عشاق اردو سے ، معذرت کے ساتھ

اقبال خورشید  پير 24 اکتوبر 2016

’’ایک واقعہ‘‘:ایک رشتے دار سعودی عرب جارہے تھے، ہم بھی، مشرقی رسم و رواج کے مطابق، بیگم اورصاحبزادے احد کو لیے انھیں الوداع کہنے ایئرپورٹ پہنچ گئے، موسم خوش گوار تھا۔ہم چائے سے دل بہلارہے تھے۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ڈیپارچرسے رن وے کا کچھ حصہ دکھائی دیتا ہے۔ احد نے پہلی بار ہوائی جہاز اتنے قریب سے دیکھے، تو فرط جذبات سے چلایا:‘‘ مما دیکھو، جہاز!‘‘

ہماری بیگم نے فوراً ٹوکا: ’’بیٹا، جہاز نہیں۔ Airplane کہتے ہیں۔‘‘

ہم، جو اردو صحافت سے وابستہ، فکشن اردو میں لکھتے ہیں، اِس بات پر ہنس دیے اور بیگم سے لفظ جہاز کو Airplane کے مقابلے کم تر جاننے پرہلکا سا احتجاج کیا، جسے توقع کے عین مطابق، درخوراعتنا نہ سمجھا گیا۔ اتفاق دیکھیں، کچھ ہی روز بعد جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ کی جانب سے اردوکو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ آگیا اور ایک بحث چھڑ گئی۔ ایکسپریس کے ساتھی، رضوان طاہر مبین سے ، جو اردو پر تحقیق اور اِس کے نفاذ سے متعلق خاصے سنجیدہ، اِس مدعا پر بات ہوئی۔ سنجیدگی سے غورکیا۔ کچھ دوستوں سے تبادلۂ خیال ہوا۔

دیگر عوامل پر بھی نگاہ کی۔جیسے جامعہ کراچی سمیت شہر کی مختلف درس گاہوں میں شعبۂ اردو کی صورت حال،اردو میڈیم طلبا کے مسائل، عوام کا نقطۂ نگاہ، شوق مطالعے میں آنے والی گراوٹ اور سب سے بڑھ کر تیزی سے بدلتے عالمی حالات اور عصری تقاضے۔۔۔ ان عوامل اور معروضی حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہم جس تلخ نتیجے پر پہنچے، اسے بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردیں کہ ہم بھی اِس زبان کو اتنا ہی حسین، فصیح و بلیغ اورزرخیز سمجھتے ہیں، جتنے اردو کے عشاق ۔شاید موقف آپ کو نہ بھائے، مگر نیت ہماری نیک ۔

’’اردو کی معیشت کمزور ہے‘‘: جی، ہمیں اعتراف کہ اگرکوئی ایسا شخص، جس کا باورچی خانہ اردوکے وسیلے چلتا ہو، ایسی بات کہے، تو اس کی دماغی صحت پر شک کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیں کہنے دیجیے، اِس کے باوجود کہ آج میڈیا پر اردو چینل چھائے ہیں، اورانگریزی چینل کے تجربے ناکام ہوئے، اِس کے باوجود کہ اردو اخبارات کی سرکولیشن انگریزی اخبارات سے کئی گنا زیادہ، یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ اردو کی معیشت کمزور ہے۔ صحافت چوتھا ستون ضرور ہے جناب، مگر جب ذرایع روزگار کی بات ہو، تو صحافت فقط ایک اکائی۔

ورنہ شعبہ تدریس کا ہو یا طب کا، آئی ٹی ہو یا انجینئرنگ، زراعت ہو یا طبیعیات، سیلزہو یا مارکیٹنگ، انگریزی زبان ہی کو فوقیت حاصل۔(اورجہاں تک ادب کا تعلق، سب کو خبر کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں شاید 70 ادیب ہی اِسے روزگار کاکامیاب ذریعہ بنا سکے ہوں۔ ہاں، ناشروں نے خوب کمایا)الغرض ادارہ نجی ہو یا سرکاری اورچاہے کسی نوعیت کا ہو(ماسوائے یادگار غالب اور اردو لغت بورڈ جیسے اداروں کے) ہر جگہ انگریزی کا سکہ چلتا ہے۔یہ ترقی کا زینہ بھی اور علمیت کا تمغہ بھی۔ اور اس کی وجہ ہے، انگریزی کی عالمی حیثیت۔

’’انگریزی میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیںـ؟‘‘: اگر سرخاب کے پروں سے بیش قیمت کسی کے پر ہوں، توسمجھے لیجیے آج انگریزی کو وہ پر میسر ۔ تاریخ میں شایدہی کبھی کسی زبان کو وہ قوت، وسعت اور اہمیت نصیب ہوئی ہو، جو انگریزی کے حصے میں آئی۔ یہ رابطے کے ساتھ علوم کی بھی سب سے بڑی زبان۔ تعمیرات، حیاتیات، کیمیا، معیشت، عمرانیات، ٹیکنالوجی، تمام اہم علوم انگریزی میں ڈھل کر پھل پھول رہے ہیں۔ عالمی کاروبار کی زبان انگریزی۔آرٹ ، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری پر بھی انگریزی غالب۔کمپیوٹر نامی جادوئی ڈبے نے علمی، تحقیقی اور معاشی دنیا میں جہاں سرحدوںکو مٹا دیا، وہیں مقابلے کی فضا بھی سخت ہوگئی ۔ اب یہاں ٹکے رہنے کے لیے اپنے میدان کا ماہر ہونے کے ساتھ ، کم ازکم ترقی پذیر ممالک میں، انگریزی پرگرفت ضروری ۔(براہ مہربانی جاپان اور جرمنی کی مثال مت دیجیے، اپنے معروضی حالات پر نظر رکھنا ہی عقل مندی !)

’’کیا ہم احساس کمتری کا شکار ہیں؟‘‘راقم الحروف کا تعلق متوسط طبقے سے اور ہمارے نزدیک یہی طبقہ ترقی کے عامل میں کلید۔ نچلا طبقہ اس معاملے میں غیر متعلقہ ، اور اشرافیہ لاتعلق۔ تو ہمارے متوسط طبقے میں ایک عرصے تک یہ چلن رہا اور شاید اب بھی ہے کہ جب کوئی شخص انگریزی کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے، اپنے بچوں کوجہاز کے بجائے Airplane کہنا سکھائے، خود بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولے، تو اسے کھٹ سے ’’فرنگی‘‘کا طعنہ دے کر احساس کمتری کا شکار قراردے دیا جاتا ہے۔( شاید ہماری بابت بھی آپ کا یہی خیال ہو)

حضرات، احساس کمتری کے معاملے کو فقط طعنہ کہہ کر نظرانداز کردینا بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے سماج کا بڑا حصہ احساس کمتری کا شکارہے اورکیوں نہ ہو، لگ بھگ ایک صدی تک ہم پرانگریز غالب رہے۔ ہم نے حاکموں کو انگریزی بولتے دیکھا۔ تقسیم کے بعد بھی اہم سرکاری عہدوں تک وہی پہنچے،جوانگریزی پر گرفت رکھتے ہیں(بیشتر تو ایسے تھے، جو اعلیٰ برطانوی اور امریکی درس گاہوں کے فارغ التحصیل تھے، اور ان ہی جیسی سوچ رکھتے تھے)سرد جنگ کے بعد عالمگیریت اپنے شوخ رنگوں کے ساتھی آئی، تو پھرانگریزی کا پرچم لہرایا۔ تو صاحب، ہمارا احساس کمتری میں مبتلا ہونا فطری ۔پھر ایک ظلم اور ہوا۔

قیام پاکستان کے وقت ہمارے سرکاری اسکولوں کا معیار خاصا بہتر تھا، مگر بیوروکریسی، اشرافیہ اور جاگیرداروں نے (چاہئیں تو اس میں را اور موساد کو بھی شامل کرلیں) اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دھیرے دھیرے سرکاری اسکولوں کو بے وقعت بنا دیا، ادھر نجی اسکول فقط کاروبار بن گئے۔60 کی دہائی میں میٹرک کرنے والا بھی انگریزی میں درخواست لکھ لیتا تھا، اب تو ایم اے کے طالب علم کے لیے بھی یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ۔آج یہ حال کہ انگریزی طاقت اور ترقی کے ساتھ دانش کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے، اور ہماری اردو نے بے چارگی کی چادر اوڑھ لی۔

’’حل کیا ہے؟‘‘:یہ ایک طویل موضوع۔ پورا دفتر درکار۔ مختصراً یہی کہیں گے کہ یہ جو انگریزی اسکولوں کا نظام ہے، یعنی مقامی زبانیں کم تر، انگریزی ترجیح۔۔۔اور والدین کا دونوں زبانوں کے تولنے کے معاملے میں جو سطحی رویہ ہے، یہ شاید ہمیں تھوڑی بہت انگریزی تو سکھا دے، مگر ہمیںاپنی ثقافت اور اقدار سے کاٹ دے گا۔ اس کھوکھلے نظام سے جنم لینے والے طلبا میں اگر دانش کی جھلک نظر آئے، تو اِسے محض اتفاق ہی سمجھیں۔ کرنا یہ ہوگا کہ اردو اور انگریزی؛ دونوں زبانوں کو بوسیدہ نصابی کتابوں سے نکل کر، جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عملی انداز میں پڑھایا جائے۔ ان مضامین کو، ان کے اساتذہ اور طلبا کو سماج میں اہمیت دی جائے۔اشرافیہ کی فکر تبدیل ہو۔ والدین کے رویے بدلیں۔ بائیالوجی، کیمسٹری اور فزکس کے مانند اردو اور انگریزی کے باقاعدہ پریکٹیکل ہوں۔ طلبا انھیں زبان کے طور پر سیکھیں، تاکہ جب وہ زندگی کے چودہ قیمتی سال خرچ کرکے گریجویشن کریں، تو انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں اظہار خیال کرسکیں۔

ایک اور سوال ذہن میں کلبلاتا ہے اور یہ ہمارے میدان، یعنی ادب سے متعلق۔ کیا اردو ادب واقعی عالمی دنیا سے پیچھے ہے؟ کیوں ہمارا ادیب حقیقی شہ پارہ تخلیق نہیں کرسکا؟ کیا اس میں صلاحیت کی کمی ہے؟ ان سوالوں کو اگلی ملاقات کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔