چیئرمین نیب…کچھ پرانی باتیں

نصرت جاوید  جمعـء 14 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کارگل چوٹیوں پر لڑی جانے والی جنگ کے بہت ہی کڑے مراحل کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم  نواز شریف نے  اپنے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کو صلح صفائی کے لیے دہلی بھیج دیا۔10جون 1999ء کی سہ پہر ہم بھارتی دارالحکومت کے  لیے روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچ کر اپنے کمروں کی چابیاں لے کر جب انھیں دروازوں میں لگایا تو وہاں سے شایع ہونے والے دو انگریزی روزناموں نے ہمارا ’’خیر مقدم‘‘ کیا۔ دونوں کے صفحہ اول پر ایک ٹیپ کے مندرجات لکھے ہوئے تھے جن کے مطابق جنرل مشرف اپنے چیف آف  اسٹاف کے ساتھ شنگھائی کے ایک ہوٹل سے فون کے ذریعے کارگل کے بارے میں تازہ ترین صورتحال جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اپنے وزیر خارجہ کے ساتھ جانے والے ہم سب صحافیوں کو پیغام مل گیا کہ سر تاج عزیز صاحب کے ساتھ مذاکرات کے دوران اصل سوال کیا اٹھائے جائیں گے۔ تقریباََ اسی طرح کے سوالات انتہائی بدتمیزی کے ساتھ بھارتی صحافیوں کے ایک بہت بڑے گروہ نے بھی اس پریس کانفرنس میں اٹھائے رکھے جو ہمارے وزیر خارجہ نے وطن واپسی سے قبل پاکستانی سفارت خانے میں طلب کی تھی۔

اس بھارتی دورے کے دوران ہم پاکستانی صحافیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ کافی تکلیف دہ تھا۔ اسی لیے میرے اندر کا رپورٹر یہ جاننے کے لیے  بہت بے چین رہا کہ سرتاج صاحب نے وطن واپسی کے بعد اپنے وزیر اعظم کو کیا بتایا  تھا۔ بڑی مشقت کے بعد بالآخر پتہ چل گیا کہ سرتاج صاحب کی واپسی کے دوسرے روز نواز شریف صاحب نے لاہور کے گورنر ہائوس میں جنرل مشرف کو باقی افواج کے سربراہوں کے ساتھ بلوایا۔ جنرل عزیز کو اس اجلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہ ملی۔ سرتاج عزیز نے اپنے دورہ بھارت کی کہانی سنا کر اس اجلاس کا آغاز کیا۔ جنرل مشرف سے جواب طلب کیے گئے۔ انھوں نے ادھر اُدھر کی ہانکنا شروع کر دیں۔

اس موقع پر اس وقت کے نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری نے جرأت دکھائی اور صاف الفاظ میں جنرل مشرف کو بتا دیا کہ ان کی جانب سے کارگل پر کیے گئے ’’ایڈونچر‘‘ کے نتیجے میں پاکستان کی بحری ناکہ بندی بھی ہو سکتی تھی جس کے توڑ کے لیے پاکستان نیوی کو تیار رہنے کے لیے ہر گز نہیں کہا گیا تھا۔ میں نے گورنر ہائوس میں ہونے والے اس اجلاس کی اندرونی کہانی سنی تو ایڈمرل فصیح بخاری سے تعارف اور ملاقات کے وسیلے ڈھونڈنا شروع ہو گیا۔ بالآخر وہ مجھے ملے لیکن اس روز جب انھوں نے وزیر ا عظم نواز شریف کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بنایا جانا انھیں پسند نہیں آیا۔ یہ عہدہ ایئر فورس کے بعد اب پاکستان نیوی کے حصے میں آنا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں کیا گیا، اس لیے وہ نیول چیف کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے رہے ہیں۔ ایڈمرل فصیح بخاری کے ساتھ اپنی پہلی ہی ملاقات میں اتنی ’’دھانسو ‘‘ خبر مل جانے کے بعد میرے دل میں ان کی عزت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے اس کا اظہار کرنے سے کبھی غفلت نہیں برتی۔

ان ہی بخاری صاحب کے بارے میں چیئرمین احتساب بیورو بن جانے کے بعد جو کہانیاں پھیلائی گئیں، میں انھیں کبھی ہضم نہیں کر پایا۔ تاہم میں اس وقت واقعی بہت مایوس ہوا جب چیئرمین احتساب بیورو نے اس وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ نہ دیا جب سپریم کورٹ نے انھیں اور ان کے ادارے کو اس قابل نہ سمجھا کر وہ ارسلان  اسکینڈل کے بارے میں حقائق کا سراغ لگا پائیں۔ یہ فریضہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو سونپ دیا گیا۔

بخاری صاحب اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں تو سپریم کورٹ کی جانب سے سڈل کمیشن قائم کرنے کے فیصلے نے ان کے ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ اب اپنی تھوڑی بہت ساکھ کو بحال کرنے کے لیے بہت ضروری تھا کہ چیئرمین نیب اور ان کا ادارہ سر جھکا کر بڑی تن دہی سے کرپشن کے تین چار بڑے معاملات کا پیچھا کرتے ہوئے چند بڑے مگر مچھوں کی حقیقت ہمارے سامنے بے نقاب کرتا اور انھیں عدالتوں سے قرار واقعی سزائیں دلواتا۔ مگر حقیقت میں ہو اس کے بالکل الٹ رہا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نامی ایک ادارے کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ آئی ہے اور احتساب کے چیئرمین نے اس میں پیش کیے گئے دعوئوں اور کہانیوں کو گود لیے بچے کی طرح شدت سے اپنا بنا لیا ہے۔ خورشید شاہ اور قمر زمان کائرہ جیسے گھاگ سیاستدان وزیروں کے کان اس معاملے میں ایسے ہی کھڑے نہیں ہو گئے۔ ان دونوں کو علم ہے کہ موجودہ حکومت زیادہ سے زیادہ مزید تین مہینوں کی مہمان ہے۔ اس کے بعد گلی گلی میں انتخابی مہم کا شور ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کو اب زیادہ محنت کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ چیئرمین احتساب بیورو کے بیانات ووٹروں کو  یاد دلاتے رہیں گے۔ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ پیپلز پارٹی کے وزیروں نے اپنے دور اقتدار میں سوائے اپنی جیبیں بھرنے کے خلقِ خدا کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔

بات صرف پیپلز پارٹی کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان تک محدود رہتی تو شاید میرے جیسے لوگ نظرانداز کر دیتے۔ زیادہ پریشانی اور حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ ایڈمرل بخاری صاحب کو ’’مجاہد‘‘ بننے کا شوق انتخابات کے بالکل قریب ہوا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے بہت سارے با خبر اور جید جانے والے صحافیوں کی طرح وہ بھی طے کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کے بعد نئے انتخابات کے ذریعے سیاستدانوں کی ایک اور حکومت نہیں آ رہی؟ تیاریاں ’’اہل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنو کریٹس‘‘ پر مشتمل اس ’’نگران حکومت‘‘ کی ہو رہی ہیں جو کم از کم تین سال تک سیاستدانوں کا ’’کڑا احتساب‘‘ کرے اور ساتھ ہی ساتھ ٹھوس عوامی طور پر غیر مقبول مگر دور رس فائدے دینے والے وہ اقدامات بھی اٹھائے تو ہماری معیشت کو جمود سے نکال کر دیرپا خوش حالی کی راہ پر ڈال دیں۔ اگر تو واقعی ایسی حکومت بن رہی ہے تو فصیح بخاری کا اس موقعے پر ’’مجاہد‘‘ بن جانا ان کے بڑے کام آئے گا۔ جنرل مشرف کی ترقی کے خلاف استعفیٰ دے کر انھوں نے خاموشی سے بڑے مشکل دن گزارے ہیں۔ ان کے ’’گج وج‘‘ کر جینے کے دن بھی آنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔