فکر آخرت سے غفلت کیوں؟

خالد دانش  جمعرات 13 دسمبر 2012
 اپنوں کی دل جوئی,غم گساری  اور امن و سلامتی کا پرچار کیجیے. فوٹو : فائل

اپنوں کی دل جوئی,غم گساری اور امن و سلامتی کا پرچار کیجیے. فوٹو : فائل

 یہ بات ہر مسلمان بلکہ ہر ذی عقل و شعور انسان جانتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بابرکت کلام اور نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ سیرت نے جہالت کے اندھیروں کو پاش پاش کر کے دنیا کو اپنے نور سے منور کیا۔

یہ قرآن حکیم کا معجزہ ہے کہ اس کی پاکیزہ تعلیمات سے فیض یاب ہوکر مسلمانوں نے لاکھوں مربع میل تک علم و عمل، حکمت و شجاعت کا لوہا منوایا ۔ اس کے برعکس فی زمانہ ہم تعلیم ربانی کے آفتاب کی پرنور ، نفع بخش شعاعوں سے گریز کررہے ہیں۔ جس کلام پاک سے لازوال حقیقی ترقی و برتری حاصل ہوسکتی ہے اسی سے ہم رو گردانی کرنے لگے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خود ساختہ ترقیوں اور من گھڑت برتریوں کی اندھیری گھاٹی میں پھنس چکے ہیں۔ ہم اﷲ جل شانہ اور نبی اکرم ﷺ کی ہدایت عالیہ سے بے خبر ہوکر بداعمالیوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ شیطان کا ہر حربہ ہم پر کارگر ثابت ہورہا ہے۔ ہمارے اعمال صالحہ نفس کی طغیانیوں میں بہہ چکے ہیں۔ بھٹکی ہوئی انسانیت قرآنی تعلیمات کے پاک و مطہر نور کی ایک کرن کی منتظر ہے۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’ یہ کتاب ہے،جو ہر قسم کے شک وشبے سے بالاتر ہے، متقین کی ر اہ نماہے۔‘‘

خدارا! پرہیزگاری سے کام لیجیے۔ اﷲ عزوجل کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کریں۔ دل میں رب ذوالجلال  کا خوف رکھیے۔ برے کاموں سے نفرت، ہر حال میں اپنے کریم رب کا شکر ، نمازوں کا اہتمام ، والدین کی خدمت ، راہ خدا میں اسراف، ایمان و عقائد کی اصلاح ، بے حیائی اور بے ہودہ کاموں سے اجتناب ، مشکلات میں صبر ، مخلوق خدا کے ساتھ خوش اخلاقی، یہی وہ اوصاف حمیدہ ہیں جنہیں اپنانے میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اغیار کی چالوں سے بچتے ہوئے ہماری زندگیاں بحیثیت مسلمان صبر، شکر، اطاعت الٰہی اور اتباع سنت کا عملی نمونہ بن جائیں تاکہ بحکم ربی رنج و غم، تنگ دلی، حزن، قنوطیت اور شکست خوردگی ہمارے قریب نہ آسکے۔ ہمیں اپنے عزائم بلند رکھنے چاہیے۔ کردار و عمل کو شائستہ اور پاکیزہ رکھنا چاہیے اور اچھے اخلاق کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ من پسند زندگی گزارنے کی پاداش میں پریشان و مغموم، اداس و رنجیدہ کردیے جائیں۔ لہٰذا مسلمان اپنے ہر لمحے کو فکر آخرت، ذکرالٰہی اور اطاعت رسول اکرم ﷺ میں گزارنے کا اہتمام کرے تاکہ اطمینان و عافیت والی زندگی نصیب ہوجائے۔

ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اﷲ کے سچے بندوں کے ساتھ ہو جائو۔ ‘‘ عاجزی و انکساری ، عفو و درگزر، کامل اوصاف حمیدہ، عمدہ اخلاق کی علامات ہیں۔ اچھے اخلاق کے ساتھ اصلاحی مقاصد کے تحت زندگی گزاریں۔ اچھے کاموں کی ابتدا کیجیے۔ اچھے انجام کی امید رکھیں۔ اﷲ پر توکل کیجیے۔ یقیناً رب کریم  ہماری زندگیوں میں خوش گواری ، سکون اور راحت شامل کردے گا اور اﷲ پاک ہی مشکلات ، مصائب و آلام ، یاس و ناامیدی، مایوسی و نامرادی ختم کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ہمیں تو صرف اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے۔ اس ذات عالی شان کے احکامات کی پاس داری اور اتباع سنت نبوی ﷺ میں ہی فلاح کا یقین رکھنا ہے۔

جس روز ہم آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اُسی دن ہم باطل کی اینٹ سے اینٹ اور دشمنوں کا منہ توڑ جواب دینے کے قابل بن جائیں گے ۔اُٹھیے؛ خواب غفلت سے بیدار ہوکر آج اور ابھی سے گزشتہ کوتاہیوں کا سدباب کرنے کا عہد کیجیے۔ اپنوں کی دل جوئی اور غم گساری کیجیے۔ امن و سلامتی کا پرچار کیجیے۔ موت کو ہر لمحہ یاد رکھیے۔ قبر کی اندھیری کوٹھری کے لیے قرآن و سنت کی روشنی کا انتظام دنیا میں فرائض کی ادائیگی اور اتباع سنت سے کرلیجیے۔ آخرت کی فکر کیجیے جہاں میدان حشر میں ہر کوئی نفسا نفسی میں لگا ہوگا۔ صرف اچھے اعمال ہی اس روز ڈھال بنیں گے۔اگر ہمیں خود کو بڑی شرمندگی سے بچانا ہے تو اﷲ عزوجل کی عظیم الشان بارگاہ میں خود کو جھکانا ہوگا ۔ اﷲ پاک ہمارے دلوں میں آخرت کی فکر کو داخل فرمادے اور قرآن و سنت کے نور سے ہمارے ایمان کو حلاوت نصیب فرمادے (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔