خودکشی کے منتظر پانچ ہزار خاندان

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 31 اکتوبر 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اگر آپ کسی سے سوال کریں کہ کیا آپ کسی ’چائے والا‘ کو جانتے ہیں؟ تو آپ کو جواب ملے گا جی ہاں، یہ پاکستان کے کسی چھوٹے سے علاقہ کا ایک سادا سا باسی ہے، جو مسافروں کو چائے فروخت کرتا ہے لیکن یہ سوشل میڈیا کی ایک بڑی سیلیبریٹی بن چکا ہے، محض اس وجہ سے کہ کسی نے اس کی خوبصورت نیلی آنکھوں سے متاثر ہوکر اس کی تصویر سوشل میڈیا پر چلا دی، جسے ہزاروں لوگوں نے شئیر کیا، آج کل نجی ٹی وی چینلز کے شوز میں اس کو بلایا جارہا ہے۔

لیکن اگر آپ کسی سے یہ پوچھیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ایک بڑے ادارے کے پانچ ہزار ملازمین کو چار چار ماہ تنخواہیں نہیں ملتی اور گزشتہ پانچ مہینے سے تنخواہ نہیں ملی، تو اس سوال کا جواب شاید ہی ملے۔ وجہ اس کی صاف ہے کہ جو مسئلہ میڈیا پر نہ آئے اس کا کسی کو علم نہیں ہوتا اور وہ مسئلہ کسی کی نظر میں مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ روز پہلے کراچی شہر میں ایک شخص نے پنشن نہ ملنے پر خودکشی کرلی۔ خودکشی کی خبر میڈیا پر چلی تو نائب سٹی ناظم نے بھی فوراً ایکشن لے لیا اور اس پر سوموٹو ایکشن بھی لے لیا گیا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ پانچ ہزار ملازمین کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں میں گزشتہ دہائی سے اضافہ نہیں ہوا، تمام مراعات ایک ایک کرکے ختم کردی گئیں اور پھر تنخواہیں کئی کئی ماہ تاخیر سے ادا کی جانے لگیں۔ ریٹائر ہونے والے ملازمین کو واجبات کی ادائیگی بھی روک دی گئیں، گریجویٹی کی رقم بھی صرف ان ملازمین کو فراہم کی گئی جو انتقال کرگئے، گویا اس رقم کے حصول کے لیے مرنا بھی لازمی ٹھہرا۔

کہنے کو تو اس ادارے میں ملازمین کی یونین بھی ہے مگر بعض ملازمین کا کہنا ہے کہ اس کے عہدیدار ملازمین کے حقوق کا سودا کرچکے ہیں اور خود مال سمیٹ چکے ہیں، اس لیے خاموش ہیں۔ اس وقت بہت سے ملازمین کی خواہش ہے کہ اس کو جلد فروخت کردیا جائے تاکہ استعفیٰ دے کر ان کی جان تو چھوٹے۔ ان ملازمین کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس کو فروخت کرکے جان چھڑانا چاہتی ہے اور تنگ آئے ملازمین بھی یہی چاہتے ہیں، جب کہ سندھ حکومت اس ادارے کی نجکاری نہیں چاہتی، حالانکہ یہ ادارہ اب اسکریپ بن چکا ہے، دوبارہ چلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ یوں اس کشیدگی میں نقصان پاکستان اسٹیل ملازمین کا ہورہا ہے۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان اسٹیل ملز کا نہیں بلکہ پانچ ہزار ملازمین کا بھی ہے، جن پر پانچ ہزار خاندانوں کی کفالت کی ذمے داری ہے، مگر یہ پانچ ہزار ملازمین اپنے گھر کی کس طرح کفالت کر رہے ہوں گے؟ ان کے گھر کا چولہا کیسے جل رہا ہوگا؟ ان کے گھر کا کرایہ کون ادا کر رہا ہوگا؟ ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کون پورے کررہا ہوگا؟ یہ ہر مہینے کے اخراجات کے لیے کس سے ادھار مانگتے ہوں گے؟ اور کون انھیں باعزت طریقے سے اتنا لمبا عرصے ادھار دیتا ہوگا؟ کیا یہ خاندان حلال اور حرام میں تمیز رکھتے ہوں گے؟

ان خاندانوں سے کسی کو ہمدردی ہے؟ وفاقی حکومت اس کو فروخت کرنا چاہتی ہے، کیونکہ یہ ادارہ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے اور وفاق کی جانب سے ہر چار، پانچ ماہ بعد ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایک دو ماہ کی بنیادی (بیسک) تنخواہ کی رقم جاری کی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ آخر کب تک یہ رقم یوں ہی دی جاتی رہے گی؟ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اسٹیل ملز میں یونین بھی اسی پارٹی کی ہے، جو اس کی فروخت کے خلاف ہیں۔ ان کی ضد کے آگے نقصان ملازمین کا ہورہا ہے، نہ انھیں وقت پر تنخواہ ملتی ہے، نہ ریٹائرمنٹ پر رقم ملتی ہے، نہ ان کو میڈیکل کی سہولت حاصل ہے، تمام ملازمین عجیب کشمکش کا شکار ہیں، اگر استعفیٰ دے کر کچھ اور کام کرنا چاہتے ہیں تو ملازمت تو ختم ہوجاتی ہے مگر واجبات بھی نہیں ملتے، اگر ملازمت پر جاتے ہیں توکچھ اور کام نہیں کرسکتے، صرف تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں جو چار، پانچ ماہ بعد ملتی ہے، وہ بھی صرف ایک آدھ ماہ کی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ گیس کی فراہمی منقطع ہونے کے بعد اسٹیل ملز مکمل طور پر بند ہے اور چین و روس نے بھی اس کی بحالی کی مدد کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس کو فروخت کرکے ملازمین کی جان چھڑائی جاسکتی ہے، لیکن اس مسئلے پر پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ سے اختلاف رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ وفاق ہی اس ادارے کی امداد بھی کرے اور دوبارہ بحال بھی کرے۔ یوں اس رسہ کشی میں پانچ ہزار خاندانوں کو گزشتہ کئی برسوں سے سخت مالی پریشانی اور ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ملازمین ذہنی دباؤ کے باعث بلڈ پریشر اور نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، مگر پیپلز پارٹی اور اس کی یونین جو ملازمین کے حقوق کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے۔

برسوں سے ان پانچ ہزار خاندانوں کو یوں ہی بے سہارا چھوڑے ہوئے ہے۔ کسی کو خیال نہیں آرہا کہ یہ پانچ ہزار خاندان صبح و شام کیسے گزارا کرتے ہوں گے؟ ان کے گھروں میں چولہا جلتا بھی ہوگا یا نہیں؟ ان کے بچے اسکول میں فیسوں کے طلب کرنے پر کیا جواب دیتے ہوں گے؟ بیمار ہونے پر والدین تو اپنا علاج نہ کرکے وقت گزار لیتے ہوں گے مگر جب ان کے بچے بیمار ہوتے ہوں گے تو مہنگائی کے اس دور میں وہ خالی جیب کہاں جاتے ہوں گے، کیونکہ سرکاری اسپتال سے بھی معائنہ تو ہوجاتا ہے مگر دوا نہیں ملتی۔

یہ کیسی بے حسی ہے کہ ایک جانب ہر دوسرے روز مارننگ شوز میں ایک چائے والے کو مدعو کیا جاتا ہے، اس کے نئے کپڑے بنائے جاتے ہیں، میک اپ کیا جاتا ہے، اس سے اس کے گھریلو حالات پوچھے جاتے ہیں، گھنٹوں اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر بات کی جاتی ہے، جسے دنیا بھر میں دیکھا بھی جاتا ہے، دوسری جانب پانچ ہزار خاندانوں کی کسمپرسی کسی میڈیا والے کو نظر نہیں آتی۔ ایکسپریس اخبار کے صفحات میں ضرور اس سے متعلق خبروں کو نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ مگر کوئی ٹاک شو اس پر نظر نہیں آتا، نہ کوئی جماعت اس پر دھرنا کرتی ہے، نہ کوئی اپوزیشن جماعت بڑا احتجاج کرتی نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی جانب سے سوموٹو ایکشن ہوتا نظر آتا ہے۔

کچھ روز پہلے شہری حکومت کے ایک ملازم نے اپنی پنشن کے حصول میں ہر طرف ناکامی دیکھ لی، اداروں کی بے حسی دیکھ لی تو تنگ آکر خودکشی کرلی، میڈیا پر خبر آنے کے بعد متعلقہ ذمے داروں نے پنشن بھی دینے کا اعلان کیا اور عدالت کی جانب سے سوموٹو ایکشن بھی لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد چائے کے ایک ہوٹل پر بیٹھے کچھ لوگوں کو راقم نے باتیں کرتے سنا، جس میں سے ایک کہہ رہا تھا ’’بھائی لگتا ہے کہ ہم میں سے بھی کچھ لوگوں کو ایسی ہی قربانی دینا پڑے گی، ورنہ اسٹیل ملز نہ فروخت ہوگا، نہ ہی تنخواہیں، پنشن اور واجبات وقت پر ملیں گے‘‘۔

یہ جملے سن کر میں سکتے کی کیفیت میں آگیا اورسوچا کہ میں اور کچھ نہیں کرسکتا کالم تو ان پانچ ہزارخاندانوں کے لیے لکھ سکتا ہوِں، قبل اس کے کہ ان میں سے بھی کسی کے خودکشی کرنے کی کوئی خبر میڈیا میں آئے۔ آئیے آپ بھی جو کچھ ہوسکتا ہے ان کے لیے کریں، بحیثیت ووٹر، جماعت کے رکن، عہدیدار یا ممبر پارلیمنٹ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔