بادِ نسیم کی تمنا، بادِسموم کے تھپیڑے

مقتدا منصور  پير 24 اکتوبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل برصغیر کی فضا میں بادِ نسیم کی ٹھنڈک نہیں بادِ سموم کی حدت ہے۔ دونوں طرف الفاظ میں خنجرکی سی کاٹ اور لہجوں میں شعلوں کی سی لپک ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی دم لیں گے۔ مگر جوہری ہتھیاروں کے اس دور میں دم لینے کا موقع کسے مل سکے گا۔ ویسے بھی نہ تم ہمیں مٹا سکتے ہو اور نہ ہم تمہیں فنا کر سکتے ہیں۔

کیونکہ کروڑوں مسلمان تمہارے آنگن کی رونق ہیں اور لاکھوں ہندو ہمارے من مندروں میں بستے ہیں۔ ہماری ان گنت نشانیاں تمہارے کوچہ و بازار میں بکھری ہوئی ہیں۔ تمہارے ان گنت مقدس مقامات ہمارے آنگن کی زینت ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ 70 برس میں 7 صدیوں کا تعلق ملیامیٹ ہو گیا۔ وہ دور ہوا ہوا، جب دیوار سے دیوار ملی ہوتی تھی۔ قرآن کی قرأت تمہارے کانوں میں، گیتا جاپ ہمارے کانوں میں آتی تھی۔ مگر لگتا ہے کہ یہ سب باتیں خواب و خیال ہوئیں۔ اب صرف تلخ نوائی ہی بازار میں بکنے والی واحد شے ہے۔

مگر ایسا نہیں ہے، وہ بزرگ اور بوڑھے آج بھی سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں، جو اپنی جنم بھومی کے دیدار کا خواب آنکھوں میں سجائے صبح و شام آہیں بھرتے ہیں۔ وہ ہر آنے جانے والے سے پوچھتے ہیں کہ کس حال میں ہے چمن اور اہل چمن۔ جب بھی ان دو ممالک کے تلخ تعلقات پر غور کرتا ہوں، تو کئی معصوم چہرے میری آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں۔ مجھے ممبئی کا وہ بوڑھا سندھی تاجر کبھی نہیں بھولے گا، جو آج ارب پتی ہونے کے باوجود اپنی جنم بھومی نواب شاہ کو نہیں بھولا۔ اس کے بقول وہ انٹر میں پڑھتا تھا، جب بٹوارا ہوا۔ وہ پاکستان سے آنے والے ہر شخص سے پوچھتا ہے کہ نواب شاہ اب کیسا ہو گیا ہے؟ اب کوئی اسے کیا بتائے کہ ان 70 برسوں میں جب دنیا ہی بدل گئی ہو، تو نواب شاہ کیسے نہ بدلتا۔

آنند پٹوردھن فلم پروڈیوسر ہے۔ باپ مرہٹی اور ماں ہمارے حیدرآباد کی سندھی ہے۔ جب بٹوارا ہوا، تو ماں 19 برس کی دوشیزہ تھی۔ ممبئی میں شادی ہوئی اور وہیں آنند پیدا ہوا۔ 2005ء میں جب آنند پاکستان آیا تو اس نے اپنے ننھیال کا گھر دیکھنے کی خواہش کی۔ حیدرآباد کے ایک وکیل دوست کے تعاون سے وہ مکان مل گیا جو تلک چاڑی کے قریب ہے۔

آج کل اس کے گراؤنڈ فلور پر اسپتال اور بالائی منزل پر ڈاکٹر اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ مکان آنند کے نانا نے 1936ء میں تعمیر کروایا تھا۔ ہالا کے خوبصورت ٹائلوں سے مزین فرش کی چمک آج بھی روز اول جیسی ہے۔ وسیع و عریض کمرے، بڑا سا صحن اور دروازے پر شیروں کے چہروں کے مجسمے، جو اب اسپتال کے اندر میں رکھے ہیں۔ جب ہم آنند کو لے کر وہاں پہنچے تو گھر دیکھنے کے بعد آنند نے اپنی ماں کو فون کیا اور پوچھا کہ میں اس وقت کہاں ہوں؟ ماں سمجھ گئی اور اس نے رونا شروع کر دیا۔ بولی جس گھر میں بچپن سے جوانی میں قدم رکھا اسے کیسے بھول سکتی ہوں۔

دلی کا ایک بوڑھا سکھ رکشہ ڈرائیور میری آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔ جب میں اس کے رکشہ میں بیٹھا، تو اس نے پوچھا ’’پاکستانوں آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا جی۔ کہنے لگا کہ ’’میں ساہیوال دا آں، جدوں بٹوارا ہویا، پنجویں وچ پڑھدا سی، مینوں اپنا شہر بڑا یاد آؤندا اے‘‘ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ کیا میں نے کبھی ساہیوال دیکھا ہے؟ جب میں نے اسے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کی سسرال ساہیوال سے تعلق رکھتی ہے، تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ منزل پر پہنچ کر اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ ساہیوال کے تعلق سے تمہاری بیٹی میری بہو ہے۔

میں تم سے پیسے نہیں لوں گا۔ جب میں نے زبردستی کرایہ دیا تو ملتجانہ انداز میں کہا کہ ’’میرے نال اک کوپ چا دا پی لو‘‘۔ میں اس کا دل نہیں توڑ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کیفے میں چائے پینے بیٹھا تو گویا یادوں کا دفتر کھل گیا۔ اپنے اسکول اور محلے کے ساتھی سنگیوں کو دیرتک یاد کرتا رہا۔ اگر وقت ہوتا تو شاید کئی گھنٹے ان یادوں کے تذکرے میں گزار دیتا۔

مجھے چاندنی چوک دہلی کا وہ سندھی نوجوان یاد آ رہا ہے، جس کی دکان سے آئس کریم کھانے کے دوران تعارف ہوا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوا تھا، مگر اس کے خاندان کا تعلق سکھر سے تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں بھی سکھر سے تعلق رکھتا ہوں تو مجھ سے لپٹ گیا۔ بولا دو مہینے پہلے بابا کا دیہانت ہوا ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو آپ سے مل کر بے انتہا خوش ہوتے اور آپ کو کہیں نہیں جانے دیتے، بلکہ صبح سے شام تک سکھر کی باتیں کرتے رہتے۔ اس کا اصرار تھا کہ میں ہوٹل سے اس کے گھر منتقل ہو جاؤں۔ اسے سمجھایا کہ میں کانفرنس میں آیا ہوں، اس لیے مجھے ادھر ادھر ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگلی مرتبہ آؤں گا تو تمہارے ساتھ زیادہ وقت گزاروں گا اور کھانا بھی کھاؤں گا۔ نیم دلی سے اس نے مجھے جانے کی اجازت دی۔

مجھے اپنی بیگم کے خالو سراج الدین مرحوم یاد آ رہے ہیں۔ ان کا تعلق آگرہ سے تھا۔ وہ 20 برس کے تھے، جب پاکستان آئے تھے۔ چونکہ MES میں ملازمت کرتے تھے، اس لیے کبھی جنم بھومی جانے کا موقع نہیں ملا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہیں جا سکے۔ جب مجھ سے میرے دوروں کے تذکرے سنتے تو آبدیدہ ہو جاتے۔ کہتے اب جب تمہارا جانا ہو، مجھے ساتھ لے جانا۔ تم اپنی کانفرنسوں میں مصروف رہنا، بس تم مجھے وہاں چھوڑ دینا، میں خود سارا شہر گھوم لوں گا۔ میں انھیں سمجھاتا کہ جس طرح پاکستان کے شہر بدل گئے ہیں، اسی طرح وہاں کے شہروں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، آگرہ بھی اب بہت بدل چکا ہے، آپ وہاں کھو جائیں گے۔

مگر بڑے اعتماد سے کہتے ایک ایک گلی، ایک ایک سڑک آنکھوں میں نقش ہے، کیسے بھٹک سکتا ہوں۔ وہ یہ حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے کہ میں انھیں اپنے ساتھ آگرہ لے کر جاؤں گا۔ مگر انھیں کیا معلوم کہ کانفرنس میں شرکت کرنے والوں تک کو ویزا کے حصول کے لیے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، جب کہ عام شہریوں، جن کا کوئی عزیز یا رشتہ دار اس ملک میں موجود نہ ہو ویزے کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

مجھے وہ بزرگ کشمیری خاتون یاد آ رہی ہے، جن سے میری دہلی میں امن کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ وہ بحیثیت انسپکٹریس آف اسکول ریٹائر ہوئی تھیں اور کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سے وابستہ تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی منگنی اپنے خالہ زاد بھائی کے ساتھ ہوئی تھی، جو راولاکوٹ میں رہتے تھے۔ شادی 1948ء کے آخر میںطے تھی کہ اچانک جنگ چھڑ گئی اور کشمیر بٹ گیا۔

وہ ادھر اور منگیتر ادھر۔ کئی دہائیاں انتظار میں گزار دیں۔ جب بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تو شادی کا ارادہ ترک کر کے پوری توجہ تدریس پر مبذول کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کی خالہ کا خاندان کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ واپسی پر جب راولاکوٹ جانا ہوا تو ان کے دیے ہوئے پتے پر اس خاندان کو تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر معلوم ہوا کہ مذکورہ گھر میں جو خاندان رہتا تھا، وہ کئی دہائیوں قبل مکان بیچ کر کہیں اور جا چکا۔

یہ محض چند داستانیں نہیں، خونِ دل سے لکھے نوحے ہیں، جو اہل دل ہی کی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ ایسی ان گنت کہانیاں ان دونوں ملکوں کے بیچ موجود ہیں۔ بہت سی ایسی بھی ہوں گی جو نہایت کربناک اور دلدوز ہوں گی۔ مگر دونوں طرف کے پتھر دل حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ کیونکہ جن کا مفاد جنگ گردی میں ہو انھیں کون سمجھائے کہ انسانی جذبات کتنے حساس اور نازک ہوتے ہیں۔ خاندانوں کی تقسیم، ان کا بٹ جانا کتنے المیوں کو جنم دیتا ہے۔ مگر جنھیں پکا پکایا مل جائے، وہ پکانے میں لگنے والی محنت کو کیا جانیں۔ چنانچہ سرحد پار سے بادِ نسیم کے جھونکوں کے بجائے بادِ سموم کے تھپیڑے کسی المیہ سے کم نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔