وہ آنسو جو آنکھ سے ٹپکا ہی نہیں…

شیریں حیدر  اتوار 16 دسمبر 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

صبح سویرے اٹھ کر حسب معمول ٹیلی وژن آن کیا تو خبروں کا ایک مشہور امریکی چینل بریکنگ نیوز کے طور پر کنکٹی کٹ میں ایک جونئیر اسکول میں ہونیوالے فائرنگ کے واقعے کی خبر نشر کر رہا تھا… بیس سالہ ایک نوجوان نے کنکٹی کٹ کے ایک اسکول میں فائرنگ کر کے بیس نئے نئے شگوفوں چند اساتذہ اور پرنسپل کو ہلاک کر دیا اور خود بھی اسی دوران مارا گیا… ایک کنڈر گارٹن کی ہیڈ مسٹرس ہونے کے باعث، میں نے اس المیے کی شدت کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکی۔ میں جانتی ہوں کہ یہ ننھے ننھے بچے جب ہر روز صبح کو اسکول کے داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی ماؤں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں اور انھیں واپس جانے نہیں دیتے، یہ ان کی زندگی کا پہلا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب وہ اپنی ماؤں سے detatch ہوتے ہیں اور مائیں ان سے پہلی دفعہ جدا ہو رہی ہوتی ہیں۔

چھٹی کے وقت منظر اور بھی دلچسپ ہوتا ہے جب  ہم بچوں کو قطار بنانا سکھاتے ہیں اور وہ اپنے بیگ اٹھا کر ایک نظم کے ساتھ باہر آتے ہیں اور باہر انتظار کرنے کی جگہ پر رکھے بنچوں پر وہ اپنے بیگ گود میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، ٹیچر کی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ وہ اسی طرح بیٹھے رہیں اور اپنے والدین کو وہاں تک آ نے دیں اور کوئی بچہ ٹیچر کو بتائے بغیر یہاں سے نہیں اٹھے گا…انتہائی ڈسپلن کے ساتھ بیٹھے ہوئے بچے ماؤں اور باپوں کی ایک جھلک دیکھتے ہی سب ہدایات بھول بھال کر بھاگ کر اپنے والدین کو جا کر لپٹ جاتے ہیں اور مائیں اپنے چار گھنٹے کے بچھڑے ہوئے بچے کو لپٹا کر بوسوں کی بارش کر دیتی ہیں۔

اتنے چھوٹے بچوں کو اسکول بھیجنا، اسکولوں اور اسکولوں کی انتظامیہ پر بھروسے اور اعتماد کا مظہر ہوتا ہے اور اسکولوں کی انتظامیہ اس اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے… میں نے چشم تصور سے ان مناظر کو دیکھا کہ کس طرح ان ماؤں نے اس واقعے کے بعد آ کر اپنے بچوں کو گلے لگانے کے بجائے ان کے بے جان جسم دیکھے ہوں گے، کس طرح انھیں اپنی بانھوں میں اٹھایا ہو گا مگر جواب میں انھیں اپنی گردن میں حمائل ننھے ننھے بازؤں کے بجائے اطراف میں لٹکتے ہوئے بازو ملے ہوں گے اور لہو رنگ جسم…

ایک ماں اور ایک استاد اس المیے کو محسوس کر سکتی ہے مگر میرا دل اس وقت خوشی سے معمور ہو گیا جب میں نے دیکھا کہ خود صدر امریکا نے اسکرین پر نمودار ہو کر اپنی قوم کو مخاطب کیا اور ا س المیے کو ایک عظیم قومی نقصان قرار دیا اور ان خاندانوں کے غم میں خود کو شریک ٹھہرایا، پوری قوم کو شریک ٹھہرایا … اس دوران ان کی آنکھ بھر آئی اور انھوں نے اپنی انگلی سے آنکھ میں آنے والے اس آنسو کو روکا… انھوں نے اعلان کیا کہ اس سانحے کے باعث امریکی پرچم پانچ دن سرنگوں رہے گا!!!! یہ ہوتی ہے قوم، ایسے ہوتے ہیں ملک اور ایسے ہوتے ہیں اپنے عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے سربراہ!! وہ آنسو جو ان کی آنکھ سے ٹپکا ہی نہیں، جس کی چمک کسی نے نہیں دیکھی، اس ایک آنسو نے عوام کو ایک محبت کرنے والے صدر کی طرف سے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔

میرا دل اس سانحے کے بجائے اس بات پر ملول ہو گیا کہ ہم کیوں اتنے بد قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں ایک ہی ہلے میں بیس لوگوں کا جانا ایک انتہائی معمولی بات سمجھی جاتی ہے ا ور بیس لوگوں کی موت کو ہمارے ٹیلی وژن چینل فقط اتنی دیر تک بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے ہیں جب تک اکیس لوگوں کی موت کا باعث ہونے والا کوئی حادثہ نہ ہو جائے، خواہ وہ کسی بس کے الٹنے سے ہو، کسی ویگن یا بس میں پھٹنے والا گیس کا سلنڈر ہو، فائرنگ کا واقعہ، دو گروہوں میں تصادم، کوئٹہ میں کسی بس سے اتار کر مارے جانے والے پنجابی ہوں  یا کوئی بم دھماکا… یہ سب اتنے معمول کی بات لگتی ہے کہ ایسی خبریں سنتے وقت ہمارے منہ تک جاتا نوالہ بھی نہیں رکتا۔  کوئی کسی سانحے کی خبر سنائے تو ہم پوچھتے ہیں، ’’ اسکور کیا ہے؟‘‘  سو پچاس تک تو سب خیر ہے اور اگلے ہی لمحے ہم اپنے معمول کے کام کار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

بڑے بڑے سانحے بھی ہمارے سربراہوں کو عوام سے مخاطب کرنے کا باعث نہیں بنتے، حال ہی میں کراچی میں ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ، جس میں تین سو سے زائد لوگ جان سے گئے… مگر کیا ہوا، کتنے دن خبر میڈیا میں رہی؟ اور اب کون جانتا ہے کہ اس کے ذمے داروں کا کیا ہوا؟ اگلے روز ہونے والا ہوائی حادثہ ایک ایسی واردات ہے کہ جس کی کوئی تحقیقات ہمارے سامنے نہیں آئیں، کیونکہ اس کے ڈانڈے اقتدار کے اعلی ایوانوں تک جا پہنچتے تھے،  سیالکوٹ میں ہونے والا بربریت کا واقعہ جس کے وقوع کے وقت لوگ اسے روکنے کے بجائے ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے تا کہ انھیں یو ٹیوب پر ڈالا جا سکے… ظلم کرنے والا ہر چہرہ نمایاں ، مگر کیا ہوا ان مجرموں کا، کون جانتا ہے؟

امریکی شہری… ریمنڈ ڈیوس جوہمارے دو نوجوانوں کو سر عام گولیاں مار کر ہلاک کر دیتا ہے، مگر اسے دودھ میں گری مکھی کی طرح امریکا نکال کر لے جاتا ہے ، کیوں؟ کیا  جو مارے گئے وہ انسان نہ تھے؟ ہر روز ڈرون حملوں میں مجرموں اور مشتبہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کئی بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں، کیا ان کا کوئی مجرم ہے، ان کا لہو کس کے ہاتھوں پر تلاش ہو؟بڑے سے بڑا سانحہ بھی ہمارے حکمرانوں کو ان کے عالی شان محلوں سے باہر نہیں نکالتا، کسی معاملے میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا ( الٹا لوگوں کے منہ میں اپنی زبان ڈال کر بٹھا دیا جاتا ہے جو کہ ٹیلی وژن چینلوں پر بیٹھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم قوم ہی نہیں ہیں ، ہم تو بپھرے ہوئے گروہ ہیں) ڈرون حملوں کو امریکا کا حق سمجھا جاتا ہے، بم دھماکوں کو روکنے کا کوئی فارمولہ نہیں اس لیے اس پر صبر کے گھونٹ پی لیے جاتے ہیں،  ہلاک ہونے والوں کا عوضانہ لواحقین کو دے دیا جاتا ہے جو کہ ایک آدھ لاکھ تک ہوتا ہے۔

کیا یہ سب کافی ہے؟ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم پر ہمارے جیسے حکمران مسلط ہیں؟ ان کے دل کیا پسیجیں گے، لگتا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں ہی نہیں… ہر کوئی اس فکر میں ہے کہ وہ کتنے روز کے لیے اقتدار میں ہے اور اس کے پاس اپنے غیر ملکی اکاؤنٹ بھرنے کو کتنی مہلت ہے،  ہم ان لوگوں کو اپنے حکمرانوں کے طور پر منتخب کرتے ہیں ( واقعی کیا ہم منتخب کرتے ہیں یا ’’ بڑے ‘‘ ہمارے لیے یہ کام بھی کر لیتے ہیں، ہماری مشکل آسان کر دیتے ہیں اور قرعہ اس کے نام نکل آتا ہے جو ان کی ہدایات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کی حامی بھر لیتا ہے)۔  ہمارا پرچم تو مجھے یاد نہیں کہ 2005 کے زلزلے کے بعد بھی سرنگوں ہوا ہو گا!!!!

ہم مغربی ممالک کو اچھا سمجھتے ہیں اور ہر معاملے ( غلط معاملے )  میں ان کی تقلیدکرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ان کے ہاں کس طرح انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے… ( یاد رہے کہ اس انسان کا چٹی چمڑی والا ہونا اہم ہے) ، کس طرح ہر انسانی جان کی وقعت ہوتی ہے، یہ ہم نہیں سیکھتے اور نہ ہی ہمارے ہاں انسانی جان کا زیاں اہم سمجھا جاتا ہے، اتنا اہم کہ اس کے نقصان پر قومی پرچم بھی سرنگوں ہو جائے، ہونا بھی نہیں چاہیے کہ اگر ہم امریکا کی اس معاملے میں تقلید شروع کر دیں تو ہمارا پرچم سال کے تین سو پنسٹھ دن سرنگوں ہی رہے گا!!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔