گھروں سے بھاگنے والی لڑکیاں

رئیس فاطمہ  اتوار 30 اکتوبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں کراچی کے ایک گنجان آبادی والے علاقے ملیر سعود آباد سے نویں جماعت کی تین طالبات کے گھروں سے فرار ہونے کا واقعہ تشویشناک تھا۔ لیکن ڈی آئی جی، سی آئی اے ڈاکٹر جمیل احمد اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے تینوں طالبات بازیاب تو ہو گئیں۔ اپنے اپنے گھروں کو بھی واپس پہنچ گئیں لیکن یہ واقعہ جس طرح پیش آیا اور اپنے اختتام کو پہنچا وہ اتنا سادہ نہیں جتنا ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ڈی آئی جی  کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا تو زیادتی ہو گی۔ ڈاکٹر جمیل احمد واقعی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کی بروقت کوششوں سے تینوں لڑکیاں تباہ ہونے سے تو بچ گئیں لیکن ہزاروں سوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں چھوڑ گئیں۔ ہو سکتا ہے والدین اور طالبات کے مستقبل کے پیش نظر صرف والدین کی لڑائیاں اور ناروا رویے کو سامنے لایا گیا ہو۔ اسی لیے آج میں ایک بار پھر اپنی بات دہراؤں گی کہ ایسے ہولناک واقعات کا ذمے ٹی وی ڈرامے اور سوشل میڈیا ہے۔

پہلے ذرا اس واقعے کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ خبر آئی کہ ملیر سعود آباد کی نویں جماعت کی تین طالبات اغوا ہو گئی ہیں۔ جس کی اطلاع متعلقہ تھانے کو دی گئی اور اغوا کا پرچہ کٹوایا گیا۔ خبر سے لگتا تھا کہ تینوں لڑکیاں ایک ہی گھر کی ہیں، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نہیں وہ طالبات تو جماعت نہم کی ہیں، لیکن گھر الگ الگ ہیں۔ البتہ فرار تینوں لڑکیاں ساتھ ہوئی تھیں۔ لڑکیوں کی عمر کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔

یہ کوئی کلیہ نہیں ہے کہ عمر کا اندازہ تعلیمی لحاظ سے لگایا جائے۔ ضروری نہیں کہ نویں جماعت کی طالبات لازماً چودہ پندرہ سال سے زائد کی نہ ہوں۔ کیونکہ اپنے تعلیمی کیریئر اور جاب کے دوران اس حوالے سے بڑے دلچسپ اور حیرت انگیز انکشافات ہم پر ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی کی عمر میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں دس سال کم لکھی ہوئی تھی، کیونکہ ان کا تعلق ایک پس ماندہ علاقے سے تھا۔ لہٰذا جب انھوں نے میٹرک کیا تو ان کی ان پڑھ لیکن جہاں دیدہ والدہ محترمہ نے بیٹے کی عمر 25 سال کے بجائے پندرہ سال لکھوائی، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی ملازمت پلیٹ میں رکھی ہوئی ملے گی۔

ایک خاتون جو نانی دادی بن چکی تھیں چہرے مہرے سے 70 سے اوپر کی لگتی تھیں وہ اپنی جونیئر کولیگ سے بھی بعد میں ریٹائر ہوئیں۔ ایک اور صاحب جو کیمسٹری کے پروفیسر تھے بال اور بھنوئیں بہت پہلے سفید ہو چکی تھیں چار شادیاں کر چکے تھے۔ وہ بھی اس معاملے میں خوش نصیب تھے۔ 70 سے اوپر انھیں ریٹائرمنٹ ملی۔

ایک اور خاتون جو ایک چھوٹے سے قصبے کی رہنے والی تھیں ان میں خود اتنی سمجھ تھی کہ اپنا میٹرک کا انرولمنٹ فارم بھرتے وقت دس سال سے زیادہ کا گھپلا کر دیا۔ پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے کہ اصل عمر کی تصدیق کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر اور آئی اسپیشلسٹ سے مدد لی جائے۔ اس ملک میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض پروفیسرز نے متعلقہ حکام اور متعلقہ ڈاکٹرز سے مل کر انھیں رشوت دے کر یہ کہہ کر اپنی عمر کم کروا لی کہ غلطی سے زیادہ لکھ دی گئی ہے۔

لہٰذا ہمیں نہیں پتہ کہ تینوں لڑکیوں کی اصل عمر کیا ہے۔ لیکن بعد میں جب اس واقعے کی تفصیل اخبارات میں آئی اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ ’’گھریلو ظلم سے پریشان ہو کر طالبات گھروں سے گئی تھیں۔ انھیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا‘‘ یہ گھریلو ظلم تھا کیا؟ جس نے تینوں لڑکیوں کو گھر سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ تفصیل پڑھنے پر ہنسی آتی ہے۔ ایک لڑکی اس لیے بھاگی کہ اس کے والدین روز آپس میں لڑتے تھے۔ دوسری نے یوں گل افشانی کی کہ اس کے والد نے دوسری شادی کر لی تھی۔ وہ باپ سے نفرت کرتی تھی لیکن سگی ماں اسے باپ کے پاس بھیجنے پر بضد تھی۔ تیسری نے فرارکی جو وجہ بتائی وہ یہ تھی کہ اس کے والدین اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔

موبائل پر لڑکوں کے میسج آنے پر اس سے باز پرس کرتے تھے اور اسے مارتے پیٹتے بھی تھے۔ لہٰذا تینوں لڑکیوں نے آپس میں صلاح کی اور بلوچستان فرار ہونے کی منصوبہ بندی کی اور اسکول بیگ میں کپڑے اور ضروری سامان رکھ کر بلوچستان کے لیے نکل پڑیں۔ لیکن جب رکشے میں سعید آباد موچکو کے علاقے میں پہنچیں تو وہاں کے ماحول سے خوفزدہ ہو کر کینٹ اسٹیشن آ گئیں، لیکن کراچی سے اندرون ملک جانے والی کوئی ٹرین دستیاب نہیں ہوئی تو کسی نے انھیں بتایا کہ جناح اسپتال کے قریب کسی ہوٹل میں رہنے کے لیے کمرہ کرائے پر مل جائے گا۔

تینوں لڑکیاں بے خوف و خطر جناح اسپتال پہنچ گئیں۔ جہاں اچانک ایک نوجوان نے ان کو پریشان دیکھ کر اپنا فون نمبر لکھ کر ان کے آگے پھینک دیا۔ پھر یہ لڑکیاں ایک نوجوان کے گھر سے بازیاب ہوئیں اور یقیناً اب اپنے گھر میں بیٹھی کوئی نئی ترکیب سوچ رہی ہوں گی۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں جہاں پختہ عمر کی خواتین مغرب کے بعد کہیں بھی اکیلے جانے کی ہمت نہیں رکھتیں، کسی اجنبی جگہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں، وہاں یہ تینوں لڑکیاں نہایت دیدہ دلیری سے اجنبی راستوں کا سفر کرتی رہیں۔ پولیس نے کئی نوجوانوں سے موبائل پر ان لڑکیوں کے رابطے بھی پکڑے اور بالآخر یہ دستیاب بھی موبائل فون کی لوکیشن سے ہوئیں۔

اب ذرا ان کے فرار ہونے کی وجوہات پہ نظر ڈالیں تو وہ بہت بودی اورکمزور ہیں۔ ماں باپ اگر موبائل چیک کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور انھیں کرنا بھی چاہیے۔ کبھی غورکریں تو 70 فیصد  جرائم کے پیچھے یہی موبائل فون کلچر ہے۔ موبائل فون اب سوسائٹی کے حلق کی چھچھوندر بن گیا ہے، نہ نگلے بنے نہ اُگلے بنے۔ تازہ ہوا میں سانس لینا اتنا ضروری نہیں جتنا موبائل ہاتھ میں ہونا ہے۔

میرا تعلق چونکہ شعبہ تعلیم سے رہا ہے لہٰذا میں وثوق سے کہتی ہوں کہ نوجوان نسل کے اخلاقی بگاڑ کا باعث سب سے زیادہ موبائل فون رہا ہے۔ ماں باپ خود بارہ بارہ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو موبائل خرید کر دیتے ہیں، اب اس کا تدارک بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ جب انسان کسی نشے کا شکار ہو جائے تو اس کے مضمرات پہ غور نہیں کرتا۔ میں نے برسوں پہلے بھی کئی کالم اس وبا کے بارے میں لکھے تھے کہ کالجوں میں جب طالبات کے موبائل چیک کیے جاتے تو ہولناک انکشافات سامنے آتے تھے، لیکن ماؤں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ اس طرح ان کی بیٹی خود ہی رشتہ تلاش کر لے گی۔

کیا قارئین نے خود غور نہیں کیا کہ ہر ڈرامے میں لڑکیوں کو والدین سے بغاوت کرتے دکھایا جاتا ہے۔ لڑکیاں ماں باپ کو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ اور بے وقوف سمجھتی ہیں۔ بدتمیزی سے بات کرنا جیسے ان کا حق ہو۔ دوسرے ہر شادی شدہ عورت کا تعلق کسی نہ کسی دوسرے مرد سے ضرور ہے۔ کبھی وہ سابقہ عاشق ہوتا ہے اور کبھی منگیتر۔ اسی طرح شادی شدہ مردوں کے تعلقات دوسری شادی شدہ عورتوں اور اپنی سیکریٹری سے ضرور ہوتے ہیں، ہر ڈرامے میں ترغیبات کی بھرمار ہے۔

کہیں غربت سے چھٹکارے کی، کہیں امارت کے جلوے دکھا کر احساس کمتری اور احساس محرومی پیدا کر کے۔ کہیں نوجوانوں کو گھیرنے کے، کہیں تعلیمی اداروں کو لیلیٰ مجنوں کا تھیٹر بنانے کے۔ کہیں شوہر کے ساتھ بدتمیزی کرنے اور نخرے اٹھوانے کے تو کہیں انھیں بے عزت کرنے کے، کہیں داماد پہ جوتی اٹھانے کے اور کہیں بہوؤں کو اپنی سسرال سے بدظن کرنے کے طریقے۔ پتہ نہیں نام نہاد لکھاریوں کی جو کھیپ سامنے آ رہی ہے اور ڈائریکٹر پروڈیوسر کے غیر اخلاقی مطالبات کا عکس جو ڈراموں میں نظر آتا ہے وہ نوجوان نسل کو کہاں لے جائے گا۔

شہرت اور پیسے کے جنون میں مبتلا اداکارائیں ڈائریکٹر کی ہر بات کو حکم خداوندی سمجھتی ہیں۔ کب دوپٹہ ڈھلکانا ہے، کب کیمرے کے سامنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر جسم کی نمائش کرنی ہے، کب گھر سے بھاگنا ہے، غرض کیا کیا لکھوں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان ہر حال میں خربوزے کا ہی ہونا ہے۔ خواہ ’’حلالہ‘‘ والا معاملہ ہو یا گھروں سے بھاگنے والا۔ میری بات یاد رکھیے گا کہ صرف دو تین سال کے اندر اندر پاکستانی معاشرے سے دوپٹہ، شلوار قمیض غائب ہو جائے گا اور لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے سے والدین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ہم بے راہ روی کی ڈھلان پہ سفرکر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔