- نیشنل ایکشن پلان 2014 پر عملدرآمد کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
- پختونخوا کابینہ میں بجٹ منظوری کیخلاف درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس
- وزیراعظم کا ٹیکس کیسز میں دانستہ التوا کا نوٹس؛ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو اسلام آباد معطل
- بلوچستان میں 24 تا 27 اپریل مزید بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری
- ازبکستان، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین شراکت داری کا اہم معاہدہ
- پی آئی اے تنظیم نو میں سنگ میل حاصل، ایس ای سی پی میں انتظامات کی اسکیم منظور
- کراچی پورٹ کے بلک ٹرمینل اور 10برتھوں کی لیز سے آمدن کا آغاز
- اختلافی تحاریر میں اصلاح اور تجاویز بھی دیجیے
- عوام کو قومی اسمبلی میں پٹیشن دائر کرنیکی اجازت، پیپلز پارٹی بل لانے کیلیے تیار
- ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس کیوں لایا گیا؟ جواب آپکے سامنے ہے! سلمان بٹ کا طنز
- آئی ایم ایف کے وزیراعظم آفس افسروں کو 4 اضافی تنخواہوں، 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اعتراضات
- وقت بدل رہا ہے۔۔۔ آپ بھی بدل جائیے!
- خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے!
- 9 مئی کیسز؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواستیں سماعت کیلیے منظور
- ’آزادی‘ یا ’ذمہ داری‘۔۔۔ یہ تعلق دو طرفہ ہے!
- ’’آپ کو ہمارے ہاں ضرور آنا ہے۔۔۔!‘‘
- رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
- مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ 619 ملین ڈالر کیساتھ سرپلس رہا
- کیویز سے اَپ سیٹ شکست؛ رمیز راجا بھی بول اٹھے
- آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونیکا امکان ہے، وزیر خزانہ
سندھ میں 40 فیصد بچے ناکافی غذا اور وزن میں کمی کے شکار
کراچی: سندھ کے محکمہ برائے منصوبہ بندی اور ترقی کے غذائی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ثمر میمن کا کہنا ہےکہ پاکستان میں ہر دوسرا بچہ اپنے پورے قد پر نہیں جس کا مطلب ہے کہ شدید غذائی قلت سے اس کی معمول کی نشوونما متاثر ہوئی ہے جو آگے چل کر جسمانی اور دماغی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔
ڈاکٹر ثمر میمن نے سال 2011 میں قومی غذائیت کے سروے ( این این ایس) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں 5 سال کم عمر کے بچے غذائی کمی کی وجہ سے بونا پن ( اسٹنٹیڈ) کے شکار ہیں، 40 فیصد اپنی عمر کے لحاظ سے کم وزنی ہیں اور 73 فیصد خون یا فولاد کی کمی کے شکار ہیں، مختصراً صوبہ سندھ کے 40 فیصد بچے بھوک اور غذائی کمی کے شکار ہیں۔
ڈاکٹر ثمر میمن نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ اور عالمی غذائی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے تحت غذائیت بڑھانے کا ایک پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جسے ( ایس یو این) کا نام دیا گیا ہے۔ ایس یو این میں غذائیت کے ماہر اسلم شاہین نے کہا کہ یہ ایک تحریک ہے جس میں حکومتی افسران، سماجی افراد، تاجر اور سائنسداں وغیرہ ملکر سندھ میں غذائیت کو بہتر بنائیں گے۔ پروگرام کے قائم مقام ملکی سربراہ اسٹیفن گلوننگ نے کہا کہ سندھ میں ہر تین میں سے دو خاندان غذائیت سے بھرپور کھانا خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔
اس موقع پر سندھ میں منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر ہزار خان بجارانی کا کہنا تھا کہ غذائی قلت دور کرنے کے لیے مختص سال 2016 اور 2017 پروگرام کے لیے ایک ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ایس یو این پروگرام اس وقت دنیا کے 57 ممالک میں جاری ہے اور اس کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی ۔ پروگرام کے تحت ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ پیٹ بھر کے کھائے اور ضروری غذائی اجزا کو اپنی خوراک کا حصہ بنائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔