عمران خان! اب نہیں تو پھر کبھی نہیں

رحمت علی رازی  اتوار 23 اکتوبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

وقوعِ قیام سے لے کر حاضر مقام تک پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن رہا ہے‘ دیگر تمام بدعتوں کی جڑیں اسی شجرِسایہ دار ہی سے جڑی ہیں جس پر بھانت بھانت کے جنوں اور بھوتوں کا بسیرا ہے‘ ان ہی قوی ہیکل بلاؤں نے پاکستان کے جسم و روح پر قبضہ جما رکھا ہے‘ وطنِ عزیز میں جتنے بھی خناس الفطرت اور ہیبت ناک عفریت دندناتے پھرتے ہیں، ان سب کی جان کرپشن کے پالتو طوطے میں ہے جو اشرافیہ کے سون پنجرے میں بیٹھ کر غریب عوام کے خون میں گندھی پاکستانیت کے گوشت پوست کی چوری کھائے جا رہا ہے۔

بدعنوانی کا یہ ناسور جوابتدا میں معدودے چند اشراف الاشراف خاندانوں نے پالا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اب پورے کا پورا ملک اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے‘ آج چپڑاسی سے لے کر پردھان منتری تک اور صدر سے لے کر سنتری تک ہر خاص و عام کرپشن کے الزامات کے مینارِ پر بیٹھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سب بڑھ چڑھ کر باریاں اور دیہاڑیاں لگانے پر لگی ہیں، گویا کرپشن ملکِ خداداد کا قانون بن چکی ہے‘ کرپشن ایک طرزِ انصاف کا روپ دھار چکی ہے‘ کرپشن ایک نظم و نسق میں ڈھل چکی ہے۔

کرپشن ہی ہمارا دین ہے‘ کرپشن ہی ہمارا ایمان ہے، کرپشن ہی ہماری رسم ہے، کرپشن ہی ہمارا رواج ہے، کرپشن ہی ہمارا کل ہے، کرپشن ہی ہمارا آج ہے، بلکہ سب باتوں کی ایک ہی بات یہ کہ کرپشن پاکستان کی اکلوتی پہچان ہے کیونکہ یہ 95 فیصد پاکستانیوں کا ایک جامع طرزِحیات بن چکی ہے‘ اس معاملے میں ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب تو ہم کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں کیونکہ ہم نے اسے حقوق العباد کا نعم البدل سمجھ لیا ہے۔

بحیثیت قوم ہماری یہ بدقسمتی رہی کہ ہم بدعنوانی کو لگام ڈالنے کے لیے احتساب کا کڑا نظام متعارف نہیں کروا پائے اور جو نام نہاد محتسب ادارے کرپشن کی روک تھام کے لیے بنائے بھی گئے، وہ احتساب کے بجائے کرپشن کو اور بڑھاوا دینے میں غرقاب رہے‘ ملکی خزانے کو قوم کی امانت نہیں بلکہ مالِ غنیمت کا متبرک ادارہ سمجھا گیا، متوسط اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کی لاش گھسیٹنے والوں کے منہ سے نوالے چھین چھین کر بڑی توندوں والے بیوروکریٹس اور سیاستدان اپنے جہیم پیٹ بھرتے رہے ہیں۔

صادق و امین کا آرٹیکل آئین پاکستان میں بیوقوف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے تخلیق کیا گیا‘ آرٹیکل62‘ 63 کی دھجیاں سب سے پہلے انھوں نے ہی اُڑائیں جو اس کے مصنف تھے‘ الیکشن کمیشن 69 سالوں سے اس آرٹیکل کی خود دُھول اُڑا رہا ہے‘ اس ادارے نے آج تک کسی صادق و امین شخص کو الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا‘ اس نے جس سیاسی مافیا کو پروان چڑھایا ہے، وہ نہ تو صادق ہے، نہ ہی امین بلکہ ہر لحاظ سے کاذب و خائن ہے! آمروں کا دَور ہو یا شاہانِ جمہور کا، ہر دَور قومی خزانے کی خیانتوں کا دَور رہا ہے!

اللہ تعالیٰ نے ایک قانونِ فطرت بنا رکھا ہے کہ جب بھی کوئی قوم ظالم آقاؤں کے خونیں پنجوں میں آہ وبکا کرتی ہے تو مشیتِ ایزدی کو ایک نہ ایک دن جلال میں آنا ہی پڑتا ہے اور وہ کوئی نجات دہندہ اس مظلوم قوم کے لیے ان ہی میں سے پیدا فرما دیتی ہے‘ ہمیں لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی باری تعالیٰ نے پاکستانی قوم کے لیے مسیحا بنا کر بھیجا ہے جسے نہ سیم وزر کی ہوس ہے، نہ جاہ و حشمت کی طلب‘ وہ چونکہ صادق و امین ہے، اسلیے وہ آرٹیکل62‘ 63 پر پورا نہیں اُترتا‘ الیکشن کمیشن نے اسے دھاندلی کے روایتی ہتھکنڈوں سے ناکام بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے اب مجبوراً اپنا راستہ احتجاجوں اور دھرنوں کے ذریعے بنانا پڑ رہا ہے۔

جس طرح ہر ابراہیم کو ایک نمرود اور ہر موسیٰ کو ایک فرعون کا سامنا ہر دَور میں رہا ہے، عمران خان کو بھی کچھ سیاسی نمرودوں اور فرعونوں کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ پاکستان میں سب سے زیادہ راج کرنیوالی سیاسی جماعتیں ہیں، ان دونوں جماعتوں نے ملکر ملک کو بارہ بارہ ہاتھوں اور پیروں سے لوٹا ہے‘ جسکے باپ دادا کی حیثیت ایک منشی اور مزدور سے زیادہ نہ تھی، وہ آج پاکستان کے بل گیٹس اور کارلوس سلم بنے بیٹھے ہیں‘ زرداری تو پاکستان کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں جب کہ نوازشریف اپنی نیٹ ورتھ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔

اشراف نے کھربوں ڈالر کیسے اکٹھے کیے اور کہاں کہاں جا کر گڑھے کھود کر چھپائے، یہ تو بقول عمران خان اندر باہر کی تلاشی کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے‘ ان کے شہزادے شہزادیاں دنیا کی مالی جنتوں میں خفیہ کاروباری سلطنتیں قائم کر کے پاکستان سے منتقل ہونے والی سونے کی اینٹوں سے ہر آئے روز نئی خوابگاہیں تعمیر کر رہے ہیں اور یہاں پاکستان میں ایشیاء کے گندے ترین شہر لاہور (نام نہاد پیرس) کی فٹ پاتھوں پر بیروزگاروں، نشیؤں اور پاگلوں کی تعداد روزبروز دُگنی ہوتی جا رہی ہے۔

پانامالیکس کا ایشو منظرعام پر آئے چھ ماہ ہو چکے ہیں مگر نوازشریف خود کو کھلے بندوں احتساب کے لیے پیش کرنے میں آئیں بائیں شائیں سے کام لے رہے ہیں‘ فرینڈلی اپوزیشن کی دلبرانہ اداؤں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے خود کو احتساب سے مبرا رکھنے کے سارے فنون ازبر کر لیے ہیں‘ پاناما پیپرز میں اپنے بچوں کے نام آنے کے بعد ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں بچا تھا کہ وہ عہدے سے چمٹے رہیں۔

اگر اس سکینڈل میں وزیراعظم کے بزرگوں یا طرفینی رشتہ داروں کا نام آتا تو ان کے پاس قطعی طور پر ایک دلیل موجود ہوتی اور وہ کہہ سکتے تھے کہ ان کے بزرگوں نے پیسہ کیسے کمایا یا ان کے دیگر رشتہ داروں نے مال کیسے بنایا، اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اس مال و دولت میں وہ حصہ دار ہیں‘ وہ یہ بھی دلیل دے سکتے تھے کہ میں صرف اس کا جوابدہ ہوں جو میری ملکیت ہے لہٰذا مجھ سے صرف اس کا حساب مانگا جائے جو میں نے خود کمایا یا بنایا ہے‘ مگر اب تو وزیراعظم اسلیے بھی نہیں مکر سکتے کہ پاناما سکینڈل میں ان کی اولاد کا براہِ راست نام آیا ہے۔

یہ بات تو سماجی طور پر طے ہے اور اسے سمجھنے یا سمجھانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ کسی باپ کی اولاد کے پاس جو مال و متاع ہوتا ہے وہ یقینا اسے باپ کی طرف سے ملا ہوتا ہے اور اگر وہ اولاد کوئی کاروبار بھی کرتی ہے اور مزید مال بناتی ہے تو یہ حقیقت ہے کہ باپ کے پیسے کے بغیر کوئی اولاد اربوں کھربوںکاروبار کیسے کر سکتی ہے؟ اسلیے ان حقائق کو کسی طرح بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

جب نیب نے بھی کوئی انکوائری شروع نہ کی تو تحریکِ انصاف کے پاس دو ہی قانونی راستے بچے تھے کہ یا تو وہ عدالتی جنگ لڑے یا پارلیمانی فورم پر وزیراعظم کے مواخذے کی بات کرے‘ عمران خان کو ایک اور دھرنے سے باز رکھنے کے لیے پیپلزپارٹی کے افلاطونوں نے زردارانہ سیاست کی ایک نامعقول چال چلی اور خورشید شاہ اور اعتزاز احسن وزیراعظم کے کڑے احتساب کا نعرہ لگا کر تمام اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت حکمرانوں کے ساتھ ٹی او آر، ٹی او آر کھیلتے رہے۔

اس تحریک سے پیپلزپارٹی کے مردے کو قبر سے اُٹھ کر اپنے کفن سے مٹی جھاڑنے کا موقع تو مل گیا لیکن تحریکِ انصاف کا سیاسی حلیہ قدرے غیرمانوس ہوتا گیا جسکے بلاواسطہ منفی اثرات عمران خان کی لیڈرشپ پر مرتب ہوئے اور کپتان کی مقبولیت میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی۔ ہم نے تو تب بھی بات اچھالی تھی کہ پیپلزپارٹی عمران خان سے ہاتھ کر رہی ہے‘ صد شکر کہ کپتان کے دماغ میں یہ خیال نفوذ کیا کہ اس کی اُڑان کی شان سولو فلائٹ ہی میں مضمر ہے۔

احتساب کی جنگ تنہا لڑنے کا احساس ہوتے ہی چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا کہ شاید وہ وزیراعظم کو کوئی نااہلی کی جھنڈی ہی دکھا دیں مگر الیکشن کمیشن تو خود سرکار کی بیساکھیوں پر کھڑا ہے، وہ وزیراعظم کو جھنڈی کیسے دکھا سکتا ہے‘ تحریکِ انصاف نے عدالتی جنگ لڑنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو وہاں ان کی درخواست پٹیشن بیوروکریٹ رجسٹرار نے مسترد کر دی‘ ہم یہاں عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کرینگے کہ سپریم کورٹ کا رجسٹرار پہلے کی طرح عدلیہ سے ہی ہونا چاہیے، بیوروکریٹوں کی تعیناتی سے حکومت کا اس کے ذریعے عدلیہ پر اثرانداز ہونے کا ہر وقت خدشہ رہتا ہے۔

پھر آ جا کر پارلیمان کا فورم ہی آخری اُمید تھی لیکن عمران خان کے انتخابی حریف سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپنی سرداری جھاڑی اور وزیراعظم کی نااہلی کے لیے دائر کیا گیا پی ٹی آئی کا ریفرنس شمار کرنے سے ہی انکار کر دیا جب کہ عمران خان کے خلاف حکومتی ریفرنس کو اخذ  کر کے الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیا‘ یہی وہ وقت تھا جب مخلص اور ملک کے خیرخواہوں نے کپتان کو پاناما کا ایشو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طریقے سے زندہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

کپتان کی طبیعت تو پہلے ہی پلٹنے جھپٹنے والی تھی، اس نے فطرتاً اپنی آئی پر آنے کی ٹھان لی اور اپنے زورِ بازو پر کرپشن کے ناخداؤں سے برسرِپیکار ہونے کا مصمم ارادہ باندھ لیا‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے پاس دھرنے کا آپشن آخری پتے کے طور پر موجود تھا جس پر انھوں نے غور کرنا شروع کیا‘ چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے پاناما لیکس کی مسترد درخواستوں (جن میں تحریکِ انصاف کی درخواست بھی شامل تھی) کی از خود نوٹس کے ذریعے سماعت کی اور انہیں قابلِ سماعت قرار دیا‘ سپریم کورٹ میں لگے اس مقدمے کے پی ٹی آئی کے علاوہ اور بھی چند فریق ہیں۔

ایک درخواست تو عمران خان کے خلاف بھی دائر کی گئی مگر عمران خان تو برملا یہ کہتے آ رہے ہیں کہ نوازشریف سے پہلے ان کا احتساب کیا جائے۔ اب ایک طرف تو سپریم کورٹ پاناما سکینڈل میں نامزد فریقین کو پہلی سماعت میں ہی نوٹس جاری کر چکی ہے‘ دوسری طرف نااہلی ریفرنس کیس میں الیکشن کمیشن نے 2 نومبر کو عمران خان کو طلب کر لیا ہے جب کہ عمران خان اسلام آباد بند کرنے کے لیے دھرنے کی تاریخ دے چکے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے خان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ 2 نومبر کو بہ نفسِ نفیس پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سنا دیا جائے گا، مگر کیا اتفاق ہے کہ کپتان نے دھرنے کی تاریخ 30 اکتوبر سے بدل کر 2 نومبر کر دی‘ ایسے میں وہ اپنے ہی خلاف ریفرنس میں الیکشن کمیشن میں کیونکر پیش ہو سکتے ہیں، شاید بدیں وجہ انھوں نے 2 نومبر کی پیشی پر دستیاب ہونے سے انکار کر دیا ہے‘ عمران خان کو اب کسی نااہلی کی قطعی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ تو اب نوازشریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل کرنے کو دھرنا کمیشن میں باجماعت باعوام پیش ہونے جا رہے ہیں۔

وہ 2 نومبر کے دھرنے کو آخری دھرنا قرار دے رہے ہیں جب کہ سیاسی پنڈت اسے کپتان کا آخری سیاسی جُوا کہہ رہے ہیں مگر ہمارے نزدیک یہ دھرنا نہیں بلکہ ’’مرنا‘‘ ہو گا کیونکہ یہ نون لیگ اور تحریکِ انصاف دونوں کے لیے ’’زندگی موت‘‘ کا کھیل بن چکا ہے اور یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ اس دھرنے کی کامیابی کی صورت میں نہ صرف حکومت بلکہ پی ایم ایل (این) کا سیاست سے ہمیشہ کے لیے صفایا ہو جائے گا لیکن ناکامی کی صورت میں نہ صرف عمران خان کا سیاسی کیریئر زیرو پوائنٹ پر آ جائے گا بلکہ تحریکِ انصاف بطور جماعت بھی تباہی کے ریڈزون میں داخل ہو جائے گی۔

پی ٹی آئی کے دھرنا پارٹII کی ٹائمنگ کے اعتبار سے کچھ لوگ اسلیے بھویں چڑھا رہے ہیں کہ 29 نومبر کو جنرل راحیل شریف بھی ریٹائر ہونے جا رہے ہیں اور بظاہر تو وہ مدتِ ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر چکے ہیں اور ان کے اب تک کے ایکشن سے اس اَمر کی مطلقاً تصدیق بھی نہیں ہوتی کہ وہ توسیع کے لیے کسی لابنگ پر یقین رکھتے ہیں‘ اس حقیقت کے باوجود ریاستِ پاکستان اور 99 فیصد عوام ان کی ریٹائرمنٹ کے کسی بھی طرح حق میں نہیں ہیں‘ حکومتی ذرایع سے یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ حکومت بھی جنرل راحیل کو توسیع دینے کے موڈ میں نہیں۔

جنرل راحیل شریف صحیح معنوں میں ایک بارعب اور دل دہلا دینے والے سپہ سالار ہیں‘ تحریکِ انصاف کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی ان کی توسیع کی حمایت میں نہیں‘ آصف زرداری تو جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے دن گن رہا ہے‘ خورشید شاہ بھی گھبرائے ہوئے ہیں کہ کہیں ان سے اگلی باری ہی نہ چھن جائے یا کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں فرینڈلی اپوزیشن کا موقع بھی نہ ملے‘ طاقت ور سیاسی حلقے جنرل راحیل کے عالمی تشخص سے بھی ازحد خائف ہیں۔ شاید اسی لیے فوج کے امیج کو داغدار کرنے کے لیے ’’سرل لیک‘‘  کا سہارا لیا مگر فکر نہ کریں اور خاطر جمع رکھیں۔

دفاعِ پاکستان کے لیے 28 اکتوبر کو اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے سے پہلے ’’دفاعِ پاکستان اجتماع‘‘ کا انعقاد ہو رہا ہے جس میں ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتیں شریک ہونگی‘ قیاس غالب ہے کہ یہ اجتماعِ مجاہدین عمران خان کے دھرنے کے لیے ہراوّل دستے کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اسلام آباد کو مفلوج کرنیوالا یہ جمِ غفیر مسلح تصادم میں تبدیل ہو کر ایک خونیں انقلاب کی راہ ہموار کر دے۔

نوازشریف اینڈ پارٹی کا جانا اب بہرحال ٹھہر گیا ہے‘ اگر وہ عمران خان کو بنی گالہ یا کہیں اور نظربند کرنے کا یا پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا سوچ رہے ہیں تو ان کے لیے یہ آگ کے دریا پر بند باندھنے کے مترادف ہو گا‘ پی ٹی آئی کے کارکنان اب بیس پچیس ہزار سیاسی پولیس سے قابو نہیں کیے جا سکیں گے‘ اور یہ نوبت آنے بھی نہیں پائیگی کیونکہ دھرنے سے پانچ دن قبل ہی اسلام آباد محاصرے میں آ چکا ہو گا۔

یہاں ہم یہ واضح کر دیں کہ اب عمران خان کے لیے سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن کے کیسز کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اب وہ ’’مشن ڈواینڈ ڈائی‘‘ پر نکل پڑے ہیں‘ اس مشن کے مکمل ہونے کے بعد غریب قوم کا لوٹا ہوا پیسہ انہیں واپس ملنے کی قوی اُمید کی جا سکتی ہے۔ حکمران جماعت یہ الزام بھی پی ٹی آئی پر عائد کرتی ہے کہ وہ اقتصادی راہداری کو منجمد کرنے کے لیے دھرنوں کی سیاست کر رہی ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ موجودہ حکومت سے پہلے کا شروع ہے جو اس کے بعد بھی بند نہیں ہو گا‘ اسے پاک فوج اپنی نگرانی میں لے چکی ہے اور یہ بہرحال مکمل ہو کر رہے گا۔

سیاستدانوں کے آنے جانے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑیگا، ہاں سیاستدانوں کو ضرور فرق پڑیگا کیونکہ ان کی اربوں کی دیہاڑیاں اس سے منسوب ہیں‘ جہاں تک عمران خان کی سی پیک دشمنی کا تعلق ہے تو وہ خود چینی سفیر کو بنی گالہ مدعو کر کے یہ باور کرا چکے ہیں کہ تحریکِ انصاف سی پیک کی مخالف نہیں اور وہ صوبائی و عالمی سطح پر منصوبے کی ہر ممکن حمایت کرینگے‘ اصل بات یہ ہے کہ نون لیگ کو سی پیک میں اپنی کرپشن میں خلل پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

آثار بتاتے ہیں کہ نون لیگ اس بار پیپلزپارٹی کی کرپشن کا ریکارڈ توڑنا چاہتی ہے جس پر ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ پر کام کر رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وفاق میں ہی کرپشن کے الزامات نہیں بلکہ پنجاب بھی کم نہیں ہے۔ قوم ان کا بھی حساب مانگتی ہے‘ موجودہ حکومت کے عرصۂ اقتدار میں مہنگائی، بیروزگاری، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، لاقانونیت، دہشتگردی، ناکام منصوبے، کھوکھلے ’’ایم اویوز‘‘ اور جھوٹے وعدوں کے حوالے سے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔

گزشتہ 8 سالوں میں پنجاب حکومت ماسوائے بڑھکوں اور برقی چھلانگوں کے، عملی طور پر عوام کو کچھ نہ دے سکی۔ سستی روٹی، میکینکل تندور، پیلی ٹیکسی، گرین ٹریکٹر اسکیم اور دانش اسکول کے ناکام اور ڈھونگ منصوبے اپنے انجام کو پہنچے‘ ہم پنجاب حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا 10 دانش اسکولوں کے بعد صوبے میں تعلیم عام ہو گئی ہے؟

پنجاب حکومت کم آمدنی والے شہریوں کو سستے گھر دینے کے نام پر فارم فروخت کر کے ابتک کروڑوں روپے وصول کر چکی ہے۔ 3 سال سے آشیانہ کے نام پر سیاست چمکانے کے باوجود چند سو گھر بھی تیار نہیں ہو سکے، فارم کی فروخت سے حاصل ہونیوالے کروڑوں روپے کا ابھی تک عوام کو کوئی حساب نہیں مل سکا۔

آشیانہ اقبال روڈ برکی کے ٹینڈرز میں گھپلے سامنے آئے، ان کی انکوائری کرنیوالے ڈی جی اینٹی کرپشن کو او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا اور اب جس من پسند ڈی جی اینٹی کرپشن (جو 35 پنکچر کے موجد بتائے جاتے ہیں) اور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاہور ڈویژن کو لگایا گیا ہے انھوں نے محکمہ اطلاعات پنجاب کے سابقہ بدعنوان افسروں کو ریلیف دینا بھی شروع کر دیا ہے اور ان کا تمام اہم ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تا کہ کوئی صاحبِ ضمیر افسر اِن بدعنوان افسروں کے خلاف عدالت میں کوئی چالان پیش نہ کر سکے۔

اب یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ گرین پنجاب پروگرام بھی ایک ڈھونگ منصوبہ ہی ثابت ہو گا‘ پنجاب حکومت کی ساری توجہ لاہور میٹروبس، رائیونڈ روڈ، رنگ روڈ، آزادی چوک لاہور اور راولپنڈی میٹرو روڈ تک محدود ہے جس کی وجہ سے 70 فیصد ’’دیہاتی پنجاب‘‘ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کھربوں روپے کے جو اسکینڈل سامنے آئے ہیں ان کا ریکارڈ یا تو ضایع کر دیا گیا یا اسے آگ لگا دی گئی، اب تک کسی کی بھی انکوائری نہیں ہو سکی‘ نیب بھی ماشاء اللہ ایسے اہم اسکینڈلز پر اپنا وقت ضایع نہیں کرتا، انھیں صرف وہی اسکینڈل نظر آتے ہیں جو حکومتوں کے نہ ہوں۔

کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والوں نے نہ صرف کشکول کا سائز بڑا کر لیا بلکہ یوتھ قرضہ اسکیم کے ذریعے ہرنوجوان کے ہاتھ سودی قرضوں کا کشکول تھما دیا ہے حالانکہ اب تو این ایف سی ایوارڈ کے تحت سالانہ 100 ارب روپے اضافی انکو ملتے ہیں‘ 1122 پرویز الٰہی دور کا ایک بہترین عوامی منصوبہ تھا جسکی بلاامتیاز ہر طبقہ تعریف کرتا ہے‘ موجودہ حکمرانوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کی توسیع و تعمیل کرتے۔

افسوس تو یہ ہے کہ اس منصوبے کو چلانے کے لیے موجودہ حکومت نے چندے کے اشتہار تک دیے‘ اگر حکمرانوں کے دل میں عوام کا درد ہوتا تو آج پنجاب کے ہر قصبے میں 1122 نظر آتی‘ اس کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے 1122 کاآئیڈیا پنجاب سے مستعار لے کر اسے پورے صوبے میں پھیلانے کا عملی منصوبہ لاگو کر دیا ہے۔

پنجاب میں اسپتالوں کی حالت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ دُور اُفتادہ علاقوں میں تو ڈا کٹر تک میسر نہیں‘ جہاں ڈاکٹر ہیں وہاں ادویات اور وینٹی لیٹرنہیں ہیں۔ پنجاب حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ اور لاء اینڈ آرڈر میں بہتری لانے میں بری طرح ناکام رہی ہے‘ یہاں تک کہ چھوٹو گینگ کو پکڑنے کے لیے بھی پاک فوج کی خدمات حاصل کرنا پڑیں‘ بے مقصد کاموں میں اُلجھے حکمرانوں کو امن و امان کی خراب صورتحال کو ٹھیک کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ ہر تین گھنٹے بعد حوا کی بیٹی سے زیادتی کے علاوہ بچوں کے اغواء کے واقعات سامنے آ رہے ہیں جن میں لاہور سرفہرست ہے۔ بیروز گاری میں وہ تاریخ ساز اضافہ ہو چکا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو فروخت کر نے پر مجبور ہیں۔ 40 فیصد سے زائد سرکاری اسکول اساتذہ اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں‘ پنجاب حکومت مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کے لیے قانون سازی میں ناکام رہی۔

ملک کو ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنانے کے دعویداروں نے اسے مقروض ترین ملک بنا دیا۔ اورنج لائن منصوبے کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح 95 فیصد سے زائد جب کہ تعلیم، صحت، صاف پانی‘ بہبود آبادی اور ماحولیات کے منصوبوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے‘ پنجاب حکومت نے صحت، پانی اور قبرستانوں کے فنڈز کو بھی اورنج لائن ٹرین منصوبے پر لگا دیا۔

بیڈگورننس، مفادِعامہ کے منصوبوں میں عدم دلچسپی کے باعث پنجاب حکومت ترقیاتی فنڈز بے مقصد کاموں میں استعمال کر رہی ہے‘ صوبائی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف کسانوں، اساتذہ، کلرکوں، مزدوروں، نرسز اور دیگر عوامی سماجی حلقوں کی طرف سے آئے روز احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پنجاب میں جو جرائم ہو رہے ہیں اس کا کوئی شمار نہیں۔

مظلوم‘ بے بس اور لاوارث عوام غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں کر رہے ہیں، پنجاب حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہی اور اگر کہیں ملازمتیں دی بھی گئی ہیں تو وہ بھی میرٹ کا قتل کر کے دی گئیں‘ صرف اور صرف ان افراد کو بھرتی کیا گیا جن کی فہرستیں ’’اوپر‘‘ سے آتی تھیں۔ پنجاب کی سالانہ ترقی کی شرح 4 فیصد سے کم اور اندرونی و بیرونی قرضے تقریباً ایک ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔

قائداعظم سولر پارک کے 18میگاواٹ کے منصوبے کے سوا پنجاب حکومت اپنے قیام کے آٹھ سالوں میں کوئی پراجیکٹ مکمل نہیں کر سکی۔ پنجاب کو ’’کمپنیوں‘‘ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جس سے مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چند سال قبل 14 ارب روپے کی مالیت سے مستحق خاندانوں کے لیے فوڈسپورٹ پروگرام کا اجراء کیا گیا مگر رقوم حقداروں تک نہ پہنچ سکیں‘ یوتھ فیسٹیول بھی کرپشن کے الزامات سے مبرا نہیں۔

پنجاب انٹرن شپ پروگرام میں 13 ہزار نوجوانوں کے نام پر معاوضے نکلوا لیے گئے مگر ادا نہیں ہوئے۔ یہ تو گنتی کے چند کارنامے ہیں‘ اصل کہانی لکھنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہونگے۔ جب بڑے منصوبوں پر تحقیقات کاآغاز ہو گا تو بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئینگے۔ مالی بدعنوانیوں کو پکڑنے کے لیے نیب نہیں بلکہ فرانزک لیبارٹریوں کی ضرورت ہے‘ اور یہ بھی تبھی ممکن ہے جب کرپٹ عناصر کسی سفاک قاضی کی بے رحم عدالت میں پیش ہونگے۔

عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اپنا راستہ بنایا ہے اور فرینڈلی اپوزیشن اور کولیشن بن کر مال بٹورنے کے بجائے کرپٹ حکمرانوں کو آئینہ دکھایا۔ 1947ء میں پاکستان نے ولایتی انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی اور اگر کپتان کا یہ ’’دھرنا مرنا‘‘ کامیاب ہو گیا تو اُمیدِ واثق ہے کہ اس بار پاکستان دیسی ساخت کے کاٹھے انگریزوں سے بھی آزادی حاصل کر لے گا تبھی پاکستانی عوام کو پاکستان کا مطلب اور آزادی کا ذائقہ معلوم ہو سکے گا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔