لہو سے دستخط

مقتدا منصور  پير 31 اکتوبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ایک بار پھر کوئٹہ خون میںنہلا دیا گیا۔ 61 خوبرو نوجوان پیوند خاک ہوگئے۔ ڈیڑھ سو کے قریب اسپتالوں میں موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ کوئی نیا سانحہ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان سانحات کی آماجگاہ بنادیا گیا ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے ہی کی تو بات ہے کہ وکلا، جو کسی سماج کا شعور ہوتے ہیں، ان کی بڑی تعداد کو ایک سازشی منصوبے کے تحت قتل کرکے صوبے کو فکری طور پر بانجھ کرنے کی کوشش کی گئی۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہزارہ کمیونٹی کا قتل تو معمول کی بات ہے۔ ریاست اپنی رٹ کے دعوے تو بہت کرتی ہے، مگر نظر کہیں نہیں آتی۔

یہ سانحات ہر اس شخص کے لیے جو سینے میں دل اور دل میں درد رکھتا ہے، رلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ایک شاعر چہار سو پھیلے انسانی دکھوں کو اپنے خونِ جگر میں قلم ڈبو کر سینۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ صابر ظفر بھی ایک شاعر ہے، جس سماجی شعور انسانی دکھوں سے گندھا ہوا ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا صوبہ بلوچستان، جہاں کچھ اپنوں، کچھ پرائیوں کی حشر سامانیوں کے سبب کئی دہائیوں سے نہ رکنے والی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، تو اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ آنسو سینۂ قرطاس پر شعر کی صورت نقش ہوجاتے ہیں۔ بلوچ قوم کی اس دکھ بھری داستان پر وہ اپنے لہو سے دستخط کرکے منظر عام پر لے آتا ہے۔ اس کے ذہن رسا سے جو بھی شعر نکلتا ہے، وہ ہر درد مند انسان کے دل کی آواز بن جاتا ہے۔ جب جابجا مسخ لاشیں نظر آتی ہیں، تو اس کا قلم پکار اٹھتا ہے کہ:

جب دیکھئے تو مسخ شدہ دیکھئے انھیں
پہچانئے تو اپنوں کے لاشے اٹھائیے
لیکن اگلا شعر اہل دل کے کلیجے کو چیر کر رکھ دیتا ہے
لے جائیے، اگر ہے یہ لختِ جگر کی لاش
ماؤں سے کیسے بولیے، بچے اٹھائیے

کلیجہ اس وقت مزید پھٹ جاتا ہے جب صوبے کا سربراہ کہتا ہے کہ ’شکر ہے بڑے سانحے سے بچ گئے‘۔ گویا پورا شہر خون میں نہا جاتا، تب ہی ان کی نظر میں بڑا سانحہ ہوتا۔ اسے نااہلی کہا جائے، بے حسی کہا جائے یا سنگدلی۔ مگر شاید یہ تمام الفاظ بے معنی ہیں، کیونکہ جن کے دماغوں میں آج بھی قبائلی شہنشاہیت کا خناس گھسا ہو، انھیں عام آدمی کی زندگی، زندگی نہیں لگتی۔ اس لیے 61 گھرانوں کے چراغوں کا گل ہوجانا ان کے لیے معمول کی بات ہے۔ البتہ کوئی سردار یا نواب کسی سانحے میں مارا جاتا، تو پھر شاید قومی نقصان قرار پاتا۔ اسی ذہنیت کے بارے میں صابر ظفر کہتا ہے کہ

جو بولتی ہی نہیں قاتلوں کے بارے میں
وہ اک جگہ نہیں ہر انجمن میں لاشیں ہیں
کسے کسے کوئی تھامے، کسے کسے روئے
ہر ایک حلقہ دار و رسن میں لاشیں ہیں

صابر ظفر کو کون سمجھائے کہ بلوچستان کی داستان الم کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ یہ حکمرانوں کے جھوٹ اور فریب پر مبنی ایک طویل داستان ہے۔ یہ داستان اسی روز سے شروع ہوئی، جس روز برصغیر تقسیم ہوا۔ وہ تمام نظریات، فیصلے اور وعدے طاق نسیاں ہوئے، جو آل انڈیا مسلم لیگ نے مختلف ادوار میں ہندی مسلمانوں سے کیے تھے۔ بلوچ عوام انگریز کے جانے کے بعد آزاد فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ مگر جب فروری 1948 میں بانی پاکستان کوئٹہ پہنچے اور انھوں نے خان آف قلات احمد یار خان کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ معاہدہ کیا کہ حکومت پاکستان چار شعبہ جات اپنے پاس رکھتے ہوئے، بلوچ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، تو بلوچ عوام ان کے احترام میں پاکستان کا حصہ بننے پر آمادہ ہوگئے۔ مگر اس معاہدے کا بھی وہی حشر ہوا، جو دیگر معاہدوں کا ہوا۔ 1955 میں جب ون یونٹ بنایا گیا تو 1948 کے معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے بلوچستان کی تمام ریاستوں بشمول قلات کو اس میں شامل کرلیا گیا۔

ون یونٹ کے قیام اور معاہدے کی خلاف ورزی نے بلوچ قوم پرستانہ تحریک کو مہمیز لگائی۔ تین برس بعد ایوب خان نے مارشل لا لگادیا۔ لیفٹیننٹ کرنل ٹکا خان (بعد میں جنرل) نے نواب نوروز خان کو دھوکے سے گھیر کر گرفتار کرلیا۔ جولائی 1960 کو حیدرآباد جیل میں نواب نوروز کے دو بیٹوں سمیت پانچ سرداروں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ بیٹوں کی موت کا صدمہ لیے نواب نوروز خان بلوچ 90 برس کی عمر میں کوہلو جیل میں انتقال کرگئے۔ ایوبی آمریت کے اس اقدام کے نتیجے میں نفرتوں کی ایک نئی فصل کاشت ہوئی۔ مگر 1970 میں جب ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کیے گئے تو بلوچستان کو مکمل صوبے کا درجہ مل گیا۔ جس نے بلوچ عوام کے آنسو کسی حد تک پونچھ دیے۔

نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی مساعی کے نتیجے میں بلوچ رہنماؤں نے 1970 کے عام انتخابات میں اس امید پر حصہ لیا کہ ملک ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ بن جائے گا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بلوچ رہنماؤں کا خیال تھا کہ پاکستان کے وجود کا سابقہ تصور ختم ہوگیا، اس لیے مغربی حصے کے وفاقی یونٹوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ بھٹو مرحوم اس پر آمادہ نہیں تھے۔ اس سے قبل کہ ایک نیا ڈیڈ لاک پیدا ہو، میرغوث بخش بزنجو مرحوم نے دیگر بلوچ رہنماؤں کو آئین کے نئے مسودے پر آمادہ کرلیا۔ مگر منصوبہ سازوں کے دل میں موجود کھوٹ آئین کی منظوری کے فوراً بعدکھل کر سامنے آگیا۔ ابھی بنگلہ دیش کی آزادی کو تین برس بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ شہنشاہ ایران کی خواہش پر بلوچستان پر فوج کشی کردی گئی۔ یہ تاریخ کا بدترین آپریشن تھا، جو کئی برس جاری رہا اور ہزاروں بلوچ لقمہ اجل بنے۔ بالآخر جنرل ضیا کے دور حکومت میں جا کر کہیں ختم ہوا۔

مگر بعد میں آنے والی کسی بھی حکومت نے بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مسائل و مصائب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ سیاسی بیان بازیاں تو بہت کی گئیں، مگر عملاً کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ ابھی بھٹو دور کے آپریشن کے زخم مندمل بھی نہ ہونے پائے تھے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا آپریشن شروع کردیا۔ جس میں نواب اکبر بگٹی شہید کردیے گئے۔ یہ وہی اکبر بگٹی تھے، جنھوں نے کوئٹہ پہنچنے پر بابائے قوم کا ائیرپورٹ پر استقبال کیا تھا اور خان آف قلات کے ساتھ معاہدے کو ممکن بنوایا تھا۔ یوں پاکستان نواز بلوچ رہنما بھی حکومتی انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔

آج بلوچستان ایک نئے کرب کا شکار ہے۔ ایک طرف اپنی حکومتوں کی چیرہ دستیاں جاری ہیں۔ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر و لوگوں کو اغوا کرکے غائب کررہے ہیں۔ ان کا ماورائے عدالت قتل ہورہا ہے۔ اہل علم ودانش سمیت کون ایسا شخص ہے، جو اس جوروستم کا شکار نہیں ہے۔ مگر اس داستان الم کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔ جب کہ دوسری طرف دوست ممالک پراکسی جنگ کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک نئی متشدد فرقہ واریت کا مظہر سامنے آیا ہے۔ یوں بلوچ عوام کثیرالجہتی استحصال کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی برسوں سے بے گناہ بلوچوں کاخون ناحق مسلسل بہہ رہا ہے۔ اس صورتحال پر صابر ظفر کہتا ہے کہ:

خود اپنے وار سے روح و بدن کو مار دیا
مناؤ جشن کہ اہل وطن کو مار دیا

مگر اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران ان تلخ حقیقتوں کو کیا سمجھ پائیں گے۔ ان کا تصور حکمرانی تو صرف لوگوں کو تقسیم کرنا، انھیں لڑانا اور ان کے خون پر سیاست چمکانا ہے۔ حکمرانوں کے اسے رویے کو دیکھتے ہوئے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ

یہ میرا قلم ہے میرا علم، یہ کمند ہے جو فلک چھوئے
یہ مزاحمت کو رقم کرے تو شہادتوں کی دھنک چھوئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔