احتساب تحریک

عابد محمود عزام  اتوار 30 اکتوبر 2016

یہ بات بالکل بجا کہ عمران خان کا مطالبہ درست، لیکن طریقہ کارغلط ہے۔ اسلام آباد کو بندکرنے کی دھمکی تشویشناک ہے۔ وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کرکے کاروبار زندگی معطل، شہریوں کی زندگی اجیرن اور حکومت مفلوج کردینے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں ہے، لیکن عمران خان تمام تر مخالفت کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہوئے ہیں اور نہایت تندہی سے احتجاج اور دھرنے کی کامیابی کے لیے مصروف عمل ہیں۔

انھوں نے ہر چیز کو داؤ پر لگا دیا ہے، اگر وہ لوگوں کی بڑی تعداد کو اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوگئے تو حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ اْن کی حتمی ناکامی ہوگی اور اگر عمران خان اورحکومت کی چپقلش کے نتیجے میں جمہوری عمل ایک مرتبہ پھر انتشار کا شکار ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری عمران خان سے زیادہ حکومت پر عاید ہوگی،کیونکہ عمران خان کو احتجاج کرنے کا جواز خود حکومت نے فراہم کیا ہے۔

حکمران خود کو احتساب کے لیے پیش کرکے عمران خان کے دھرنے کا جواز ختم کرسکتے ہیں، اگر حکومت اس معاملے کو ختم کرنا چاہے تو ایک دن میں کرسکتی ہے، لیکن وہ خود کو بچا کر پاناما لیکس کے معاملے کو دفن کرنا چاہتی ہے، حالانکہ اگر وزیراعظم کا ’’دامن‘‘ صاف ہے تو انھیں ’’بلا توقف‘‘ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دینا چاہیے۔

جمہوری ممالک میں اگر کسی وزیراعظم پر الزام لگ جائے تو اس کے پاس ’’عہدے‘‘ پر رہنے کا کوئی اخلاقی ’’جواز‘‘ باقی نہیں رہتا۔ کئی ممالک کے وزرائے اعظم نے پاناما لیکس کے سلسلے میں لگنے والے الزامات کی وجہ سے استعفا دیا بھی ہے۔پاناما پیپرز نے ٹیکس سے بچنے اورکرپشن کا پیسہ چھپانے کے مفصل اور باریک منصوبوں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے، جس کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ دولت آف شور کمپنیوں میں لگانے کا مقصد ٹیکس بچانا ہے، جو ہر صورت قابل گرفت فعل ہے۔

حکومت عمران خان کے احتجاج اور دھرنے کو بلاجواز قرار دے کر کارروائی کر رہی ہے، گرفتاریاں ہورہی ہیں، پر تشدد واقعات کے باعث کچھ بھی ہوسکتا ہے تاہم اگر حکمران سچے ہیں تو خود کو بلا تاخیر احتساب کے لیے پیش کردیں تاکہ کوئی احتجاج اور دھرنا نہ ہو، لیکن اگر وہ سچے نہیں ہیں تو حکمرانوں کی بدعنوانی کے خلاف بولنا اور احتجاج کرنا صرف عمران خان ہی نہیں، بلکہ قوم کے ہر فرد کا حق ہے، جسے روکنے کا حکومت کو کوئی حق نہیں ہے۔

حکومت پاناما پیپرز میں شریف فیملی کے ارکان کے نام آنے کے بعد سے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ اپنی صفائی دینے کے لیے میاں نوازشریف نے قوم کے سامنے اس الزام کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن خود کو بچانے کے لیے خود حکومت ایسا کمیشن بننے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ پھر جان بوجھ کر اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جایا گیا۔ عمران خان نے وہاں بھی وزیر اعظم کے احتساب کی تحریک شروع کی، لیکن جہاں سیاست دانوں کی اکثریت ایک دوسرے کے مفادات کی محافظ بنی ہوئی ہو، وہاں احتساب کی تحریک کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟

یہ کہنا بے سود ہے کہ حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور سسٹم کی اصلاح کے لیے آواز اٹھانے کا مجاز فورم پارلیمنٹ ہے، لہٰذا عمران خان سارے معاملات کو متعلقہ فورم پارلیمنٹ میں ہی ڈسکس کریں، لیکن اس فورم پر انصاف ملنے کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے، جہاں اکثریت کو اپنے مفادات عزیز ہیں اوراپنے مفادات کی خاطر اکثریت حکومت کے حق میں بول رہی ہے۔

اب تک کتنے سیاست دان حکمرانوں کی کرپشن کو منظر عام پر لائے ہیں؟ کتنے ہیں جو پاناما لیکس کے ہنگامے میں حکومت کی کرپشن کے خلاف بولے ہیں؟ حکومتی ارکان تو حکمرانوں کا ساتھ دے ہی رہے ہیں، اپوزیشن جماعتیں بھی حکمران جماعت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ ایسے حالات میں پارلیمنٹ سے سسٹم کی اصلاح اور سب کے احتساب کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ اگر کوئی احتساب کی آواز اٹھاتا ہے تو ملک اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

یہ منطق عجیب ہے۔ ملک کی دولت کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کیے جاؤ۔ قوم کی دولت سے بیرون ملک اپنی جائیداد بنائے جاؤ۔ عوام کو سہولیات زندگی سے محروم کیے رکھو، میرٹ کو بری طرح پامال کیے جاؤ، جی بھر کے کرپشن کیے جاؤ،اقربا پروری کو فروغ دیے جاؤ، عوام کو بے روزگاری، مہنگائی،غربت، لوڈشیڈنگ، بدامنی اور بے تحاشا بے جا ٹیکسوں کے عذاب میں مبتلا کیے رکھو۔ ملک، جمہوریت اور قوم کوکوئی خطرہ نہیں، لیکن اگر کوئی حکومت سے احتساب کا مطالبہ کر لے، قوم کی دولت کا حساب مانگ لے اور عوام کے حق میں آواز بلند کرے تو صرف حکومت کو نہیں، بلکہ جمہوریت، قوم اور وطن کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور حکومت سے احتساب کا مطالبہ کرنے والا وطن عزیز اور وطن کی ترقی و خوشحالی کا دشمن گردانا جاتا ہے۔

حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو احتجاج چھوڑکر سپریم کورٹ کا فورم استعمال کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کی کرپشن کا فیصلہ سپریم کورٹ جیسے کسی فورم پر ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ہے۔ سماعت کی تاریخ یکم نومبر مقرر کی گئی ہے۔ عمران خان بھی دیگر لوگوں کی طرح سپریم کورٹ پر اعتماد کر کے فیصلے کا انتظار کرتے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسا نظام جس میں دادا کے زمانے کے کیسوں کا فیصلہ پوتے کی زندگی میں ہوتا ہے۔ کیا ایسا سسٹم حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کردے گا؟ مجھے نہیں لگتا ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ یہاں غریب کے لیے تو قانون فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے، لیکن امیروں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں انصاف کی فراہمی کی حالت تو آپ سب نے گزشتہ دنوں ملاحظہ فرما ہی لی ہوگی، جب 19 سال بعد ایک ایسے شخص کی بے گناہی ثابت کر کے اسے باعزت بری کیا گیا، جو کہ اپنی بے گناہی ثابت ہونے سے دو سال قبل فوت بھی ہوچکا تھا۔دو بھائی چند روز پہلے قتل کے مقدمہ سے بری کیے گئے مگر انھیں پہلے ہی پھانسی دی جاچکی تھی۔

جب بھی کوئی حکومت کی کرپشن کو منظر عام پر لانے کی بات کرتا ہے تو حکومت کو احتجاج کے پس پردہ کوئی اور قوت نظر آنے لگتی ہے، لیکن حکومت نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ قوت ہے کون اورکہاں ہے۔ دو سال پہلے جب تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا تواس وقت وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ وہ عنقریب اس احتجاج اور دھرنے کے مقاصد قوم کے سامنے لائیں گے، لیکن آج تک انھوں نے اس پر کوئی لب کشائی نہیں کی۔

پاناما لیکس کے بعد بھی ان کا یہی کہنا تھا کہ وہ سب جانتے ہیں کہ پاناما پیپرزکی آڑ میں کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن وہ راز بھی آج تک ان کے سینے میں ہی دفن ہے۔ جب حکومت خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار ہی نہیں ہے تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کریں اور سسٹم کی اصلاح کے لیے آواز بلند کریں۔ پاناما لیکس کی بنیاد پر حکومت پر جو الزامات لگے ہیں،ان کی بھی لازماً تحقیقات ہونی چاہئیں جن کے درست ثابت ہونے کی صورت میں حکمرانوں کا اپنے منصب پر فائز رہنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔