اعلیٰ تعلیمی اداروں کا مالی بحران

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 13 دسمبر 2012
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

دور حاضر میں جو ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں وہاں اعلیٰ تعلیم اور محققین پر ناصرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے بلکہ ملکی بجٹ میں تعلیم کے لیے ایک معقول رقم بھی مختص کی جاتی ہے۔ پھر ان ممالک میں تحقیق کا معیار اور انتخاب وہی ہوتا ہے جو ان کی اپنی ضرورت ہو، اس لیے جب تحقیق کے نتائج آتے ہیں تو ان سے نہ صرف ملکی مسائل حل ہوتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارت سے ملکی معیشت بھی مضبوط تر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال جاپان اور چین بھی ہیں جو بین الاقوامی تجارتی منڈیوں میں بھی نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی تعلیم کے لیے بجٹ، جامعات کے لیے فنڈ کی ضرورت اور ایسی منتخب تحقیق کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے گمبھیر مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو۔ حال ہی میں جامعہ کراچی شعبہ ویژول اسٹڈیز کے انڈسٹریل ڈیزائنر طالب علم ہادی شیخ نے پاکستانی ماحول اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی موٹر سائیکل ڈیزائن کر ڈالی ہے جو تین پہیوں پر مشتمل، تین افراد کی سواری کے لیے کار کے اسٹائل میں ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بائیک کے برابر ہی جگہ گھیرتی ہے اور فیول بہت کم خرچ کرتی ہے۔ سائنس سے تعلق رکھنے والے طلبا انرجی اور ٹریفک کی روانی سے متعلق اپنی ایجادات یا نظریات سے اس ملک کے عوام کی خدمت کرسکتے ہیں۔

سماجی علوم سے تعلق رکھنے والے اپنی تحقیقات کے ذریعے ٹوٹتے پھوٹتے خاندانی نظام، معاشرتی انتشار اور اداروں کو مزید بہتر اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر محققین ایگریکلچر کے شعبے میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ ایسی تمام تر تحقیقات جو اعلیٰ تعلیمی اداروں یا ملکی جامعات میں ہوسکتی ہیں، ملکی مسائل کے حل کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہیں اس کے لیے صرف خلوص نیت اور مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ مالی مسئلہ طلبا کے لیے ایک اہم ترین مسئلہ ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کرنیوالے ریسرچ اسکالرز کے لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک کالج کا طالب علم بھی جب داخلے کے لیے فارم وٖغیرہ جمع کراتا ہے اور پھر کتاب و کاپیوں کے لیے رقم خرچ کرتا ہے تو یہ عمل متوسط گھرانے کے طالب علموں کے لیے بھی مشکل مرحلہ ثابت ہوتا ہے جب کہ جامعات میں یہ اخراجات کمال عروج پر نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کراچی بھی ان ہی مسائل سے دوچار ہے۔ مالی معاونت انتہائی نچلی سطح پر کہ جہاں اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مسئلہ بن چکی ہو وہاں علمی و تحقیقی سرگرمیاں کس طرح اپنے معیار کے ساتھ جاری رہ سکتی ہیں۔جامعہ کراچی اس صورتحال میں بھی اپنے طلبا کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے میں عملی طور پر کوشاں ہے، اسٹوڈنٹس فائننشل ایڈ آفس کے تحت اس وقت کم و بیش 12 مختلف اسکیموں کے ذریعے جامعہ کراچی کے طلبا کو مالی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔ ان اسکیموں میں مٹسوبشی کارپوریشن اسکالر شپ، کراچی یونیورسٹی المنائی ٹرسٹ، سیدہ مبارک بیگم اسکالر شپ، بسم اﷲ بی بی اسکالر شپ، طاہرہ ایوب اسکالر شپ، الرحمن ویلفیئر ٹرسٹ اسکالر شپ، جے ایس ٹی کیو فائونڈیشن (انگلینڈ) اسکالر شپ، یونیورسٹی آف کراچی المنائی ایسوسی ایشن (UKAA) (USA) اور جامعہ کراچی کی جانب سے Fee کنسیشن شامل ہے جب کہ ریسرچ کے طلبا کو دی جانیوالی ریسرچ فیلو شپ مالی بحران کے باعث گزشتہ تین برس سے جامعہ کراچی طلبا کو دینے سے قاصر ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ریسرچ کے طلبا کو جامعہ کی جانب سے ریسرچ فیلو شپ کے ضمن میں جو تھوڑی بہت رقم مستحق طلبا کو دی جاتی تھی وہ بھی جامعہ کراچی کی گرانٹ میں مسلسل کٹوتی کے باعث گزشتہ تین برسوں سے بند ہے جب کہ حقائق یہ ہیں کہ سائنس کے طلبا کو اپنی تحقیق میں لاکھوں روپے تک اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ سوشل سائنس کے کسی ایسے موضوع پر بھی تحقیق کرنی ہو جو لائبریری میں بیٹھ کر کی جائے، اس پر بھی فوٹو کاپیوں، کمپوزنگ، بائنڈنگ وغیرہ میں اس قدر رقم خرچ ہوجاتی ہے کہ محقق کا کام وقت پر مکمل نہیں ہوپاتا۔

سوال یہ ہے کہ جب جامعات میں تحقیق کا کام بھی طلبا کے لیے بھاری مالی بوجھ ثابت ہو اور رکاوٹوں کا باعث ہو تو پھر بین الاقوامی معیار کی تحقیق کو کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟ بلاشبہ بہت سے شعبہ جات میں عالمی معیار کی تحقیق ہو رہی ہیں مگر کس قدر اور کب تک؟ آئندہ آنیوالی مشکلات میں یہ گراف مزید نیچے نہیں آئے گا؟ حکومت وقت کو اب تعلیمی اداروں خصوصاً اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے بجٹ پر نظر ثانی کرنا ہوگی ورنہ یہ ادارے پستی میں چلے گئے۔ اس وقت جامعہ کراچی میں طلبا کی مالی معاونت کے لیے کم و بیش 14 اسکیمیں موجود ہیں جن میں سے صرف 2 جامعہ کراچی کی اپنی ہیں، اگر دیگر نجی ادارے طلبا کی معاونت نہ کریں تو سیکڑوں طلبا تعلیم و تحقیق کو جاری ہی نہ رکھ سکیں۔

حکومت کیساتھ ساتھ نجی اداروں خصوصاً جامعہ کراچی کیساتھ طالب علموں کو اپنی مالی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ضرور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک اہم مسئلہ اعتماد کی کمی بھی ہے تاہم راقم کا مشاہدہ ہے اور کامل یقین بھی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر شکیل خان اپنے ماتحت احسان الحق اور دیگر عملے کیساتھ اسٹوڈنٹ فنانشل ریڈ آفس کے ذریعے طلبا کو اسکالر شپ کی فراہمی کا کام نہایت ایمانداری اور شفافیت کیساتھ کئی برسوں سے کررہے ہیں اور مستحقین اور میرٹ پر آنیوالے طلبا کو بلا تخصیص مالی معاونت فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل خان کی اعلیٰ ذہانت اور حکمت عملی کے باعث طلبا کی مالی معاونت مکمل شفاف طریقے سے ہورہی ہے اور طلبا تنظیموں کا یہاں قطعی عمل دخل نہیں ہے۔ ایسے صاحب حیثیت افراد، ادارے اور خاص کر جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل طلبا جو ملک و بیرون ملک عملی زندگی بھرپور طریقے سے گزار رہے ہیں اور مالی طور پر مستحکم ہیں انھیں طالب علموں کی مالی مدد کرنی چاہیے۔

پرائیویٹ بی اے یا ایم اے کرنیوالے ایک طالب علم کو اگر دو پارٹ کا ایک ساتھ امتحان دینا ہو تو سمجھیں کہ اس کی ایک ماہ کی آدھی سے زیادہ تنخواہ اس کی نذر ہوجاتی ہے جب کہ دیگر اخراجات الگ ہیں۔ پہلے جامعہ کراچی اپنے پرائیویٹ طلبا کی فیسیں درخواست دینے پر معاف بھی کر دیتی تھی مگر اب یہ سلسلہ بھی بند ہے۔

جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات کے تحت قائم المنائی ایسوسی ایشنز مالی بحران کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہیں اور اساتذہ غیر فعال تنظیموں کو فعال بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ حال ہی میں شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے بھی کراچی یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن (KUJA) کو دوبارہ فعال کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ ایک بڑی تقریب میں تمام سابق طلبا کی ملاقات کا بھی اہتمام کیا جس کا ایک مقصد شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ان حضرات کے تعاون کا حصول بھی تھا۔ بہرکیف یہ ملک اور جامعہ کراچی ہم سب کی ہے لہٰذا اس کی ترقی و تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر جدوجہد کریں اور یہ کام صرف حکومت پر نہ چھوڑیں کیونکہ تعلیم و تحقیق کو ترجیح دیے بغیر نہ کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے نہ قوم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔