پھر وہی بے معنی اچھل کود

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 29 اکتوبر 2016

عظیم فلسفی اپیکٹیٹس متنبہ کرتا ہے کہ ’’ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دورکرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر وکوشش کرنی چاہیے‘‘ اگرکوئی صاحب دو اوردوکو پانچ کہنے پر بضد ہوجائیں اورآپ کے لاکھ سمجھانے پر بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں اور آپ سے لڑنے مرنے پر تیارہوجائیں۔ تو ظاہر ہے آپ فوراً وہاں سے کھسکنے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے اورکانوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہیں گے کہ خدا ان کو سمجھائے تو سمجھائے کوئی انسان تو ان کو ہرگز نہیں سمجھا سکتا۔

یہ ہی حال اس وقت ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ وہ کوئی بھی سمجھ داری کی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے خیرخواہوں نے پہلے ہی روز سے انھیںسمجھنا شروع کردیا تھا کہ محاذ آرائی کے نتائج ہمیشہ ہولناک نکلتے ہیں، لیکن شاباش ہے ہمارے حکمرانوں پرکہ انھوں نے نا سمجھنے کے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ خود ہی توڑ ڈالے لیکن یہ اس کے سوا اورکر بھی کیا کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ محاذ آرائی کے مرض میں مبتلا ہیں انھیں محاذ آرائی ہی میں سکون ملتا ہے۔

کہتے ہیں عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ دھکے کھانے سے آتی ہے، نہیں جناب نہ عقل بادام کھانے سے آتی ہے اور نہ ہی دھکے کھانے سے عقل اس وقت آتی ہے جب آپ اسے آنے کی اجازت دیتے ہیں اور اگر آپ کی عقل سے ہی دشمنی ہوجائے تو پھر دعائیں بھی بے اثر ہوجاتی ہیں۔

چند سالوں پہلے تک ہمارے اکثر تجزیہ نگار اس بات پر متفق نظر آتے تھے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی طویل جلا وطنی کے دوران زندگی کے تمام نشیب وفراز اونچ نیچ تمام رویوں اور اپنی شخصیت کے تمام مثبت ومنفی پہلوؤں کا بڑی باریکی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ جائزہ لیا ہوگا بلکہ اپنے آپ سے کافی عہد وپیمان بھی کیے ہوں گے اور یہ کہ موقع ملنے پر ملک کے عوام ایک بالکل ہی مختلف اوربھر پور شخصیت کو اپنے سامنے پائیں گے اور بے معنی اچھل کود سے تو بالکل ہی دور رہیں گے اور الٹی چھلانگ لگانا توبالکل ہی ناممکن ہوگا۔

لیکن پھر ہوا یہ کہ ہمارے تجزیہ نگاروں کا سارا اتفاق ہی بے معنی اچھل کود ثابت ہوا وقت بدل گیا لیکن ہمارے حکمران بالکل نہیں بدلے۔

ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے بہت سے تجزیہ نگاروں نے اپنے تو کام سے ہی توبہ کرلی ہے اور اگر کوئی غلطی سے ان سے یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو وہ اینٹ اٹھا کر ان کی جانب دوڑ پڑتے ہیں۔

ہر انسان اپنی ذات کے بارے میں فیصلے کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے لیکن اگر لو گوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے بارے میں فیصلوں کا اختیارآپ کو دے دیں تو پھر آپ کو کسی بھی صورت میں من مانی یا غیردانشمندانہ فیصلے کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی،کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ ان فیصلوں کے اثرات صرف آپ کی ذات کی حد تک نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ملک کسی کی جاگیر نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی عوام مزارعے ہوتے ہیں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے آپ کو حکمرانی کا حق اس لیے دیتے ہیں کہ آپ ملک اورقوم کو درپیش مسائل سے نجات دلوائیں گے نہ وہ انتقام لینے کے لیے دیتے ہیں اور نہ ہی کشیدگی اور محاذ آرائی پیدا کرنے کے لیے ۔ لہٰذا عوام نے آپ کو جس مقصد کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔ خدارا… آپ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ آپ بے مقصد باتوں یا اقدام اورحرکتوں کی وجہ سے عوام کا قیمتی وقت کیوں ضایع کررہے ہیں۔

عوام اس وقت مسائل کی آگ میں جل رہے ہیں، ملک چاروں طرف سے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ذاتی ایجنڈے اور قومی ایجنڈے کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔آپ حکومت سے باہر آکر اپنے ذاتی ایجنڈے کو پورا کرسکتے ہیں کوئی بھی آپ کو نہ روکے گا اور نہ ہی ٹوکے گا لیکن اگر آپ حکومت میں رہتے ہوئے قومی ایجنڈے کو پورا نہیں کریں گے تو پھر ملک کے عوام نہ صرف یہ کہ آپ کو روکیں گے بلکہ ٹوکیں گے بھی ۔

خدارا اپنی سو چ بدلیے پوری دنیا اپنی سوچ بدل چکی ہے، پوری دنیا میں اب محاذ آرائی، نفرت اور کشیدگی ناپید ہوچکی ہے اور اس کی جگہ مفاہمت ، محبت اوربرداشت نے لے لی ہے۔ بادشاہ شاہ جہاں اورکنگ ایڈورڈ دونوں بادشاہ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں کی بیویوں کی موت کینسر سے ہوئی۔

بادشاہ شاہ جہاں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنی بیوی کی یاد میں تاج محل بنوایا جب کہ کنگ ایڈورڈ نے University of medical Research بنوائی تاکہ جس بیماری سے اس کی بیوی مری اس سے دوسروں کو بچایا جا سکے ۔ فرق صرف سوچ کا ہے اپنی سوچ کو تبدیل کیے بغیر ہم زندگی کی ہر جنگ ہارتے رہیں گے اور آخر میں زندگی بھی ہار جائیں گے۔

ایک جنگ میں سپاہی نے اپنے کمانڈر سے کہا ’’جناب میرا دوست میدان جنگ سے نہیں لوٹا میں اس کو ڈھونڈنے جانا چاہتا ہوں اجازت دیجیے۔‘‘ کمانڈر نے کہا ’’میں تمہیں وہاں جانے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔‘‘ کمانڈر نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں تمہیں اپنی زندگی کو کیسے ایسے شخص کی وجہ سے خطرے میں ڈالنے کی اجازت دے سکتاہوں، جس کے بارے میں قوی امکان ہے کہ وہ مارا جا چکا ہو۔‘‘

کمانڈرکی بات اپنی جگہ درست تھی مگر سپاہی اس سے نہ تو قائل ہو اور نہ ہی اس نے اسے کوئی اہمیت دی کہ اس کا میدان جنگ میں جانا اس کی اپنی زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتاہے وہ وہاں سے بھاگ کر سیدھا میدان جنگ میں پہنچ گیا جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ گھنٹے بھر کے بعد زخموں سے چور لڑکھڑاتا ہوا کاندھے پر دوست کی لاش اٹھائے آتا دکھائی دیا توکمانڈر نے بھاگ کر اسے کے کندھے سے لاش اتاری، اسے سہارا دے کر زمین پر بٹھایا اور تاسف کرتے ہوئے کہا، میں نے تمہیں کہا تو تھا کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر محض ایک لاش کو تلاش کرنے جانا اس وقت ہرگز دانائی نہیں ہوگی مگر تم نے میری بات نہیں مانی اور دیکھ لو اپنا یہ حشرکروا کے لوٹے ہو۔

سپاہی نے کراہتے ہوئے مختصر کہا، نہیں جناب جب میں اپنے دوست کے پاس پہنچا تو وہ ابھی حیات تھا اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا تھا مجھے پورا یقین تھا کہ تم مجھے یوں تنہا مرنے کے لیے نہیں چھوڑوگے ۔

میرے ملک کے حکمرانوں ملک میں چاروں طرف امیدوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں چاروں طرف بربادی ہی بربادی ہے چاروں سو آہ و بکا کی پکاریں اٹھ رہی ہیں لوگ تمہیں پکار رہے ہیں لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ تم انھیں تنہا نہیں چھوڑو گے تم ان کی مدد کو ضرور آؤ گے لیکن کریں تو کریں کیا، تمہیں محاذ آرائی سے ہی فرصت نہیں ہے، اگر تمہیں کبھی محاذ آرائی سے فرصت ملے تو تم ان کی پکاریں اور آہ و بکا ضرور سن لینا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔