شام: باغیوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاراستعمال کیے جانے کا خدشہ

محمد اختر  اتوار 16 دسمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 شام میں باغی تیزی سے کامیابیاں حاصل کررہے ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی اب شاید فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔

اصل میں امریکی صدر باراک اوبامہ اور کچھ دیگر امریکی حکام کی جانب سے  شامی صدر بشار الاسد کو سخت الفاظ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنے ملک کے عوام کے خلاف کسی قسم کے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو  انھیں ’’سنگین نتائج‘‘ بھگتنا ہوں گے ۔شام میں جاری خونریز خانہ جنگی انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ خود ملک کے دارالحکومت میں باغیوں کے زیرتسلط علاقوں میں شام کی اسد حکومت کی جانب سے فضائی حملوں اور توپخانہ کا استعمال کیاجار ہا ہے حکومت شمالی اور مشرقی شام میں بڑے علاقے پر کنٹرول سے محروم ہوچکی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بشار الاسد وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے ہچکچار ہے ہیں تاہم اس کی وجہ ان کی اپنے عوام اور باغیوں سے کسی قسم کی ہمدردی کے بجائے اس بات کا خوف ہے کہ  اگر انھوں نے ایسا کیا تومغربی طاقتیں شام میں مداخلت کرسکتی ہیں تاہم مبصرین نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ  اگر بشار الاسد نے اپنی شکست کو یقینی سمجھ لیا تو وہ ایسا سنگ دلانہ قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

غیرملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکی حکام نے  شبہ ظاہر کیا ہے کہ شام کی حکومت کی جانب سے  کیمیائی ہتھیاروں کو تیار کیا جارہا ہے  تاکہ ان کو باغیوں کے خلاف استعمال کیا جائے جبکہ صرف ایک روز قبل امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ شامی فوج کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تیاری کے شواہد نہیں ملے۔ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹوں میں اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ شام کی فوج کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے سلسلے میں وہ اہم عمل شروع کرچکی ہے جس میں بنیادی کیمیائی مواد کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر خطرناک اعصابی گیس تیار کی جاتی ہے جسے ’’سارین ‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ درحقیقت بنیادی کیمیائی مواد کو بموں میں شامل کیا جارہا ہے  تاہم ابھی ان کے استعمال کا حکم نہیں دیا گیا۔

اصل میں کیا ہوگا؟

تاہم ان تمام باتوں کے باوجود حتمی طورپر یہ چیز واضح نہیں کہ حقیقت میں شام میں حالات کیا صورت اختیار کرنے جارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران باغیوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور اپنے زیرقبضہ علاقوں میںاضافہ کیا  ، اس کے علاوہ انھوں نے اپنے توپ خانے اور زمین سے فضا میں میزائل فائر کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے ۔ باغیوں نے سرکاری فوج کے کئی اڈوں پر بھی کامیاب حملے کیے ۔گذشتہ دو ہفتوں کے دوران باغیوں کی طرف سے سرکاری فوج کے دو طیاروں کو میزائلوں کے ذریعے گرایا جاچکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ غالباً باغی کسی حد تک سرکاری فضائی حملوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔شام کے دوسرے بڑے شہر حلب میں سرکاری فوج کا محاصرہ بڑھتا جارہا  ہے اور اسے شہر کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا روزبروز مشکل ہوتا جارہا ہے جبکہ  دارالحکومت دمشق پر بھی  باغیوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ حملوں کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے۔

01

تاہم تمام صورتحال کے باوجود یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بائیس ماہ سے جاری یہ خانہ جنگی، جو اب تک تیس ہزار افراد کی جانیں لے چکی ہے، کب ختم ہوگی۔انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مبصر  جو ہالیڈے کا کہنا ہے کہ فائر پاور میں سرکاری فوج کو تاحال واضح برتری حاصل ہے جبکہ باغیوں کے اسلحہ اور تنظیم کو کئی قسم کی کمیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کی فتح میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔جو ہالیڈے کا کہنا ہے کہ ہمیں تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت دن بدن سکڑ رہی ہے ۔ باغی کامیابی کے ساتھ سرکاری چوکیوں پر قبضہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مبصر جو ہالیڈے کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت سرکاری فوج جو علاقہ باغیوں کے ہاتھوں ہار چکی ہے اس میں مشرق میں واقع تیل کے کنوئوں والا علاقہ اور وہ سرحدی علاقہ بھی شامل ہے جو عراق اور ترکی کے ساتھ واقع ہے ۔علاوہ ازیں   ملک کے اندر طاقتور ترین  فوجی طاقت میں شمار ہونے کے باوجودبشار الاسد کی سربراہی میں شامی حکومت کا اب ملک پر کوئی کنٹرول نہیں  اور اب اس کو قومی ریاست میں شمار نہیں کہا جاسکتا۔اس طرح دوسال گذرنے کے باوجود اس کی جانب سے باغیوں کو کچلنے   اور اپنے علاقے واپس لینے میں ناکامی سے شامی حکومت کے فیصلہ سازوں کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ پورے ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔اب فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں شام میں حتمی صورت حال کیا بنے گی۔

باغیوںمیں موجود تقسیم

شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی  مختلف گروہوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کو ایک واحد لیڈرشپ کے تحت لانا تاحال باقی ہے۔ باغی گروپوں نے ملک کے مختلف حصوں کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے جبکہ ترکی کے ساتھ سرحد پر ایک خود مختار کردش زون بھی قائم ہوچکا ہے اور اس پر کردش ملیشیا کا قبضہ ہے جس سے  شام حکومت بغاوت کی وجہ سے ویسے ہی دستبردار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔حتیٰ کہ دمشق اور حلب جیسے بڑے شہر بھی  اندرونی ، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہیںجہاں متحارب گروہوں کے درمیان ایک دوسرے پر میزائلوں اور مارٹروں سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔یہاں پر کسی قسم کے مذاکراتی حل کی صورت نہ ہونے  کے نتیجے میں گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے لخدار براہیمی نے خبردار کیا تھا کہ شام ’’ناکام ریاست‘‘ میں تبدیل ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں پر حکومتی ادارے ختم ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ  لاقانونیت ، جنگجوازم ، جرائم ، منشیات ، اسلحہ ، اسمگلنگ   اور سب سے بھیانک  یہ کہ نسلی اور فرقہ ورانہ لڑائی بھڑائی نے لے لی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ شام جس طرح تقسیم سے دوچار ہے ، اس کے نتیجے میں بشار الاسد کے ساتھیوں میں شامل سرکردہ لوگو ں کی کوشش  یہی ہے کہ اس سے پہلے کہ ان کی حکومت کو شکست ہوجائے اور ان کی جگہ طاقت ور سنی حکومت قائم ہوجائے، وہ اپنے اور اپنی کمیونٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹ لیں۔یاد رہے کہ بشار الاسد کا تعلق علوی فرقے سے ہے اور بشار الاسد کی حکومت ایک شخصی آمریت کے بجائے علوی اقلیت کا اپنا نظام حکومت ہے  جس کی اصل طاقت فوج ہے جس میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں جن کا تعلق علوی فرقے سے ہے‘ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرقے کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اسد حکومت اگر یہ حقیقت تسلیم کربھی لیتی ہے کہ وہ اب پورے ملک پر حکومت نہیں کرسکتی تو پھر بھی یہ کم ازکم دمشق میں اپنا غلبہ قائم کرنے کی پوری کوشش کرے گی جہاں اکثریت کا تعلق سنی فرقے سے ہے۔

’’سیمسن آپشن‘‘

کیا شکست دکھائی دینے پر بشار الاسد اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں سمیت ہر قسم کے مہلک ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں؟ شام کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف اوکلاہوما شام کے اسکالر جوشوا لینڈس بائبل کی اصطلاح ’’سیمسن آپشن‘‘ (یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے) کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ شامی حکومت کے اندرونی حلقوں میں کیا باتیں چل رہی ہیں لیکن جہاں تک عقلمندی سے چلنے کی بات ہے تو اس بات کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا کہ ’’سیمسن آپشن‘‘ استعمال کیاجائے اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے۔ لیبیا کے کرنل قذافی کے برعکس شام کے بشار الاسد ایک فرقے کے نام پر حکومت کررہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اہم فیصلے وہ تنہا نہ کرتے ہوں  تاہم ان کے ارد گرد موجود علوی سرکردہ افراد خودکشی نہیں کرنا چاہتے۔وہ اپنی اور اپنے خاندانوں کی جان بچانا اوران کا تحفظ چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خدشہ ہے کہ  اگر انھیں شکست ہوئی اور باغی قابض ہوگئے تو ان کی جانب سے ان کے خلاف پرتشدد انتقامی کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔ اس خوف کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ وہ  علویوں کے اس محفوظ خطے کی جانب مجتمع  ہوجائیں جو ساحل کے ساتھ واقع ہے کیونکہ یہاں پر انھیں سنی اکثریت والے دمشق  کے مقابلے میں زیادہ طاقت اور تحفظ مل سکتا ہے ۔اس صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ  حکومت تو گر جائے گی لیکن  خانہ جنگی ختم نہیں ہوگی اور اس کے ختم ہونے میں کافی وقت لگ جائے گا۔

شامی اپوزیشن کا مخلوط اتحاد

مبصرین کے مطابق بشار الاسد کی علویوں پر مشتمل فوج کے پچاس ہزار جوانوں، جو اپنی زندگیوں کے خوف کے باعث پوری قوت سے جنگ میں لڑسکتے ہیں، کو جنگ میں لڑایا جاسکتا ہے اور اگر انھیں دمشق چھوڑنا پڑا تو ان کے لیے واحد بہترین امید یہی ہوگی کہ  شام میں ایک متحد اور طاقتور سنی حکومت بننے کے بجائے ملک مختلف جنگجو گروہوں میں بٹ جائے۔اسد حکومت نے جس طرح کردش علاقے کے کنٹرول سے دست برداری اختیار کی اور اسے ایک سٹرٹیجک فیصلے کے تحت علیحدگی پسند کرد ملیشیا کے حوالے کیا، ان کی اس ترجیح کی عکاسی کرتا ہے کہ شام کے ان علاقوں کو بلقان کی طرح تقسیم کردیا جائے جہاں پر اسد حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔   اس طرح اسد حکومت کی یہ خواہش بھی ہے کہ باغی فرقہ ورانہ گروہوں میں تقسیم ہوجائیں اور زیادہ انتہا پسند سلفی گروہ اور سیکولر اور اعتدال پسند اسلامی گروہ ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوں تاکہ ملک کے مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے کی راہ ہموار ہوجائے اور اسد حکومت کو اس کا فائدہ پہنچے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حال ہی میں مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے شامی اپوزیشن گروپوں کا ایک مخلوط اتحاد قائم ہوا ہے جسے فرانس، برطانیہ اور خلیجی ریاستوں کی جانب سے شامی لوگوں کے ’’واحد قانونی نمائندہ‘‘ کے طورپر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ تاہم لڑاکا گروہوں پر اگر کسی کے کنٹرول کی بات کی جائے تو یہ حقیقت کے بجائے ابھی ایک خواہش سے زیادہ نہیں ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں باغیوں کی جانب سے اسد حکومت کے خلاف نمایاں ترین جو فتوحات حاصل کی گئی ہیں، وہ القاعدہ سے متاثر النصرت فرنٹ نامی ملیشیا کی مرہون منت ہیں اور حریفوں کے ایک محتاظ اندازے کے مطابق اس کے لڑاکوں کی تعداد دس ہزار تک جاپہنچی ہے اوراس کے بہت سے جنگجو مختلف محاذوں پر لڑائی میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔

امریکا کی پریشانی

اس حوالے سے زیادہ فکر مندی امریکا کو ہے جو خانہ جنگی کے دوران مختلف محازوں پر جہادی ملیشیا النصرت فرنٹ  کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر پریشان ہے اور اوباما انتظامیہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اسے دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرسکتی ہے۔جہاںتک ایک جہادی گروہ کے طور پر النصرت فرنٹ کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی بات ہے تو دکھائی دیتا ہے کہ یہ لڑائی میں قائدانہ کردار حاصل کرنے کے عزائم سے لیس ہے  اور خود اسد حکومت کے مخالف باغی گروہوں میں بھی اس کے بارے میں یہی رائے پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب مسئلہ یہ ہے کہ اگر النصرت فرنٹ کو امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیاجاتا ہے تو اس سے امریکی اتحادیوں خاص طور پر خلیج میں اس کے اتحادیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی  اور گروپ کو دیگر طریقوں سے امداد فراہم کی جانے لگے گی۔ نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ امریکا کی منظوری سے قطر کی جانب سے قذافی حکومت کے خلاف لیبیا کے باغیوں کو جو ہتھیار بھیجے گئے وہ بڑی تعداد میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے اور شام کے حوالے سے بھی امریکا کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ کہیں اس طرح نہ ہو کہ لیبیا کی طرح شام میں بھی ’’غلط جنگجوئوں‘‘ کو ہتھیار مل جائیں۔

تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ اگر امریکا النصرت فرنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو  شامی باغیوں اس کو کس طرح لیتے ہیں کیونکہ باغی اسد حکومت کے خلاف لڑائی میں جہادیوں کے کردار کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن امریکا کو کون راضی کرے جو یہ سمجھتا ہے کہ باغی لڑاکوں نے اس کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ایک لبنانی اخبار کا کہنا ہے کہ  بہت سے حلقوں کو خدشہ ہے کہ آزاد شامی فوج کے نام پر ایک جانب تو سلفیوں اور النصرت فرنٹ اور دوسری جانب  دیگر مسلح گروہوں کے درمیان  شدید لڑائی ہوسکتی ہے جبکہ  آزاد شامی فوج اس وقت تک متحد نہیں ہوسکتی جب تک سلفیوں اور جہادیوں کے مسئلے کو مستقل طور پر حل نہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔