے جہاں حکومت کو کردار ادا کرنا ہے وہیں مقامی افراد اور ملکی سیاحوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان وادیوں کی خوبصورتی اور ماحول کو آلودہ کرنے سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سفر کی روئیداد واقعات اور حالات بیان کرنے کے لئے ذاتی مشاہدے، تجربے، معلومات اور نیٹ سے بھی مدد لی گئی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔