دھرنے کی رگوں سے انقلاب بھی ٹپک سکتا ہے!

رحمت علی رازی  اتوار 30 اکتوبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاسی وعسکری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو عیسوی تقویم کے آخری تین مہینوں کے ریکٹر سکیل کی شدت بہت زیادہ ہے‘ ان تین مہینوں یعنی اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں وطنِ عزیز کی سیاست میں پے در پے مختلف النوع زلزلے آتے رہے جن کے آفٹر شاکس کا سامنا ہمیں آنیوالے مہینوں میں بھی ہمیشہ رہا‘ یوں تو اگست کو آگ اور ستمبر کو ستمگر سے تشبیہ بھی دی جاتی ہے تاہم ان دونوں مہینوں کے مابعد اثرات بھی اکتوبر، نومبر اور دسمبر ہی میں جاکر نمایاں ہوتے ہیں۔

ماہِ اکتوبر چونکہ اگست، ستمبر اور نومبر، دسمبر کے مابین پڑتا ہے، چنانچہ پاکستان کے زائچہ کے لحاظ سے تمام زلزلوں کی جڑیں اکتوبر کی بنیادوں میں ہی پھیلی ہوئی ہیں، گویا پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ میں اکتوبرکوخونی مہینے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دُنیا کے ماہرالماہرین عالمِ ہندسہ فیثاغورث کا ماننا ہے کہ حقائق کی بنیاد پرکیا گیا کسی ماہرِ تجزیات کا تجزیہ علمِ نجوم کی بنا پر کی گئی کسی ماہرِ نجوم کی پیشین گوئی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو سکتا۔ زیرِنظر کالم میں ہماری کوشش ہو گی کہ عمران خان کے دھرنے کو اکتوبر، نومبر، دسمبر کے 69 سالہ آئینے میں دیکھتے ہوئے ملکی تاریخ کے سیاسی اُفق پر رونما ہونے والی غیرمعمولی تبدیلیوں کے عکس سے متماثل کر سکیں‘ پھر تجزیے کے تمام پہلوؤں کو پاکستان کی گزشتہ تواریخ کے سانحات و حادثات کو نوآمدہ واقعات کے متوقع نتائج پر چھوڑ کر یہ دیکھیں گے کہ ہمارے اس تجزیے میں ظاہر کیے گئے خدشات آیندہ 2 ماہ کے حالات سے کس قدر قریب ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ ’’دھرنا  ون‘‘ اور ’’دھرنا  ٹو‘‘ میں بنیادی فرق کیا ہو سکتا ہے؟ 2014ء اور 2016ء کے زمینی حقائق کچھ زیادہ مختلف تونہیں تاہم یہ ضرور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے اگست 2014ء کے دھرنے اور نومبر 2016ء کے دھرنے میں روحانی تال میل تو موجود ہے لیکن ان دونوں دھرنوں کی جسمانی حیثیتوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔

’’دھرنا  ون‘‘ انتخابی دھاندلی کے خلاف ترتیب دیا گیا تھا اور مطالبہ یہ تھا کہ یا تو نوازشریف چار حلقے کھول دیں یا استعفیٰ دیں‘ جب وزیراعظم اس پر تیار نہ ہوئے تو کپتان کے مطالبات میں اور سختی آتی گئی‘ جب طاہرالقادری کے دھرنائیوں نے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا اور وزیراعظم ہاؤس کے محاصرے کی کوشش کی تو نوازشریف اسلام آباد سے فرار ہونے کے لیے بھی پَر تولنے لگے تھے مگر وہ تو دُعائیں دیں اپنے پرانے نمک خوار جاوید ہاشمی کو، جنہوں نے دھرنے سے اچانک سنیاس لے کر کنٹینر کے اگلے دونوں ٹائر ہی پنکچر کر دیے کیونکہ باغی نے اندر کی باتیں افشاء کر کے کپتان کے جوش و جذبے کو اخلاقی طور پر ماند کر دیا تھا‘ پھر نوازشریف دُعائیں دیں ’’میثاقِ مک مکا‘‘ کے شراکت دار آصف زرداری کو جن کے پیادوں کے وعوذ و خطبات نے ان کے اقتدار کی ڈولتی ناؤکو کنارے لگانے کا جتن کیا۔

ان سب حیلوں کی موجودگی میں نوازشریف کی کوئی گود پلی دُعا کام کر گئی اور سانحہ اے پی ایس جیسا ناخوشگوار واقعہ روپذیر ہو گیا‘ یہ وہ وقت تھا جب پوری قوم کی توجہ دھرنے سے ہٹ کر اس جھنجھوڑ دینے والے سانحہ پر مبذول ہو گئی‘ تب میڈیا کو بھی اپنا سارا فوکس دھرنے سے وہاں شفٹ کرنا پڑا اور کپتان کے پاس دھرنا ختم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ بچا تو اسے چہرے کی بچت کے لیے حکومت کی طرف سے’’انتخابی اصلاحات کمیٹی‘‘ کے لارے پر اکتفا کرنا پڑا۔ ’’دھرنا  ٹو‘‘ کا مکمل ایجنڈا وزیراعظم کی تلاشی یا استعفے پر مبنی ہے‘ نوازشریف یہ دونوں کام کرنے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہونگے لہٰذا تحریکِ انصاف نے ٹھان لی ہے کہ وہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے اور نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے تک اسلام آباد کو منجمد رکھیں گے۔

نون لیگ کی حکومت کرپشن کے سوا اور کوئی کام نہیں کر رہی‘ ایسے میں کوئی تو ہو جو اِن طاغوتی قوتوں سے ملک کو آزاد کرائے‘ کپتان نے اب اسی مہم جوئی کا بیڑا اٹھایا ہے جسکا نام ’’دھرنا  ٹو‘‘ ہے جو 2 سال قبل اگست سے شروع ہوا تھا اور امسال نومبر میں انتہا پر پہنچ رہا ہے۔ فلکی سائنس یہ نظریہ راسخ کرتی ہے کہ پورے سال میں اگست کا مہینہ سب سے زیادہ برے اثرات کا حامل ہوتا ہے‘ یہ توڑپھوڑ اور تخریبی اثرات کا مہینہ ہے‘ اس میں کیے گئے فیصلے تادمِ مرگ نحس اثرات دکھاتے رہتے ہیں‘ اگست کے مابعد اثرات نومبر اور دسمبر پر بھی پڑتے ہیں اور اگر اس مہینے میں کوئی منصوبہ ناکام ہو جائے تو آنیوالے دو سے تین سال میں وہ اپنے عمل کو دہراتا ہے اور مزید بربادی کا سبب بنتا ہے اور اغلباً اس بربادی سے تعمیری نتائج بھی برآمد ہو جاتے ہیں، یعنی آگ میں پھول بھی کھل سکتے ہیں۔

اگست پر 8 کا ہندسہ حاکم ہے جسکا عدد 9 کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے‘ عدد9 طلسماتی طاقت کی وجہ سے عروج کی طرف مائل ہے جب کہ عدد8 وقفے وقفے سے زوال کی طرف جھکاؤ کرتا ہے‘ اسی سبب سے9 اپنے دوسرے سائیکل یعنی 18 ویں مہینے یا سال میں حربی پوزیشن (جنگی حالت) میں آ جاتا ہے مگر سرخرو رہتا ہے جب کہ 8 جب تیسرے سائیکل یعنی 24 ویں مہینے یا سال میں پہنچتا ہے تو سخت ترین توڑپھوڑ پر اُتر آتا ہے اور اپنے ہی منسوبہ فریق کی موت تک کا موجب بن سکتا ہے۔

موٹا موٹا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگست کے مہینے میں ہندوستان کو آزادی دی گئی جسکا منصوبہ ملکہ برطانیہ کے خاندانی نجومی جے آرکانت (جوہندوالنسل تھا) کی نصیحت پر تیار کیا گیا تھا‘ اگست میں ہندوستان آزاد تو ہو گیا مگر اسے نقصان یہ ہوا کہ اس کا ایک جغرافیائی ٹکڑا اس سے جدا ہو کر پاکستان بن گیا۔ دوسری طرف اگست کے مہینے میں قیام سے پاکستان کو یہ نقصان ہوا کہ اس مہینے کے نحس اثرات ہر آئے سال اس پر بھاری ہوتے گئے‘ اب عدد8 کے تیسرے سائیکل اور عدد 9 کے دوسرے سائیکل کی طرف آتے ہیں‘ یہ تو سیدھا سیدھا شمار ہے کہ قیامِ پاکستان کے 24 سال بعد (جو8 کا تیسرا سائیکل بنتا ہے) 1971ء کی جنگ ہوئی اور 8 کے تخریبی کردار کی وجہ سے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا۔

قیامِ پاکستان کے 18 سال بعد (جو 9  کا دوسرا سائیکل بنتا ہے) 1965ء کی جنگ ہوئی جس میں 9 کی شاہی پوزیشن کی وجہ سے پاکستان اپنے مخالف فریق پر حاوی رہا۔ ہم اس سے آگے کسی جمع تفریق میں نہیں پڑیں گے بلکہ اپنے اصل موضوع ’’دھرنے‘‘ کی طرف آئینگے۔ پہلا دھرنا بھی قیامِ پاکستان کے دن یعنی 14 اگست کو شروع ہوا اور سال تھا 2014ء کا‘ پی ٹی آئی کے اس دھرنے کی ابتداء چونکہ اگست میں ہوئی تھی لہٰذا اس کے اثرات نومبر اور دسمبر تک جانے تھے اور یہی ہوا کہ دھرنا چار ماہ سے اوپر یعنی دسمبر 2014ء تک طول پکڑے رہا۔

ہم نے عددی بحث کے شروع میں کہا تھا کہ اگست میں شروع کیے گئے منصوبے ناکام ہو جائیں تو 2 سے 3 سال کے اندر (8 کی اکائی ’’2‘‘ اور 9 کی اساس ’’3‘‘ کے مطابق) وہ اپنے عمل کو دہراتے ہیں، گویا عمران خان کے 2 نومبر 2016ء کو دھرنا پارٹII کی تاریخ متعین کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ اگست 2014ء والا دھرنا ناکام ہوا تھا سو، 2 سے 3 سال کے اندر اندر (سوا دوسال میں) وہی احتجاجی عمل خود کو دہرانے جا رہا ہے۔

ہم نومبر کے متوقع دھرنے کو اگست کے گزشتہ دھرنے سے الگ کر کے نہیں دیکھتے بلکہ اسے گزشتہ کا ایک تسلسل ہی کہیں گے جس پر مخرب سیارہ زحل غالب ہے جو بربادیوں کے رَتھ پر سوار اسلام آباد کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے‘ اس اعتبار سے تو اسلام آباد کی سڑکوں اور ایوانوں میں محاربے اور خون خون خرابے کی توقع ہی کی جا سکتی ہے تاہم زحل (8) کے ساتھ مریخ (9) کی معاونت کی وجہ سے اس دھرنے میں بلوائی فریق کے پلڑے میں زبردست کامیابیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگست اور ستمبر تو اب گزر چکے ہیں، اس لیے ان دونوں مہینوں کا تذکرہ عبث ہو گا‘ خونی مہینے ’’ماہِ اکتوبر‘‘ کے سانحات کا تذکرہ ہم اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے پہلے پہل دھرنے کی تاریخ اکتوبر ہی میں طے کی تھی تاہم ازاں بعد بوجوہ انھیں یہ تاریخ اکتوبر سے نومبر میں لے جانا پڑی۔

اکتوبر کے حوالے سے اتنا ضرور کہیں گے کہ عمران خان اگر یہ دھرنا اکتوبر کے اوائل میں رکھتے تو اس کا انھیں زبردست نقصان اٹھانا پڑتا اور اس ایڈونچر میں دونوں اطراف پر زبردست جانی نقصان کا خدشہ موجود ہو سکتا تھا مگر نومبر کے مہینے کو بھی ہم اتنا سہل نہیں لے سکتے کیونکہ اس پر بھی اگست کے اثرات چڑھے ہوئے ہیں جو دسمبر تک کھنچ سکتے ہیں۔

اب اکتوبری سانحات کا سرسری سا جائزہ لے کر نومبر، دسمبر کے سیاسی سانحات کو دھرنے کے متوقع خوشگوار و ناخوشگوار واقعات کے تناظر میں پرکھیں گے۔ پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد جو سب سے پہلا حادثہ ریاستِ پاکستان کو پیش آیا، اس کا وقوع 27 اکتوبر 1947ء کو ہوا‘ اس دن بھارت نے جارحیت کرتے ہوئے فضائی فوجی دستے کشمیر میں اُتار دیے تھے کیونکہ مہاراجا ڈوگرہ نے کشمیری عوام کی صوابدید کے خلاف انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا اعلان کر دیا تھا‘ بعدازاں اکتوبر پاکستان کے منحوس ستارے کے طور پر اپنا رنگ دکھاتا گیا۔

16 اکتوبر1951ء کو دوسرا بڑا سیاسی سانحہ رونما ہوا اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسۂ عام کے موقع پر شہید کر دیا گیا اور اس سے اگلے روز یعنی 17 اکتوبر کو ملک غلام محمدگورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین ملک کے دوسرے وزیراعظم بنے۔ 6 اکتوبر کو گورنر جنرل غلام محمدکو مستعفی ہونا پڑا اور انکی جگہ سکندر مرزا نے لے لی۔

7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں پہلے مارشل لاء کی شکل میں آمریت نازل ہوئی‘ اس کے دو اہم کردار سکندر مرزا (جو گورنر جنرل سے صدر بنے تھے) اور جنرل ایوب خان (چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) تھے۔ 27 اکتوبر کو جنرل ایوب نے سکندر مرزا سے جبری استعفیٰ لے لیا اور خود فیلڈمارشل کا عہدہ سنبھال لیا۔ 5 اکتوبر 1975ء کو پاکستان نے سقوطِ ڈھاکہ کا غم بھلا کر بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ 15 اکتوبر 1979ء کو انتخابات کا وعدہ تھا مگر جنرل ضیاء الحق نے 16 اکتوبر کو سیاسی جماعتوں کا وجود تحلیل کر کے پریس سنسرشپ عائد کر دی۔

16 اکتوبر 1988ء کو ملک کی آٹھ سیاسی جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے نام سے ایک سیاسی نیٹو تیار کی جسے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل تھی‘ امابعد 24 اکتوبر 1990ء کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا جسکے نتیجے میں آئی جے آئی نے 104 جب کہ پی ڈی اے نے 45 نشستیں حاصل کیں۔ 6 اکتوبر 1993ء کو پھر عام انتخابات منعقد کروائے گئے جن میں پیپلزپارٹی نے 86 جب کہ مسلم لیگ نون نے 72 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اسی ماہ 19 اکتوبر کو بینظیر بھٹو 172 ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا اور 10 اکتوبر 2002ء کو ملک میں عام انتخابات کروا دیے۔ 8 اکتوبر 2005ء کو آزادکشمیر اور صوبہ سرحد میں تباہ کن زلزلہ آیا جس میں ایک لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ 18 اکتوبر 2008ء کو بینظیر بھٹو 8 سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان لوٹیں اور اسی روز ان کے استقبالی قافلے میں خوفناک دھماکے ہوئے جن میں 180 جیالے جان سے گئے۔ 2010ء میں اکتوبر کے مہینے ہی میں کراچی کا امن تیزی سے برباد ہونا شروع ہوا جسکا آغاز سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں سے ہوا۔

2012ء میں اکتوبر ہی کے مہینے میں ملالہ یوسف زئی پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا اور پھر 2014ء میں اکتوبر ہی کے مہینے میںملالہ کو نوبل امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ انسانی ستاروں کا تعلق فلکی سیاروں سے ہے اور اجرامِ فلکی ایک خاص ترتیب اور روٹین سے محوِ حرکت ہیں جسے ’’چکر‘‘ یا ’’سائیکل‘‘ کا نام دیا گیا ہے لہٰذا جو واقعات کرۂ ارض پر رونما ہوتے ہیں، وہ ایک توقف کے ساتھ بار بار رونما ہوتے ہیں، اسی عمل کو ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

نومبر کی روشنی میں دھرنے سے متعلق بھی جو مفروضات ہم قائم کریں گے، وہ کچھ یوں ہیں کہ کپتان کا اسلام آباد میں پڑاؤ 2 نومبر سے شروع ہو رہا ہے‘ دھرنے کی غیرمعمولی اُٹھان دیکھ کر ہو سکتا ہے کہ عمران خان ڈے ون سے یہ مطالبہ کر دیں کہ نوازشریف فوری طور پر مستعفی ہو کر خود کو کھلے احتساب کے لیے پیش کریں ورنہ ہم انھیں اس ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیں گے‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے علاوہ کچھ غیرجمہوری، غیرپارلیمانی طاقتیں اسلام آباد کی سانس روک دیں اور نوازشریف کو معہ اہل و عیال دربدر ہونے پر مجبور کر دیں‘ اس طرح کا ایک واقعہ 2 نومبر 1958ء کو بھی پیش آیا تھا جب سکندر مرزا کو جلاوطن کر دیا گیا تھا۔

بات اس حد تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ حکومت سکیورٹی فورسز کو مجبور کر دے کہ وہ دھرنائیوں پر تشدد کریں اور انھیں شہر کے باہر ہی محدود کرنے کی کوشش کریں‘ ایسی صورتحال میں پولیس اور بلوائیوں میں تصادم کا ماحول جنم لے سکتا ہے اور نتیجتاً کسی بڑی موت یا اموات کی خبر بھی سامنے آ سکتی ہے کیونکہ نومبر میں ایک بڑی موت کا سانحہ تاریخ میں موجود ہے جب 26 نومبر 1967ء کو نواب آف کالا باغ ملک امیر محمدخان کو قتل کر دیا گیاتھا۔

پی ٹی آئی کی دھرنا تحریک ملک گیر احتجاج کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے جسکے نتیجے میں نوازشریف کو چار و ناچار مستعفی ہونا پڑ سکتا ہے کیونکہ 7 نومبر 1968ء کو جب طلباء نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے تو جنرل ایوب کو بھی مستعفی ہونا پڑا تھا۔ یہ امکان بھی رَد نہیں کیا جا سکتا کہ جب اسلام آباد مفلوج ہو چکا ہو گا‘ پولیس اور فوج کے دستے خانہ جنگی کی صورتحال کو قابو کرنے میں مصروف ہوں تو بھارت پاکستان کی اندرونی انارکی سے فائدہ اٹھا کر ہم پر حملہ کر دے‘ تاریخ شاہد ہے کہ نومبر کے مہینے میں ایسے ہی حالات میں (22 نومبر 1971ء کو) بھارت نے مشرقی پاکستان پر فُل سکیل حملہ کر دیا تھا۔

کچھ ایسا منظرنامہ بھی اُبھر سکتا ہے کہ نوازحکومت کا خاتمہ ہو جائے اور نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے کیونکہ 16 نومبر 1987ء کو بھی عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جن میں پاکستان پیپلزپارٹی نے 92 جب کہ آئی جے آئی نے 54 نشستیں حاصل کیں‘ بعدازاں اسی ماہ نومبر کی 30 تاریخ کو پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی یقینی بنایا گیا۔

نومبر بداعتمادی کے اثرات بھی رکھتا ہے‘ ممکن ہے کچھ ایسا ہو جائے کہ نون لیگ کی صفوں میں بغاوت ہو جائے اور نوازشریف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا ماحول بن جائے، پھر یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی عمران خان کی حلیف بن جائیں اور ’’گو نواز گو‘‘ کو عدم اعتماد سے ممکن بنا دیں‘ نومبر میں ایسی ایک مثال پہلے بھی موجود ہے جب یکم نومبر 1989ء کو بینظیربھٹو کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈالا گیا تھا۔

نوازشریف کے کسی بھی طرح جانے کی صورت میں کوئی اور بھی وزیراعظم نامزد ہو سکتا ہے‘ نومبر میں نیا وزیراعظم نامزد ہونے کی دو دو مثالیں موجود ہیں‘ ایک تو خود نوازشریف ہی تھے جو 6 نومبر 1990ء کو 153 ووٹوں سے وزیراعظم نامزد ہوئے اور دوسرے میرظفراللہ خان جمالی تھے جنہوں نے 23 نومبر 2002ء کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔

احتجاجی تحریک کے سبب حالات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں تیسری قوت کو بھی مداخلت کا موقع مل سکتا ہے اور صدر کے عہدے کو غسل دیکر اس پر کوئی غیرمعمولی شخص بھی براجمان ہو سکتا ہے‘ اس طرح نومبر میں نئے صدر کی حلف برداری کا واقعہ خود کو دہرا سکتا ہے کیونکہ 13 نومبر 1993ء کو سردار فاروق لغاری کو پاکستان کا آٹھواں صدر نامزد کیا گیا تھا۔

تیسری قوت مداخلت کر کے نوازشریف اور انکی کابینہ کو رخصت بھی کر سکتی ہے‘ نومبر کے مہینے میں ایسی ایک مثال پہلے بھی آن ریکارڈ ہے کہ 5 نومبر 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے بینظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے معزول کر دیا تھا‘ اب اسمبلی تو تحلیل نہیں ہو سکتی البتہ کابینہ کو جبری رخصت کرنیکا خدشہ موجود ہے۔

جس بات کے سب سے زیادہ امکانات ہیں وہ یہ ہے کہ امریکا کے اس خطے میں بے پناہ مفادات ہیں چنانچہ دریں حالات وہ پاکستان میں فوجی قیادت کی تبدیلی نہیں چاہے گا‘ خاص کر افغانستان کو طالبان کے احیاء واثر سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے جنرل راحیل شریف کی ابھی مزید دو تین سال ضرورت ہے، ایسے میں وہ یقینی طور پر نوازحکومت پر دباؤ ڈالے گا کہ جنرل راحیل کو توسیع مل جائے‘ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ جنرل راحیل کو بھی روس کے بجائے امریکا کی طرف جھکاؤ کے لیے دوبارہ مجبور کیا جائے۔

توسیع کے بعد وہ امریکا کا دورہ بھی کر سکتے ہیں، پھر کوئی امر مانع نہیں کہ امریکا پاکستان کی فوجی امداد بحال نہ کر دے‘ نومبر میں اس کی مثال موجود ہے جب 10 نومبر 2001ء کو امریکی صدر بش نے جنرل پرویز مشرف سے نیویارک میں ملاقات کی اور انھیں ایک ارب ڈالرکی اضافی امداد کا یقین دلایا تھا۔

بوکھلاہٹ کی حالت میں نوازشریف صدر ممنون حسین کو ایمرجنسی کے نفاذ پر بھی مائل کر سکتے ہیں‘ ایسی صورت میں خود حکومت کو اور اہم اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘ 3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف نے بھی وکلاء سے بوکھلا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت زیادہ تر ججوں کو گھروں میں نظربند کر دیا تھا۔

نواز حکومت کے خاتمے کے نتیجہ میں محدود مدت کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہو سکتی ہے یا پھر کوئی نگران حکومت قائم ہو سکتی ہے کیونکہ 16 نومبر 2007ء کو محمد میاں سومرو کی نگران حکومت نے حلف اٹھایا تھا‘ اسی مہینے 25 نومبر کو نوازشریف 7 سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئے تھے مگر اب یہ عمل ریورس بھی ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد کے حالات کنٹرول سے باہر ہو جانے پر ملک میں خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے جسے موقعِ غنیمت جان کر انڈیا، افغانستان کے راستے مغربی سرحد پر پاکستان سے چھیڑخانی کا مرتکب ہو سکتا ہے‘ 2011ء میں نومبر ہی کے مہینے میں نیٹو فورسز نے پاکستان کی مغربی فوجی چوکیوں پر حملہ کر کے 25 پاکستانی فوجیوں کو شہید کر ڈالا تھا جسکے نتیجے میں پاکستان نے نیٹو سپلائی کے تمام راستے بند کر دیے تھے۔ اگر حکومت نے کوئی ٹھوس اور مضبوط حکمتِ عملی اپنا لی اور دباؤ میں نہ آئی تو دھرنا دوسرے مہینے میں بھی داخل ہو سکتا ہے، پھر دسمبر میں بھی بہت سے واقعات متوقع ہیں۔

دھرنے کے جاری رہتے سپریم کورٹ پاناما لیکس پر اپنا فیصلہ صادر کر سکتی ہے جس میں نوازشریف کے ساتھ اور بھی کئی ہستیاں گھر جا سکتی ہیں‘ یکم دسمبر 1969ء کو بھی 300 بیوروکریٹوں کو کرپشن میں ملوث پائے جانے پر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آ کر نوازشریف نئے الیکشن کا اعلان کر دیتے ہیں تو گمان غالب ہے کہ تحریکِ انصاف صفِ اوّل کی جماعت بن کر اُبھرے گی‘ 7 دسمبر 1970ء کو پہلے عام انتخابات منعقد کروائے گئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی بھی نمایاں سیاسی جماعتیں بن کر اُبھری تھیں۔

غدر کی صورتحال ہو جانے پر بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کے لیے آرمی چیف کو حکومتی باگ ڈور ہاتھ میں لینی پڑ سکتی ہے یا وہ اقتدار عمران خان کے حوالے بھی کر سکتے ہیں کیونکہ دو سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی جنگ کے نتیجے میں جب 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا اور دُنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کی شکل میں ایک نومولود ملک معرض وجود میں آ گیا تو اس کے چار روز بعد 20 دسمبر کو جنرل یحییٰ نے زمامِ اقتدار زیڈ اے بھٹو کے ہاتھ میں تھما دی تھی جن کے پاس صدارت کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی چلا گیا۔

اگر عمران خان دسمبر میں انقلاب لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا نام جلی حروف سے لکھا جائے گا اور 2016ء کو ’’سالِ انقلاب‘‘ قرار دیا جا سکے گا‘ 27 دسمبر 1975ء کے روز 1976ء کے سال کو قائداعظم کا ’’صدسالہ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ حالات خراب ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر صدر ممنون حسین سے کوئی ہنگامی آرڈیننس جاری کروایا جا سکتا ہے جسے عدلیہ کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے‘ اس آرڈیننس سے کوئی ڈرامائی تبدیلی متوقع ہو سکتی ہے جس طرح کہ 19 دسمبر 1984ء کو جنرل ضیاء الحق نے صدارتی ریفرنڈم کا ڈراما رچایا تھا۔

دھرنے کے دوران دسمبر میں عمران خان نئی شادی کا اعلان بھی کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے اس کے بعد وہ وزیراعظم بھی بن جائیں‘ 18 دسمبر 1987ء کو بینظیر بھٹو نے آصف زرداری سے سیاسی شادی رچائی تھی اور 2 دسمبر کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ دسمبر 2016ء نوازشریف کی جلاوطنی کو دہرا بھی سکتا ہے‘ 10 دسمبر 1999ء کو بھی انھیں معہ اہل و عیال سعودی عرب میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔

دھرنائیوں نے وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کر لیا تو نوازشریف پر قاتلانہ حملے کے امکانات واضح ہیں‘ 14 دسمبر 2003ء کو جنرل پرویز مشرف پر بھی خطرناک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ حکومت نے بوکھلاہٹ میں اگر نومبر میں آئین معطل کرنے جیسا اقدام کیا تو دسمبر میں اسے بحال کیا جا سکتا ہے‘ اس کی تمثیل 16 دسمبر 2007ء ہے جب جنرل مشرف نے ملک سے ایمرجنسی کا نفاذ ختم کر کے سماجی حقوق سے پابندی اٹھا لی اور ملکی آئین بحال کر دیا تھا۔

دھرنا دسمبر میں داخل ہوا تو خدانخواستہ عمران خان کو راستے سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے اور ان کے جانشین کے طور پر دو تین اشخاص میں جھگڑا شروع ہو سکتا ہے‘ 27 دسمبر 2007ء کو جب بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تو 30 دسمبر کو آصف زرداری محترمہ کے سیاسی جانشین کے طور پر سامنے آ گئے تھے۔

ہو سکتا ہے نوازشریف نومبر کا مہینہ تو کچھ داؤ پیچ لڑا کر نکال لیں مگر اگلے ماہ (دسمبر  میں) وہ سیاسی و عسکری دباؤ برداشت نہیں کر سکیں گے‘ دسمبر2011ء میں زرداری حکومت بھی ’’میموگیٹ سکینڈل‘‘ کی وجہ سے سخت دباؤ میں آ گئی اور بات ’’ابھی گئی کہ ابھی گئی‘‘ والی صورتحال پر جا پہنچی تھی۔ تحریکِ انصاف کے دھرنے میں اس اَمر کا خدشہ ضرورت سے زیادہ ہے کہ اس میں گولیاں چل جائیں یا بم بلاسٹ ہو جائے‘ اس معاملہ میں دسمبر  بھی اکتوبر کی طرح بڑا قاتل مہینہ ہے‘ پشاور آرمی پبلک اسکول میں 150 معصوم بچے اور اساتذہ بھی تو دسمبر ہی میں شہید کیے گئے تھے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب مفروضات و خدشات تو محض ایک تجزیہ ہے تاہم ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید کو معہ چند دیگر رہنماؤں کے گرفتار کیا جا سکتا ہے‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دارالحکوت  کو بند نہ کرنے کے احکامات کے نصف گھنٹہ بعد ہی حکومتی مشینری کے متحرک ہونے اور تحریکِ انصاف کے کارکنان کی پکڑ دھکڑ کرنے سے مطلقاً یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ شاید اسی مقصد کے لیے تھا۔

پی ٹی آئی قیادت کو غیرقانونی طور پر ہاؤس اریسٹ میں رکھ کر اور ان کی متوقع ریلیوں کے راستے مسدود کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آگ کے دریا پر بند باندھنے جا رہی ہے کیونکہ حکمرانوں کی بوکھلاہٹ نے تحریکِ انصاف کا کام خود ہی آسان بنا دیا ہے جس سے سیاسی بساط پر عمران خان کا پلڑا بھاری ہوتا نظر آ رہا ہے‘ بالفرض حکمران اگر پی ٹی آئی قیادت کو گرفتار کرتے ہیں تو وہ اپنے لیے پاتال سے بھی گہرا گڑھا کھودنے کا کام کرینگے جس میں انھیں باجماعت سر کے بل گرنے سے دُنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا پائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔