ملکی ٹیلنٹ نظرانداز کیوں؟

شاہد سردار  اتوار 30 اکتوبر 2016

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ وطن عزیز میں سخت جدوجہد، تکالیف اٹھانے اور صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود خود کو نہ منوا پانے والے فنکاروں اور دیگر تخلیق کاروں یا ہنرمندوں کی ایک غالب اکثریت ایسی ہے جنھیں ان کے فن کے شایان شان ملک میں پذیرائی نہیں مل سکی تو وہ غیر ممالک بالخصوص پڑوسی ملک بھارت میں زبردست کارہائے نمایاں سر انجام دے کر بین الاقوامی افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکے۔ ایسے ہی جواہر قابل میں موسیقار اورگلوکار عدنان سمیع خان (جنھیں دنیا کے تیز ترین وائلن نواز ہونے کا ورلڈ ریکارڈ بھی حاصل بھی ہے) انھیں گزشتہ سالوں میں بھارتی حکومت نے شہرت دے دی۔ اسی طرح مشہور گلوکارہ و اداکارہ سلمیٰ آغا کو بھی حال ہی میں بھارتی حکومت نے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا کا کارڈ جاری کردیا ہے۔

معروف ادبی شخصیت قرۃ العین حیدر جن کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کو عالمی ادب میں فن پارے کی سی حیثیت حاصل ہے وہ 1947 میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آئیں، اس کے بعد وہ برطانیہ سے بھارت چلی گئیں اور تامرگ وہ وہیں رہیں۔ اسی طرح پٹیالہ گھرانے کے عظیم گلوکار استاد بڑے غلام علی خاں قصور میں پیدا ہوئے، اس دورکے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر زیڈ اے بخاری نے انھیں کسی لائق نہ سمجھا تو وہ دل برداشتہ ہو کر بھارت چلے گئے اور انھوں نے بھارتی شہریت حاصل کرلی۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ شاعر ساحر لدھیانوی نے بھی نئی دہلی کا انتخاب کیا، بھارتی شہریت حاصل کرنے والی ایک اور اداکارہ بیگم پارہ بھی تھیں۔

غور طلب اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے اہل فن ملک پاکستان کی مٹی سے پیدا ہوکر اپنے اپنے شعبوں میں یکتا ہونے کے باوجود وطن عزیز کے جوہریوں کی کسوٹی پرکیوں کر پورا نہیں اتر پاتے۔ ریشماں ہوں یا غلام علی، نصرت فتح علی خاں ہوں یا راحت فتح علی خاں، عاطف اسلم ہوں یا علی ظفر یا پھر عدنان سمیع یہ سبھی کے سبھی دیار غیر سے ہی کیوں شہرت بلکہ بین الاقوامی شہرت کے افق پر جاکر چمکے؟تو اس کا جواب وہ  سچ ہے جو ہمیں آپ اور سبھی کو پتا ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ حیات پر ابن الوقت، مطلب برار، نااہل اورمنافق لوگوں کی اجارہ داری چلی آرہی ہے۔ جو اچھے اور ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کو دبانے، مارنے یا بڑی حد تک انھیں نظرانداز کرنے میں مکمل مہارت کے حامل چلے آرہے ہیں۔

ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن کو متعدد بار بھارت نے بڑی فراخ دلی سے شہریت دینے اور فری علاج معالجے کی پیش کش کی لیکن انھوں نے وطن عزیز اور اس کے وقار کا ہمیشہ پاس رکھا،مگر بدلے میں ہم اور ہمارے ثقافتی اداروں نے ان کے ساتھ ان کے فن کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ اردو  افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ساتھ سرکاری اور ثقافتی سطح پر کس قدر زیادتی کی گئی اور یہ بے بدل افسانہ نگار سیکڑوں یادگار یا ناقابل فراموش کہانیاں یا افسانے اردو ادب کو دے کر خون تھوک تھوک کر کسمپرسی کے عالم میں لاہور میں وفات پاگیا۔

ساغر صدیقی جیسا عظیم شاعر بھی اہل فن کی عدم توجہی کے باعث مرگیا، احمد فرازکے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ یہ وہ نابغہ روزگار  فنکار تھیں جنھیں متعدد بار بھارتی حکومت نے شہریت کی آفر کی لیکن ان غیور اور محب وطن لوگوں نے کبھی اس پیش کش کی طرف آنکھ تک اٹھا کر نہ دیکھا۔ اب جب کہ پاکستان عدنان سمیع اور سلمیٰ آغا کی شکلوں میں پھر اچھے ٹیلنٹ سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے تو ہمیں اپنی آنکھیں اب پوری طرح کھول لینی چاہئیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شوبز کی دنیا ابتدا ہی سے بڑی خودغرض واقع ہوئی ہے اور بلا شبہ یہ عجیب ہی دنیا ہے جہاں کوئی کسی کے انتظار میں نہیں رہتا اور نہ ہی یہاں کسی کی کمی محسوس کی جاتی ہے، یہاں جگہ بنانے کے لیے مدتوں کوشش کرنی پڑتی ہے لیکن کوشش کے باوجود بھی بیشتر ہنرمندوں کو جگہ نہیں مل پاتی۔

ایسے میں جو لوگ اپنا تن من دھن اور شب و روزکی جان توڑ محنت کے بعد پذیرائی اور توجہ کے سمندرکے کنارے نمودار ہوں تو یہ اپنی جگہ بہت مستحسن اقدام سمجھا جانا چاہیے۔ لیکن کیا ہے کہ ہم سوائے اپنی ذات کے دوسرے وجود کو ماننے کے لیے ذرا تیار نہیں ہوتے۔ ہماری اجتماعی کم علمی، لاعلمی، دقیانوسی ذہنیت جواہر قابل کو ناقدری کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے کاش اس کا ادراک کسی کو ہو پاتا؟

ہم آخر کب یہ سوچیں گے کہ وہ کیا وجہ ہے کہ ہم ہنرمند، باصلاحیت اور ہشت پہلو شخصیات کو مٹی میں رول دینے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم اس قدر سفاک، تنگ نظر اور دقیانوسی کیوں کر ہوگئے ہیں اور اگر ہو بھی گئے ہیں تو یہ عادت بدعت ترک کیوں نہیں کردیتے؟ یہ بتانے اور جتانے کی بھی اب چنداں ضرورت نہیں رہی کہ پوری دنیا اب ایک گلوبل ولیج کا روپ دھار چکی ہے۔

اب الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور نیٹ وغیرہ نے ہوشربا ترقی اور وسعت حاصل کرلی ہے۔ اب کسی بھی ٹیلنٹ کو دبانا یا چھپانا دیوانے کے خواب سے ہی تعبیرکیا جانا کہلائے گا۔ لہٰذا ہم اپنے ثقافتی کرتا دھرتاؤں، ثقافت سے وابستہ اداروں سے بڑی عاجزی سے یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ اب ملک پاکستان سے اس قبیح فعل کے خاتمے کا انتظام و اہتمام کر ہی لیں تو یہ ملک کے لیے اچھا امر ثابت ہوگا۔

ہمارے ہاں فلم جیسے موثر اور بہت ہی بڑے میڈیم کے زوال پذیر ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اول تو اس میں بہتری لانے کی کوششیں ہی نہیں کی گئیں، دوسرے نئے اور باصلاحیت لوگوں کو اس سے متعارف کرانے میں کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا، پہلے سے موجود دقیانوسی ذہنیت کے حامل لوگوں کی مناپلی  نے اتنے عظیم میڈیا کو پستی اور زوال سے دوچار کردیا۔

اگر ہمارے سینئر اور ماضی کے جغادری فلم میکرز صدق دل بلکہ کھلے دل کے ساتھ صلاحیت مند لوگوں کو آگے لاتے رہتے تو آج ہماری فلمی صنعت اور ہماری فلمیں بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی اہمیت کو منوا سکتی تھیں لیکن افسوس رجعت پسندی، اقربا پروری اور گروپ بندی نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ وقت اور حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ باصلاحیت نوجوان یا نیوٹیلنٹ ہی پاکستان فلم انڈسٹری کو بین الاقوامی مارکیٹ تک لے جاسکتے ہیں۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ معاشرے میں حقیقت پسند، بالغ نظر اور شائستہ مزاج کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی جو بالعموم ڈھٹائی، ہٹ دھرمی اور تند مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مہذب ملکوں میں پہلی قسم کے انسان اکثریت میں ہوتے ہیں اورغیر متوازن سوسائٹیوں میں زیادہ تر ہٹ دھرم لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ علم و ادب، شاعری، ثقافت، آرٹ اور تہذیب سے رویوں میں شائستگی آتی ہے اورایک دوسرے کی طبیعت سمجھنے اور قرینے سے اسے سلجھانے کا سلیقہ پرورش پاتا ہے۔

اس کے برعکس جو معاشرہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے سائے میں پرورش پاتا ہے اس میں تعصبات بہت ہوتے ہیں، کج بختی کے مناظر قدم قدم پر دیکھنے میں آتے ہیں اور ہٹ دھرمی، حقیقتوں سے چشم پوشی اور دوسروں کو کمتر یا حقیر سمجھنے کی عادت فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، افسوس صد افسوس گزشتہ طویل برسوں سے پاکستان اور اہل پاکستان کو بیرونی ہٹ دھرمیوں سے بھی واسطہ پڑا اور اندرونی ضدیوں اور لال بجھکڑوں سے بھی۔ کاش ہمارے ارباب اختیار یہ جان سکیں کہ اندھیرے کی سب سے بھیانک قسم منفی سوچ ہے جو امید کے ہر چراغ کو بجھا دیتی ہے اور انھوں نے اب تک ہزاروں ایسے چراغ گل کردیے ہیں جس کی وجہ سے تاریکی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔