بلاوا

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 20 اکتوبر 2016

سید طارق جاوید مشہدی 2011ء میں جب حج پرگئے تو ایک عجیب خواہش دل میں تھی، حرم مکہ میں اذان دوں۔ اپنے سفرنامہ حج ’’بلاوا‘‘ میں لکھتے ہیں ’’میں جب سے مکہ پہنچا تھا، دل کی گہرائیوں سے ایک پھڑپھڑاتی دعا نکلتی تھی کہ اے اللہ! حدود حرم میں اذان دینے کا موقع عطا کردے۔ مجھے معلوم تھا کہ حرم شریف میں باقاعدہ ایک موذن فیملی ہے وہاں میرے جیسا سیاہ کار اس قابل کہاں۔ پھر بھی اندر سے آواز آتی کہ کوئی ابھی کہے گا کہ اٹھو! اذان کہو۔‘‘

اب یہ حرم کعبہ میں تو ممکن نہ تھا لیکن اللہ نے ان کی دعا کا منیٰ میں بھرم رکھ لیا۔ ایک دن جب یہ عرفات سے واپس آچکے تھے عصرکے وقت ان کے ایک ہم خیمہ خلیل صاحب نے آواز لگائی۔ ’’اذان کون دے گا؟‘‘ خلیل صاحب کی یہ آواز گویا طارق مشہدی کے دل کی آواز تھی۔ وہ اٹھے اور قبلہ روکھڑے ہو کر’’اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘‘ کہنے لگے۔

دراصل طارق کو بچپن سے اذان کہنے کا جنون کی حد تک شوق تھا حتیٰ کہ ٹھٹھرتی سردی، سخت گرمی اور تیز بارش میں بھی اذان فجرکے لیے وہ اپنی بستی کی مسجد میں موجود ہوتے تھے۔ موسم گرما کی ایک صبح کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’میں اذان فجر کے لیے گھر سے نکلا تو مسجد کے قریب ایک گھرکے چوکیدار کتے نے مجھے آ لیا۔ میں روز اس کے آرام میں مخل ہوتا تھا لیکن چونکہ وہ زنجیر سے بندھا ہوتا تھا سوائے بھونکنے کے کچھ نہ کرسکتا تھا۔

اس روز وہ آزاد تھا۔ میں اس وقت اسکول میں پڑھتا تھا چھوٹا تھا۔ وہ مجھ پر لپکا، میں اس حملے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے پلک جھپکتے میں مجھے گرا لیا۔ میں نے سفید کرتا پہنا ہوا تھا جو اس نے پھاڑ کھایا۔ میری چیخوں نے لمحوں میں مامتا کو میرے سر پرکھڑا کردیا۔ میری چیخ امی کو سنائی دی تو وہ پردے والی چادر سنبھالتی دوڑتی ہوئی باہرآگئیں۔ کتے کے مالک بابا جی بھی پہنچ گئے اور میں اس کے مزید حملوں سے محفوظ ہوگیا۔‘‘

طارق جاوید مشہدی ملتان سے اپنی بیگم رابعہ، ان کی والدہ تسنیم صاحبہ اور بیٹے ارسلان کے ہمراہ جدہ روانہ ہوئے، اکتوبر کا مہینہ تھا۔ جدہ سے مکہ خوابوں کا سفر تھا۔ جدہ میں ایک اچھے ہوٹل میں قیام تھا۔ ابھی سفرکی تھکن دور نہ ہوئی تھی کہ عمرہ ادا کرنے حرم شریف پہنچ گئے۔ بیت اللہ سامنے آیا تو گم سم ہوکر رہ گئے۔ جذبات کا طوفان اندر تھا باہرآنکھیں خشک تھیں۔ پھر ان آنکھوں کے بہنے کا بہت وقت آیا۔ بڑی مشکل سے انھوں نے اور ان کی شریک زندگی نے طواف کیا، سعی کی اور اپنی قیام گاہ پر واپس آئے مگر اس حال میں کہ تین دن بستر پر پڑے رہے۔

چوتھے دن وہ پھر حرم میں حاضر تھے۔ یہ سلسلہ منیٰ جاتے تک جاری رہنا تھا۔ ایک دن یہ اپنے قافلے کے ساتھ جس میں ان کی بیگم، برادر نسبتی ارسلان اور خوش دامن صاحبہ شامل تھیں غارحرا، غار ثور، میدان عرفات، منیٰ اور مزدلفہ بھی گئے۔ تفصیل سے ان مقامات کا ذکر ان کے سفرنامے کا حصہ ہے، رسول اللہؐ کے والد محترم حضرت عبداللہ کا مکان جہاں سرکار دوعالمؐ کی پیدائش ہوئی، جس جگہ واقع تھا وہاں اب ایک لائبریری ہے، وہاں پہنچے تو خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی جگہ جس کی حضورؐ سے نسبت ہے اسی اپنی اصل حالت پر محفوظ رکھی جاتی۔

اب منیٰ جانے کا وقت آگیا تھا۔ 8 ذوالحج کی صبح بسیں ہوٹل کے دروازے پر پہنچ گئیں اور طارق جاوید اپنے ساتھیوں کو لے کر ان میں سوار ہوگئے۔ افراتفری اور بدنظمی کا جو حال اس موقعے پر ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ لوگوں کے رویے، مکہ سے روانگی اور منیٰ میں خیموں کے عارضی شہر میں رہائش کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’کہیں سے نہیں محسوس ہوتا تھا کہ ہم حج کرنے آئے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کم جگہ ملنے کی وجہ سے ہم اپنی حکومت کوکوسنے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے مسلک کو برا کہنے کو آئے ہیں، ظہرکی نماز کی دو اور چار رکعتوں پر جھگڑا کرنے آئے ہیں، ایک خیمے میں پانچ پانچ اذانیں کہنے اور پانچ پانچ جماعتیں کروانے آئے ہیں۔‘‘

عرفات کے لیے منیٰ سے 9 تاریخ کی صبح روانگی ہوتی ہے مگر طارق مشہدی اور ان کے قافلے والوں کو رات ہی میں عرفات جانے کی ہدایت ہوئی۔ انھیں منی اور عرفات کے درمیان چلنے والی جدید ٹرین سے جانا تھا۔اس مختصر سے سفرکا جو پندرہ منٹ سے زیادہ کا نہیں تھا جو تجربہ انھیں ہوا وہ پڑھنے کا ہے۔ یہ جب عرفات کے میدان میں پہنچے ہیں تو اندھیرا تھا۔

اسٹیشن سے اپنے مکتب 36 میں اپنے خیمے تک پہنچنا راستہ معلوم ہوئے بغیر، ایک بڑا سوال تھا۔ لکھتے ہیں ’’عرفات دعاؤں کی قبولیت کی جگہ ہے۔ میں نے دعا مانگی یا اللہ! بگڑی سنوار دے۔ اللہ نے مدد فرمائی، اور ایسا لگا کہ کسی طاقت نے میرا رخ ایک سمت موڑدیا۔کوئی سو قدم چلا ہوں کہ مکتب 36 کا بورڈ لگا نظر آیا۔ مجھے یقین نہ آیا۔ میں بھاگتا ہوا اس بورڈ کے پاس گیا اور خوشی سے میری چیخ نکل گئی۔‘‘

9 ذوالحجہ عرفات میں قیام کا دن ہے۔ جس نے یہاں پہنچ کر اس دن قیام کرلیا اس کا حج ہوگیا۔ یہاں سے مغرب کی نماز ادا کرنے سے پہلے نکل کر مزدلفہ جانا تھا۔ طارق جاوید اور ان کے ساتھی ٹرین کے ذریعے روانہ ہوئے اور مزدلفہ پہنچے جہاں رات کھلے آسمان تلے گزارنی تھی، پھر منیٰ کے لیے چل دینا تھا۔ مزدلفہ ہی سے انھیں منیٰ میں شیطانوں کو مارنے کے لیے کنکریاں جمع کرنا تھیں۔

وقوف عرفہ کا حال بیان کرتے ہوئے طارق مشہدی لکھتے ہیں ’’اپنی خطاؤں، نافرمانیوں، گناہوں اور لغزشوں کے گٹھڑ لیے ہر رنگ و نسل کے مرد و زن، بچے، بوڑھے، ایک ہی لباس میں اپنے رب کے سامنے کھڑے تھے،کہیں صرف آنسو تھے، توکہیں سسکیاں اورکہیں دھاڑیں مارتے انسان۔ میں اپنے خیمے کے پیچھے فقیر بنا کھڑا تھا۔ آنسوؤں کی برسات میں۔‘‘

طارق جاوید مزدلفہ سے منیٰ پہنچے۔آج چارکام کرنے تھے، شیطان کوکنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر منڈانا اور بیت اللہ کا طواف کرنا۔ ابتدائی تین کام پورے ہوئے،غسل کرکے احرام کی چادریں اتار دیں اورطواف زیارۃ کے لیے روانہ ہوگئے، رابعہ ساتھ تھیں۔ 12 ذوالحج تک منیٰ میں رہے اور پھر شام کو منیٰ سے واپس مکہ اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔

فریضہ حج کی ادائیگی پر مسرور اب اس قافلے کو مدینہ منورہ جانا تھا۔ لکھتے ہیں ’’وقت نے اپنی اڑان مکمل کرلی تھی۔ کعبے کے گرد آخری سات چکروں کا وقت آپہنچا تھا۔ بیت اللہ کو نظروں سے اوجھل کردینا کسی کونہیں بھاتا مگر ہزاروں میل دور سے جانے والوں کو خوبصورت یادوں اور اس دعا کے ساتھ واپس آنا ہوتا ہے کہ اللہ بار بار بلائے اور ہم دیوانہ وار بھاگتے چلے آئیں۔‘‘

طواف وداع کے بعد مدینہ منورہ جانے کی خوشی دیدنی تھی۔ مدینہ کے راستے میں تین جگہ تھوڑی سی دیر قیام کیا، کھانا کھایا اور ظہر، عصر کی نماز ادا کی۔ لکھتے ہیں ’’جوں جوں مدینہ شریف قریب آرہا تھا دلوں کی دھڑکنیں تیزہورہی تھیں۔ میرا دل یہ چاہتا تھا کہ ان لمحوں میں کوئی بات نہ کرے۔‘‘

مدینہ منورہ پہنچ کر ہوٹل میں اپنے کمرے تک آتے عشا کا وقت گزرچکا تھا۔ دوسرے دن جمعہ تھا خوش قسمتی دیکھیے مسجد نبوی میں پہلی حاضری اس مبارک دن ہورہی تھی۔ نماز جمعہ کے بعد طارق جاوید روضہ مبارک کے سامنے پہنچے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ حضورؐ کو سلام کرکے انھوں نے حضرت ابو بکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو سلام کیا۔ روضہ پاک کے سامنے کچھ دیرکھڑے رہنے کو بہت جی چاہا مگر بے پناہ رش کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا اور وہ سر جھکائے خاموش چلے آئے۔

مشہدی لکھتے ہیں ’’پہلی حاضری کے بعد توگویا زائرکو روضہ پاک جانے کا جنون سا ہوجاتا ہے۔ وہ ہر لمحے چاہتا ہے کہ اس کے جسم وجاں کا رشتہ اس مبارک حجرے سے قائم رہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ دن میں کئی کئی بار ایسا ہوتا کہ قطار میں لگ جاتا، روضہ رسول پر سلام پیش کرتا، باہر نکلتا اور پھر بھاگ کر قطار میں لگ جاتا۔ ایسا اس روز زیادہ ہوتا جب میں اکیلا ہوتا۔ تشنگی تھی کہ جاتی نہیں تھی۔‘‘

ایک دن عصر کے وقت طارق جاوید کو نماز کے لیے جو جگہ ملی وہ روضہ پاک کے عین سامنے محض ایک قدم کے فاصلے پر تھی۔ لکھتے ہیں ’’نماز سے پہلے جتنی دیر میں وہاں بیٹھا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پیچھے مڑکر دیکھتا اور خوش ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسی سعادت سے نوازا ہے کہ روضہ پاک کی جالیوں سے اتنا قریب ہوں۔‘‘

مشہدی کی بڑی خواہش تھی کہ سرکارؐ کے روضہ مبارک اور منبر کے درمیان اس جگہ میں جو ریاض الجنۃ کہلاتی ہے، انھیں نماز پڑھنے کی سعادت ملے مگر اس مقام پر ہجوم کے باعث وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ پھر یہ سعادت انھیں شہر نبیؐ میں اپنے قیام کی آخری شب میں نصیب ہوئی۔کچھ رات گزری تھی کہ وہ مسجد نبوی پہنچ گئے۔

روضہ رسولؐ پر حاضری کے بعد وہ چپکے سے ریاض الجنۃ میں چلے گئے۔ لکھتے ہیں ’’جنت کی اس کیاری میں اس وقت وہ رش نہ تھا کہ سجدہ کسی کی پیٹھ پر ہو رہا ہے اور آپ کی پیٹھ سے کسی کا سر ٹکرا رہا ہے۔ جہاں عام حالت میں دو نوافل پڑھنے مشکل ہوجاتے ہیں آج میں نے اس کے چپے چپے پر نوافل ادا کیے۔ میں جنت کی کیاری میں دعائیں مانگتا رہا۔‘‘

پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ جنت البقیع گئے، مسجد قبا اور مسجد قبلتین میں حاضر ہوئے، شہدائے احد کے مدفن پر حاضری دی، مسجد جمعہ کی بھی زیارت کی۔ مدینہ کی سوغات کھجوریں خریدنے کھجور بازار بھی گئے۔ اب واپسی تھی۔

لکھتے ہیں ’’ہماری منزل جدہ تھی اور پاکستان۔ ہماری بسیں شہر نبی کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھیں، موڑ کاٹنے، ادھر ادھر جاتے کبھی کبھی مسجد نبوی کا کوئی مینار نظر آجاتا تھا۔ ہم اس امید اور دعا کے ساتھ مدینہ چھوڑ رہے تھے کہ بلاوے آتے رہیں گے اور ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی رہیں گی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔