پشاور میں داعش کا نیٹ ورک قائم، دوسری تنظیموں کے نام سے کارروائیاں

عمیر محمد زئی  جمعـء 28 اکتوبر 2016
سبزی، فروش، موچی بھی گروپ میں شامل‘مختلف علاقوں میں سیل موجود ہیں،گرفتار گروہ سے اہم معلومات ملی ہیں،سیکیورٹی ذرائع۔ فوٹو؛فائل

سبزی، فروش، موچی بھی گروپ میں شامل‘مختلف علاقوں میں سیل موجود ہیں،گرفتار گروہ سے اہم معلومات ملی ہیں،سیکیورٹی ذرائع۔ فوٹو؛فائل

پشاور: قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق پشاور میں حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مذہبی شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہے تاہم ایک منصوبے کے تحت کالعدم تحریک طالبان کے دھڑے جماعت الاحرار ان واقعات کی ذمے داری قبول کرتی آ رہی ہے، داعش کے سہولت کار اور کارندے پیغام رسانی کیلئے سب سے محفوظ طریقہ ٹیلی گرام استعمال کرتے ہیں،کچھ ماہ پہلے تک کوئی بھی انٹیلی جنس ادارہ داعش کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا تھا تاہم اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔

انٹیلی جنس اداروں کے مطابق اس وقت داعش کے کئی درجن سہولت  کار جن میں  تنظیم کے کئی مقامی رہنماء بھی شامل ہیں انٹیلی جنس بیورو، سی ٹی ڈی سمیت کئی دیگر اداروں کی تحویل میں ہیں،ان سے کی جانے والی تفتیش کے مطابق داعش پشاورکے سربراہ کا تعلق شہرکے نواحی علاقے متنی سے ہے جو مبینہ طورپرآفریدی قبیلہ سے تعلق رکھتا  ہے۔عام طور پر 5 یا6 افراد پر متشمل گروپ ہوتا ہے۔

تنظیم کیلئے کام کرنے والے افراد میں سبزی فروش، موچی تک شامل ہیں جو آمدورفت اور ریکی کیلیے رکشاو ٹیکسی استعمال کرتے ہیں، ان کو ماہانہ کی بنیاد پر 20سے 35 ہزار روپے تک دیے جاتے ہیں، یہ افراد پیغام رسانی کیلیے میسجنر، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع کے بجائے سب سے محفوظ طریقہ ٹیلی گرام استعمال کرتے ہیں اور اس وجہ سے داعش کے ذمے دار افراد کی نگرانی یا گرفتار کرنا مشکل کام ہے.

انٹیلی جنس اداروں کے مطابق گلبہار، پھندو، پتنگ چوک فقیرآباد اور یکہ توت کے علاقوں میں ان کے سلیپنگ سیل موجود ہیں اور یہی سیل شہر میں پولیس، فورسز سمیت دیگر سرکاری اہلکاروں و شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں،خفیہ اداروںنے داعش کا ایک گروہ پکڑا ہے جس سے تفتیشی ٹیموں کو اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

اسی گروپ کے رہنما حمزہ عرف عبداللہ عرف راجہ عرف راجو عرف ثابت نے ریاستی اداروں کے سامنے 19افرادکے قتل کا اعتراف کیا تھا، ان مارے جانے والے افراد میں اکثریت پولیس اور فورسز کے اہلکاروں کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔