متبادل توانائی ٹیکنالوجی عام کرنے کیلیے حکومت سے مدد طلب

بزنس رپورٹر  جمعـء 14 دسمبر 2012
ماہرین اور سائنسدانوں کاپی این ای سی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب، میڈیا سے گفتگو۔  فوٹو : فائل

ماہرین اور سائنسدانوں کاپی این ای سی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب، میڈیا سے گفتگو۔ فوٹو : فائل

کراچی: متبادل توانائی کی ٹیکنالوجی مقامی سطح پر ڈیولپ کرنے والے سائنسدانوں اور ماہرین نے کہا ہے کہ متبادل توانائی کی پاکستانی ایجادات کو عام کرنے کیلیے حکومتی سرپرستی کے ساتھ نجی شعبے کی معاونت ناگزیر ہے۔

متبادل توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے ساتھ سرمایہ کاروں کیلیے بھی نفع بخش ہے جس کے ذریعے ونڈ، سولر اور بائیو ڈیزل سے چلنے والی مصنوعات اور ٹیکنالوجی ہر پاکستانی کی دسترس میں لائی جاسکتی ہے۔ پاکستان نیوی انجینئرنگ کالج (پی این ای سی) اور نائس لنک ٹرسٹ کے اشتراک سے گزشتہ روز پی این ای سی میں منعقدہ سیمینار کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نائس لنک ٹرسٹ کے بانی سیکریٹری جنرل ایس ایس حیدر نے نجی شعبے کو متبادل توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں نے مقامی سطح پر سولر، ونڈ اور بائیو ڈیزل کی ٹیکنالوجی ڈیولپ کرکے اپنا کردار ادا کردیا ہے۔

اب پاکستانی سرمایہ کار سائنسدانوں کی صلاحیتوں سے عوام کو مستفید کرتے ہوئے اس شعبے سے بہتر منافع بھی کماسکتے ہیں جس کیلیے ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ متبادل توانائی کے شعبے کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر نسیم اے خان نے کہا کہ نیوی انجینرئنگ کالج میں کیے گئے تحقیقی کام قابل ستائش ہیں، متبادل توانائی کے ذرائع اختیار کرکے ایک جانب ملک کو توانائی کے بحران سے نجات دلائی جاسکتی ہے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوئے عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اکیڈمیز اور انڈسٹری کے درمیان روابط اور ایجادات کو تجارتی اور صنعتی پیمانے پر فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

05

سیمینار میں ڈاکٹر سہیل ذکی فاروقی نے ملک میں توانائی کی بڑھتی طلب پوری کرنے کیلیے ونڈ اور سولر انرجی کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ توانائی کی طلب میں سالانہ 10 فیصد اضافہ ہورہا ہے، 2030 تک طلب 113.695 گیگا واٹ تک پہنچ جائیگی، 2037 تک روایتی پاور پلانٹ متروک ہوجائیں گے امریکا چین بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ہائیڈل اور ونڈ پاور کے متعدد منصوبے جاری ہیں جن سے 2015 تک 8200 میگاواٹ اضافی بجلی مہیا ہوگی، نیوی انجینئرنگ کالج میں ونڈ سولر انرجی لیبارٹری میں متعدد منصوبوں پر تحقیق جاری ہے جو آگے چل کر ملک کیلیے مفید ثابت ہوں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم اے خان نے اپنی پریزنٹیشن میں پاکستان میں بائیو ڈیزل کا منظر نامہ پیش کیا اوربتایا کہ ٹھٹھہ میں بائیو ڈیزل سے گوٹھ عمر دین آرائیں کے تمام مکینوں کو بجلی کی فراہمی کا پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کیا گیا۔ کیپٹن ڈاکٹر جنید احمد نے اپنی پریزنٹیشن میں ایس پی وی سسٹم انرجی کنزویشن کیلیے کالج میں کی جانے والی تحقیق پر روشنی ڈالی اور کہاکہ دشوار اوردوردرازعلاقوں تک ایس پی وی سسٹم کے ذریعے بجلی مہیا کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر نذیر احمد نے ٹیلی میڈیسن کے بارے میں پریزنٹیشن دی اور بتایا کہ سندھ میں یومیہ 300 مریضوں کو ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ سب لیفٹننٹ تبسم نے کہا کہ نیوی انجینرئنگ کالج میں بائیو ڈیزل کی تیاری کیلیے جیٹروفا کے 2500 پودے لگائے جاچکے ہیں۔ سیمینار کے اختتام پر سیشن کے صدر ریئر ایڈمرل سید امداد امام جعفری نے کہا کہ متبادل توانائی کا شعبہ ملک کی لائف لائن بن چکا ہے، ریسرچ کے ذریعے تیار ہونے والی پروٹوٹائپ پراڈکٹس سے متبادل توانائی کے شعبے میں نمایاں تبدیلی آئیگی تاہم اس کو کمرشل بنیادوں پر فروغ دینے کے لیے نجی شعبے کی معاونت درکار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔