انتخابات کا اداس موسم

زاہدہ حنا  بدھ 26 اکتوبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ سنہ 1500ء تھا جب ہندی قبائلی عورتوں نے ’نئی دنیا‘ کو دریافت کر نے والے کولمبس اور دوسرے ہسپانویوں کو ناکوں چنے چبوانے شروع کردیے تھے، وہ سمجھ گئی تھیں کہ ہسپانوی ان کی زمین اور ان کے وسائل پر قبضے کے لیے آئے ہیں۔ یہ عورتیں اپنی زمینوں کی مالک تھیں اوراس کی پیداوارکی تقسیم اور تجارتی لین دین کے معاملات کی وہی ذمے دار تھیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ ہسپانوی، ہندی قبائل سے ایک لا یعنی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جس میں ان کے باپ، شوہر، بیٹے، بھائی، بھتیجے بے مقصد مارے جارہے تھے۔

وہ اعلان کرتی ہیں کہ وہ اس وقت تک شادیاں نہیں کریں گی اور بچے پیدا نہیں کریں گی جب تک یہ بے مقصد جنگ ختم نہیں ہوگی۔ مرد  ان کے اس مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس رویے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرخ ہندی قبائل یا عرف عام میں ریڈ انڈین عورتیں کتنی خود مختار تھیں اور ان کے فیصلوں کے سامنے ان کا قبیلہ سر جھکاتا تھا۔ یہ 1619ء کا سال تھا جب امریکا کی سرزمین پر 17 سیاہ فام افریقیوں اور 3 عورتوں نے قدم رکھا۔

یہ مرد اور عورتیں غلاموں کے طور پر لائے گئے تھے اور اس کے بعد سے امریکا میں محنت اور مشقت کے کاموں کے لیے افریقی غلام بناکر لائے جانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی غلامی امریکیوں کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا بن گئی۔ جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انیسویں صدی میں صدر ابراہم لنکن نے ایک خوفناک جنگ لڑی۔ اس میں جنوب اور شمال دونوں طرف کے لاکھوں نوجوان مارے گئے۔ لنکن کا کہنا تھا کہ ہم کلنک کے اس سیاہ داغ کو اپنے خون سے دھوئیں گے۔

غلامی مخالف مہم میں امریکی عورتوں نے جس دلیری اور دلاوری سے حصہ لیا اس کی تفصیل حیران کردیتی ہے۔ان میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی تھی لیکن آہستہ آہستہ سفید فام امریکی عورت بھی اس جدوجہد کا حصہ بن گئی۔ غلامی کی یہ زندگی کتنی تذلیل آمیز اور غیر انسانی تھی، اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے۔ گنے اورکپاس کے ہزاروں ایکڑ وسیع فارمز پر کام کرنے والی ان عورتوں کی غربت اور ذلت ان کی تحریروں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ ان ہی میں سے ایک جملہ سو جورنرٹرتھ کا ہے جس نے انیسویں صدی میں اٹھ کر پوچھا تھا، ’’کیا میں عورت نہیں ہوں؟‘‘

ایسے ہی متعدد دل دوز جملے امریکی تاریخ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ہماری ملاقات ہیرٹ بیچر اسٹوو سے ہوتی ہے (1811-1896) جو ’انکل ٹامزکیبن‘ لکھتی ہے۔ یہ ناول ’نیشنل ایرا‘ میں قسط وار شایع ہوتا ہے اور جب کتابی شکل میں آتا ہے تو چند ہفتوں میں 3 لاکھ فروخت ہو جاتا ہے۔

غلامی کی مخالفت میں لکھا جانے والا یہ ناول شمال وجنوب میں آگ لگا دیتا ہے اور جب غلامی کی مخالفت میں لڑی جانے والی جنگ جیت لی جاتی ہے تو صدر ابراہم لنکن کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے کہ یہ جنگ جو امریکی شمال و جنوب کی ریاستوں کے درمیان لڑی گئی اس جیت میں اصل حصہ تو اس ناول کا تھا جس نے امریکیوں کے ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

مہینوں پر مہینے سال پر سال گزرتے چلے جاتے ہیں۔ غلامی سے آزادی ملنے کے باوجود کتنے ہی مرحلے راہ میں ہیں اور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اپنے حق اور اپنے لیے انصاف کی طلبگار سیاہ فام عورتوں میں سے 8 کو بر سرعام سنگسارکردیا جاتا ہے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے برابر کا حق مانگتی ہیں۔

پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ان عورتوں پر اور اپنے حق کے طلب گار تمام امریکیوں پر وقت لٹوکی طرح گھوم جاتا ہے۔ صرف ڈیڑھ سو برس بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ایک رنگ دار عورت پوڈیم پرکھڑی ہے اور اس کی آواز بلند وپست پرگونج رہی ہے۔ وہ امریکی قصرِ صدر سے آئی ہے اور کہہ رہی ہے کہ میں نے ایوان صدر میں اپنے شوہر کے دورِ صدارت کی آخری تقریب میں شرکت کی۔

یہ نوجوان لڑکیوں کا ایک شاندار اجتماع تھا جس میں ان کے وقار، عزت واحترام اور حیثیت کا خیال رکھا گیا اور آج میں جن کے سامنے کھڑی ہوں، وہ بھی نوجوان ہیں۔ یہ نہایت اداسی کی بات ہے کہ ہم نے پچھلے دنوں وہ تحقیرآمیز اور غلیظ زبان اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران سنی جسے میں یہاں دہرانا بھی نہیں چاہتی۔ اس مہم کے دوران ایک فریق کی طرف سے وہ گندی زبان استعمال کی گئی جس سے ہم اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کے کانوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

اس وقت امریکی انتخابات کا جو موسم چل رہا ہے، وہ اداس کردینے والا ہے۔ یہ عورت ان الفاظ کو نہیںدہراتی جو امریکا  نے ہی نہیں، ساری دنیا نے سنے اور انھیں بولنے والے پر نفریں بھیجی۔ وہ کہتی ہے کہ اپنے آپ کو صدر امریکا کے طور پر پیش کرنے والا شخص جس نوعیت کی باتیں کرتا رہا ہے، اسے سن کر مجھے وہ کہانیاں یاد آتی ہیں جو ہم نے اپنی ماؤں، نانیوں اور دادیوں سے سنی تھیں۔

ہمارا خیال تھا کہ یہ تو پشتوں پرانی باتیں ہیں لیکن نہیں، یہ 2016 ء ہے اور اس میں ایک شخص وہ جملے کہہ رہا ہے جن میں ہم ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ یہ سیاست نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق سیاست سے نہیں، یہ تمام باتیں توہین آمیز ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سب یکجا ہوجائیں اور چیخ کرکہیں کہ بس بہت ہوگیا۔ پانی سر پر سے گزر گیا۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں ایسے ہی مرد یا جوان ہوتے ہیں، تو یہ آپ کا غلط خیال ہے۔ ہمارے مرد اس بات سے پریشان ہیں کہ اس انتخابی مہم کے دوران ایک فریق کی طرف سے جو بازاری زبان استعمال کی گئی ہے، وہ ہمارے لڑکوں پر کس طرح اثر انداز ہوگی۔ اس لیے کہ صدارتی انتخاب میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں وہ لڑکوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ایسے رہنما، ایسے رول ماڈل ہمیں ہرگز نہیں چاہئیں۔ سچ مچ کے طاقتور افراد وہ ہوتے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چل سکیں۔

ہمیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھ سکے اور ہمارے اندر جو تقسیم پیدا ہوگئی ہے، اسے ختم کرسکے۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہیلری کلنٹن ہمارے لیے بہترین صدر ثابت ہوں گی۔ ہم نے ان کی محنت اور ان کے کمٹمنٹ کا مظاہرہ گزشتہ تیس چالیس برسوں کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان خاتون میں وہ تمام اہلیت ہے جو دلوں کو جوڑ سکتی ہے۔

ہیلری بچوں کی عمدہ تعلیم اور اس تعلیم کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ وہ بچوں کی صحت کے معاملات کے لیے برسوں سینیٹ میں لڑتی رہی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ہمارے بچے بد معاملگی سے کامیابیاں حاصل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بچوں کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے سیدھا اور سچا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ محنت اور مشقت پر ان کا یقین ہے۔

گزشتہ 5 برس جو انھوں نے امریکی وزیرخارجہ کے طور پر گزارے، اس دوران ساری دنیا میں امن اور ایک بہتر دنیا کو تعمیر کرنے کے لیے انھوں نے 112 ملکوں کا دورہ کیا۔ اس مدت میں ایک جنگ بندی کا سہرا ان کے سر ہے۔ انھوں نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے اورکرائے۔ بعض منحر فین کو آزاد کرایا اور جب ان پر مختلف الزامات لگے تو انھوں نے کانگریس کمیٹی کے سامنے 11 گھنٹے تک تیکھے اور کڑے سوالات کے جواب دیے۔

ہم جانتے ہیں کہ اگر حالات مشکل ہو ں تو ہیلری کبھی ان کی شکایت نہیں کرتیں، وہ دوسروں پر الزامات نہیں لگاتیں۔ وہ ایک زبردست ماں ہیں۔ انھوں نے بہترین بیٹی کی پرورش کی ہے۔ ان کی والدہ بیمار ہوئیں تو آخری سانس تک انھوں نے اپنی ماں کی خدمت کی۔ ہمیں ہیلری ایسی ایک رہنما کی ضرورت ہے جو اچھے اور برے دنوں میں اس ملک کے اور اس کے افراد کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔

ہمیں ہیلری کو جتوانا ہے، ہمیں ایک ایک ووٹ کا خیال رکھنا ہے اس لیے کہ انتخابات میں ہر ووٹ اہم ترین ہوتا ہے۔ آئیے اور ہیلری کے ساتھ کھڑے ہوں تا کہ ہمارے ملک کا مقدر محفوظ ہاتھوں میں ہو، نہ کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں جو بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔

امریکی خاتون اول مشعل اوباما نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے لیکن یہاں ان تمام باتوں کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب امریکی خاتون اول کھل کر اور بلند آواز میں اپنے ملک کی صدارت کا وقار بچانا چاہتی ہو تو کیا ہمیں اس سے کچھ نہیں سیکھنا چاہیے؟ ہمارے یہاں اقتدار کی خواہش میں تمام ملکی اداروں کو جس طرح رسوا کیا جارہا ہے کیا وہ ہمارے لیے پریشان کن نہیں؟ مشعل اوباما نے اپنے صدارتی انتخابات کو اداسی کا موسم کہا، کیا ہم بھی ایسے ہی موسم سے دوچار نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔