فاتح سندھ اور بزرگان دین

نسیم انجم  اتوار 16 دسمبر 2012
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آج سندھ کی دھرتی پر بسنے والے بے حد دکھی ہیں، نہ جان ومال کا تحفظ ہے اور نہ عزت وآبرو محفوظ ہے، گلی کوچوں میں معصوم و بے قصور لوگوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے،انصاف کا جنازہ ہر روز دھوم دھام سے نکالا جاتا ہے۔ ہزاروں گھرانوں کے چراغ بجھ چکے ہیں اور اب ان گھروں میں اندھیرا ہوگیا ہے، کہیں سے کوئی روشنی کی رمق نظر نہیں آتی ہے۔ بھتہ خوروں نے جینا حرام کردیا ہے۔ اس ایک صوبے سندھ پر ہی کیا انحصار، پاکستان کے دوسرے صوبوں پر بھی آفات نازل ہوچکی ہیں اور طرح طرح کے سانحات آئے روز رونما ہوتے ہیں جن کا کوئی تدارک نہیں ۔

ایک وقت وہ تھا جب ایک مظلوم لڑکی نے حجاج بن یوسف کو حجاج المدد کہہ کر پکارا جواب میں  حجاج نے کہا میں آیا اور اسی وقت دیبل کے راجہ داہر کو لکھا کہ عرب عورتوں کو واپس کردو، ایک اور واقعہ بھی رونما ہوا کہ کچھ باغی راجہ داہر کے یہاں پناہ گزیں ہوئے جب حجاج نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو راجہ داہر نے حسب عادت انکار کردیا۔ راجہ داہر کی ہٹ دھرمی اور اس کا ظلم سندھ پر حملے کا سبب بنا۔

جس وقت محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اس وقت اس کی عمر 17 سال تھی، لیکن انتظامی معاملات کو اچھی طرح سمجھتا اور فن سپہ گری کا ہنر بھی جانتا تھا، لہٰذا اپنی شجاعت کی بناء پر اس نے دیبل کو فتح کرلیا ’’راور‘‘ کے مقام پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا، راجہ داہر کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور اسے قتل کردیا گیا۔ اس کی موت کے بعد راجہ داہر کی ایک رانی نے اپنے آپ کو پندرہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ قلعے میں بند کرلیا اور مسلمانوں کا سخت مقابلہ بے حد سمجھداری کے ساتھ کیا لیکن رانی کو اپنی شکست کا مکمل یقین ہوگیا تو اس نے جوہر کی رسم ادا کی اور اپنی خواصوں سمیت زندگی کا خاتمہ کرلیا اس طرح راور پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ راجہ داہر کے وزیر سی ساکر نے محمد بن قاسم کے پاس آکر اظہار اطاعت کیا اور وہ عرب عورتیں واپس کیں جنھیں سندھ کے قزاقوں نے جہاز سے گرفتار کیا تھا۔ محمد بن قاسم نے سی ساکر کی عزت افزائی کی اور اسے وزارت کے عہدے سے نوازا، اس طرح سی ساکر کا رتبہ بحیثیت وزیر قائم ہوا۔

جس محنت و جدوجہد سے محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا اور سندھ اسلام کا قلعہ بن گیا، آج اسی سندھ میں اسلام کے نام پر ایک دوسرے کی جان لی جارہی ہے، حجاج بن یوسف  نے ایک لڑکی کی پکار پر لبیک کہا یہاں سالہا سال سے ہر روز بے شمار لڑکیاں اغواء کی جاتی ہیں اور پھر باقاعدہ فروخت کی جاتی ہیں، یہ گھناؤنا کاروبار عرصہ دراز سے دھڑلے سے چل رہا ہے اور اب تو میکدے بھی وجود میں آگئے ہیں جہاں سے لوگ ام الخبائث کو بڑی شان سے خریدتے ہیں اور اپنے مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، بہت سے علاقوں میں رقص و سرود کی محافل کو سجایا جاتاہے جہاں یہ مشروب پانی کی طرح وافر مقدار میں پیش کیا جاتا ہے ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں، ان حالات میں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ سندھ کی آزادی سے کیا فائدہ حاصل ہوا۔

محمد بن قاسم نے اپنے دشمنوں کے ہاتھوں قید کی صعوبتیں برداشت کیں اورآخر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔ چونکہ آج کے مسلمانوں میں ان مسلمانوں جیسی شان اور آن بان ہرگز نہیں رہی ہے نہ دینی حمیت ہے اور نہ قومی غیرت، احساسات سے عاری وہ پیسوں کی خاطر اپنے ضمیر کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں، خوف خدا سے ان کے دل خالی ہیں، اپنی موت کو بھول چکے ہیں کہ ایک دن انھیں بھی قبر کی تاریکی میں اترنا ہوگا اور قبر کا حال کیا ہوگا کہ یہ مرنیوالے کے اعمال پر منحصر ہے کہ اس نے دنیا میں آکر لوگوں کی خدمت کی ہے یا ان کی زندگی کو ان سے چھین لیا، اس کی اولاد کو سر راہ مار دیا گیا، گھروں کو لوٹ لیا گیا، اب ہر شخص بے آسرا و بے سہارا ہے۔ سوائے چند لوگوں کے جن کے پاس طاقت اور اختیارات ہیں لیکن کب تک اللہ کی رسّی ڈھیلی رہ سکے گی؟

سندھ کی سرزمین کو بڑے اعزازات و مراتب حاصل ہیں ، بزرگان دین نے اپنے علم کے ذریعے لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کی کوشش کی ہے، تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا ہے اور مخلوق خدا کی خدمت کی ہے سندھ کے صوفیاء کرام میں حضرت سچل سرمست کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

حضرت سچل سرمست 1170ھ درازن (خیرپور) میں پیدا ہوئے اور 1412ھ درازن ہی میں وفات پائی۔ آپ کا اصل نام عبدالوہاب تھا، لیکن اپنے تقویٰ اور علم و معرفت کی بدولت ’’سچل سرمست‘‘ کے نام سے شہرت دوام حاصل کی۔ سندھی زبان کے علاوہ آپ کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے، فارسی، پنجابی، ہندی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ 6 سال کی عمر میں یتیم ہوئے، میاں صلاح الدین کے انتقال کے بعد محترم چچا میاں عبدالحق نے اپنی سرپرستی میں لے لیا، اس بات پر تمام تذکرہ نگار متفق ہیں کہ آپؒ نے چودہ سال کی عمر میں عربی و فارسی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا تھا۔

باطنی علوم کے لیے میاں عبدالحق سے استفادہ کیا، ایک بار یوں ہوا کہ سندھ کے مشہور صوفی بزرگ میاں عبدالحق سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے، حضرت سچل سرمست پر نگاہ پڑی، دیکھا تو ان کے پیروں میں گھنگھرو بندھے ہوئے تھے، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے انھیں اپنے پاس بلایا، دست شفقت پھیرا اور فرمایا کہ ہم نے معرفت الٰہی کی لذت دل میں حاصل کی ہے اور جو دیگ ہم نے پکائی ہے اس کا ڈھکن سچل ہی اتاریں گے۔ روایت ہے کہ حضرت سچل سرمست برسوں ویرانوں اور جنگلوں میں پھرتے رہے، اس دوران آپ عبادت و ریاضت میں مشغول رہے، تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ لوگ انھیں حضرت منصور حلاج کے نام سے پکارنے لگے یعنی منصور آخر الزماں۔ حضرت سچل سرمستؒ دنیا کی رنگینیوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔

شریعت پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے جب کیف و جذب کی حالت ہوتی تو آپ یک تارہ بجا کر گانے لگتے، ہوش میں آنے کے بعد پرسوز لہجے میں فرماتے کہ ’’وہ میری مستی کا عالم ہوتا ہے، میں نہیں جانتا کہ کیا کہتا ہوں اور کیا کرتا ہوں۔‘‘ اسی وقت انھوں نے اپنا بہت سا کلام دریا میں غرق کردیا، کسی مرید نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا پتہ نہیں لوگ میری بات کا کیا مطلب سمجھیں؟ پھر سیدھے راستے سے بھٹک جائیں۔ مرزا قلیچ بیگ کے مطابق آپؒ نے 9 لاکھ 36 ہزار 6 سو کے قریب اشعار تخلیق کیے، انھیں سندھی زبان میں مرثیے کا بانی بھی کہا جاتا ہے، سچل سرمست کی بیس تصانیف کی نشاندہی تحقیق نگاروں نے کی ہے۔ آپ کی کتابوں میں (1) کافی اور دوہے، (2) رازنامہ، (3)وحدت نامہ ، رہبر نامہ اور غزلیات اردو وغیرہ بے حد مشہور ہیں۔

حضرت سچل سرمست کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق تھا، فرماتے ہیں:

’’سید المرسلین نے میرے حال پر لطف فرمایا اور مجھے عاشقوں کی جماعت میں شامل کردیا۔ وحدت کے راز سے مجھے آگاہ کیا، پہلے میں ایک گداگر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے شاہ بنادیا۔‘‘ ہزاروں لوگ سچل سرمست کے کرشموں اور روحانی علوم کو دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

سندھ کی زمین کو بزرگان دین نے اپنے عمل و کردار سے علم کی روشنی بخشی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ امن و آشتی کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ لیکن آج حالات بے حد سنگین ہیں، جنگل کے درندے شہر میں آگئے ہیں، لوگوں کو چیرنے پھاڑنے کا عمل جاری ہے، بھتہ خوری نے تباہی مچائی ہوئی ہے، بھتہ نہ دینے پر فائرنگ اور بم دھماکے کیے جارہے ہیں، لوگ اب عزت کے ساتھ رزق حلال بھی نہیں کماسکتے ہیں۔ بھتہ خور اپنے مشن پر نکلے ہوئے ہیں، انھوں نے ڈاکٹر فوزیہ کو دھمکی دی ہے اور لفافے میں پستول کی گولی ڈال کر بھیجی ہے۔ گویا اس موقعے پر یہی کہا جاسکتا ہے انسانیت دم توڑ گئی ہے۔

غمزدہ انسان پر مزید غموں کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، کراچی جل رہا ہے، حکمراں نیرو بنے ہوئے ہیں۔ کوئی مددگار اور کوئی پرسان حال نہیں، سوائے توبہ اور اپنے آپ کو انفرادی طور پر بدلنے کی ضرورت ہے چونکہ جو بظاہر نیک ہیں تو وہ دوسرے امور میں اللہ کو ناراض کردیتے ہیں، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نے پالن ہارکو ناراض کردیا ہے۔ اب اسے منانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔