حکومت سندھ کا ایک دانشمندانہ فیصلہ

رئیس فاطمہ  اتوار 23 اکتوبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

یکم نومبر سے حکومت سندھ نے شام سات بجے دکانیں، شاپنگ سینٹرز اور رات دس بجے تمام شادی ہال بند کرنے کا جو حکم نامہ جاری کیا ہے۔ اس کی تعریف نہ کرنا غلط بات ہو گی، لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ون ڈش کا حکم نامہ بھی جاری ہو گیا ہے اور بازار کی بندش کا بھی۔ بلکہ اصل مسئلہ ان احکامات پر عمل درآمدکروانا ہے۔ یہاں قانون تو بہت جلد پاس ہو جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد شاذ ہی ہوتا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمنامہ تو جاری کر دیا لیکن ان کی وزارت اور طاقت کا اندازہ اس وقت ہو گا جب واقعی شہر کی تمام دکانیں، چھوٹی بڑی مارکیٹیں بلا امتیاز شام سات بجے بند ہو جایا کریں گی۔ شادی ہال رات 10 بجے خالی ہو جائیں گے اور شادی کے کھانوں پر ون ڈش کی پابندی کا اطلاق واقعی کیا جائے گا۔

دراصل پاکستان میں لاقانونیت کی ہزاروں مثالیں بھری پڑی ہیں۔ فائلوں میں قانون موجود ہے لیکن فائلوں کے باہر اس کے برعکس۔ بنیادی وجہ عدلیہ کا کمزور ہونا، بیوروکریسی اور اسمبلی کے ممبران کا ضرورت سے زیادہ طاقتور ہونا ہے۔ قانون کی دھجیاں کس طرح بکھیری جاتی ہیں اس کا مشاہدہ قدم قدم پر ہوتا ہے۔ اسی لیے جہاں عوام کی اکثریت وزیراعلیٰ سندھ کے اس اقدام سے خوش ہے اور تعریف کر رہی ہے وہیں وہ مایوس بھی ہے کہ ان مثبت فیصلوں پر عمل درآمد ہو بھی سکے گا یا نہیں؟

وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں خود غرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہم ایک قوم نہ کبھی تھے نہ بن سکتے ہیں کیونکہ ہماری سوچ کا دائرہ ’’میں‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ ہم انفرادی فائدے کے لیے جیتے ہیں۔ قومی سطح پر کوئی اجتماعی فائدے کا احساس ہمارے اندر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جیسے ہی شادی ہالوں اور دکانوں کے بندکرنے کا اعلان ہوا۔ اس کا تاجر برادری نے کس طرح مذاق اڑایا اور کتنی سنجیدگی سے اس اعلامیے کو لیا۔ مختلف چینلزکے نمائندوں نے جب تاجروں اور شادی ہال کے مینجروں سے بات کی تو باقاعدہ انھوں نے اس قانون کو ناقابل عمل قرار دیا۔

ایک تاجر بولے’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم دکانیں سات بجے بند کریں، یہی تو وقت ہوتا ہے گاہکوں کے آنے کا۔‘‘

دوسرے یوں گویا ہوئے ’’اگر شادی ہال دس بجے بند ہوئے اور دکانیں سات بجے، تو ہمیں تقریب میں جانے کے لیے تیار ہونے کا ٹائم کہاں ملے گا؟‘‘ گویا صرف کسی ایک یا دو تاجروں کو اگر تقریب میں جانا ہے تو حکومت ان کے کپڑے بدلنے، تیار ہونے اور دیگر لوازمات کا خیال بھی رکھے۔ بہت خوب۔ میں نے کہا نا کہ یہاں صرف تمام تر فوائد اپنی ذات تک محدود ہیں۔

ارے بھئی! آپ کو اگر کسی تقریب میں جانا ہے تو دکان ایک گھنٹہ پہلے بند کر دیجیے۔ جائیے اور جا کر اچھی طرح سے تیار ہوئیے، بیوٹی پارلر جائیے، مساج گھر جائیے، سوئمنگ پول میں غوطے لگائیے، حکومت نے آپ کو اس بات کا تو پابند نہیں کیا کہ دکان سات بجے سے پہلے بند نہیں کی جا سکتی۔ نہ ہی حکومت کی طرف سے دکانیں کھولنے کے لیے کوئی خاص وقت دیا گیا ہے۔ آپ کی مرضی خواہ صبح دس بجے کھولیں یا دوپہر دو بجے۔ یہ تاجران کی مرضی پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اس بات کا کہ سرشام دکانیں بند کرنے کے کیا فوائد ہیں۔ اول تو یہ کہ بجلی کی بچت ہو گی، لوڈ شیڈنگ کی ضرورت کم ہو جائے گی، بڑی بڑی مارکیٹیں اور مارکیٹوں کے باہر کھڑے پتھارے دار اور ٹھیلے والے کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ کھلے عام کنڈوں کے گچھے کے گچھے لٹکے ہوتے ہیں۔ جو عام آدمی کو تو نظر آتے ہیں البتہ محکمے کے ملازمین کو نظر نہیں آتے۔

جب شام سات بجے دکانیں بند ہو جائیں گی تو نہ صرف تاجروں کو بلکہ دکان پہ کام کرنے والے سیلز مینوں کو بھی جلدی چھٹی مل جائے گی۔ وہ بھی گھر والوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا سکیں گے۔ کہیں گھومنے پھرنے جا سکیں گے۔ اپنی فیملی کو وقت دے سکیں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ جب بچے صبح اسکول جا رہے ہوں تو والد صاحب سو رہے ہوں اور جب ابا جان آدھی رات کو گھر آئیں تو بچے سو رہے ہوں۔

ہمیں ذاتی مفاد اور ذاتی آسائش سے قطع نظر ملکی مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ سرشام بازار بند ہونے سے سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ کم ہو جائے گا۔ زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ جو تاجر صرف آرام طلبی اور ذاتی مفاد کی خاطر اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں،  وہ وطن سے مخلص نہیں ہیں۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ گاہک رات کو آتا ہے۔ یہ ایک نہایت بودا اور احمقانہ جواز ہے۔ جب رمضان میں تمام دکانیں افطار سے پہلے بند ہو جاتی ہیں تو خریدارکیسے خریداری مغرب سے پہلے کر لیتا ہے؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ خریدارکو یقین ہوتا ہے کہ افطار سے قبل تمام دکانیں بند ہو جائیں گی۔ صرف رمضان کے آخری چار پانچ دنوں میں بازار افطار کے بعد بھی کھلے رہتے ہیں۔ باقی یکم رمضان سے ہی مغرب کی اذان سے پہلے بازار بند ہو جاتے ہیں۔ تو جب رمضان میں تاجر خود سے دکانیں بند کر کے گھر چلے جاتے ہیں تو بقیہ دنوں میں شام سات بجے کی پابندی کیوں نہیں کی جا سکتی؟

جہاں تک خریدار کا سوال ہے تو وہ تو اس لیے دیر سے نکلتا ہے کہ دکانیں ہی دوپہر دو بجے کے بعد اور جمعے کو نماز جمعہ کے بعد کھلتی ہیں۔ خواتین بچوں کو اسکول بھیج کر جاتی ہیں کہ ان کے گھر آنے سے پہلے خریداری کر لیں۔ لیکن کہاں آرام طلب تاجر جب دکانیں سہ پہر تک کھولیں گے تو خریدار جلتی دوپہر میں بھلا کیوں آئے گا۔ پھر وہ نکلتا ہے شام کو۔ جب دکانیں صبح جلدی کھول دی جائیں گی تو خریدار بھی جلدی آئے گا۔ ہمارے ملک میں خدا کا شکر ہے کہ سورج کی روشنی کی کوئی کمی نہیں لیکن اندھیر نگری کے راجہ کے چوپٹ راج کی بدولت، سورج کی روشنی سے کام نہیں لیا جا رہا اور محض ضد میں بجلی کو ضایع کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک شادی ہالز کا تعلق ہے تو بڑھتی ہوئی دہشتگردی میں دس بجے تقریب ختم کرنے سے امن و امان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ بجلی کی بچت تو ہو گی ہی لیکن عوام کو اور بھی سہولت حاصل ہو گی، کنوینس آسانی سے مل جائے گی۔ ہر ایک کے پاس تو ذاتی سواری نہیں ہے۔ ایک سازش کے تحت گاؤں گوٹھوں کی سواری چنگ چی رکشے کو کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر پر آسمانی بلاؤں کی طرح نازل کر دیا گیا ہے۔

شہر سے ٹیکسیاں غائب ہو  گئیں۔ بڑی بسیں ناپید ہو گئیں، چنگ چی نے سڑکوں کو ہائی جیک کر لیا۔ پنجاب میں میٹرو ٹرین، اورنج ٹرین اور کراچی میں چوری کی موٹرسائیکلوں کے چنگ چی رکشے، جنھیں نابالغ لڑکے پولیس کو روزانہ کا بھتہ دے کر کھلے عام چلا رہے ہیں۔ رات  دو بجے جب تقریبات ختم ہوتی ہیں تو مہمانوں کے لیے بھی مشکل۔ البتہ پولیس کی چاندی۔ حصہ بقدر جثہ کے تحت گریڈ کے مطابق سب کا حصہ۔

خدارا پاکستانی بنیے اور قومی مفاد کے بارے میں سوچیے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے دکانوں، شادی ہالز اور ون ڈش کی پابندی ایک چیلنج ہے۔ جس سے انھیں خود ہی نمٹنا ہو گا۔ ہماری قوم کا مزاج جمہوری نہیں ہے۔ تعلیم کی کمی اس پہ مستزاد۔ جہالت خود ایک عذاب ہے، لیکن سختی سے قانون پہ عملدرآمد اور قانون توڑنے والے کو سخت سزا دینا وزیر اعلیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس سے ثابت ہو گا کہ حکومت کی رٹ ہے بھی یا نہیں؟ قانون تو ویسے ہی پاکستان میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔