ملکی سلامتی کے لیے شخصیات کے بجائے اداروں کو مضبوط بنایا جائے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے / شہباز ملک  پير 31 اکتوبر 2016
’’موجودہ ملکی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو : ایکسپریس

’’موجودہ ملکی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو : ایکسپریس

ملک میں اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے جارہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے انہیں روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ایک طرف ملک میں سیاسی ہلچل ہے جبکہ دوسری طرف ہمیں بھارتی جارحیت اور دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔

بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی بار بار خلاف ورزی کی جارہی ہے جبکہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں رونما ہورہے ہیں جن میں سے ایک افسوسناک سانحہ چند روز قبل کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سکول میں پیش آیا جس میں 60سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ملک کو درپیش ایسے تمام چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’موجودہ ملکی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جنرل(ر) راحت لطیف خواجہ
(دفاعی تجزیہ نگار)
دہشت گردی کی جنگ اب شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کی تاریخ پرانی ہے، یہ چاروں صوبوں میں ہو رہی ہے لیکن کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہے۔ عام جنگ میں دونوں طرف افوج ہوتی ہیں، دشمن سامنے ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کی جنگ مختلف ہے۔ یہ انٹیلی جنس پر منحصر ہوتی ہے، اس میں دہشت گردوں کو ڈھونڈھنا پڑتا ہے اور پھر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے،اس لیے اس جنگ میں وقت لگتا ہے۔

دہشت گرد وں نے جہاں کارروائی کرنی ہوتی ہے وہاں وہ اپنا ڈیرہ ڈالتے ہیں، اس کے لیے وہاں کے کچھ لوگ ان کے سہولت کار ہوتے ہیں جنہیں دہشت گردوں کی جانب سے مراعات ملتی ہیں۔ افسوس ہے کہ ایسی کالی بھیڑیں ہمارے اندر ہی موجود ہیں جو ان دہشتگردوں کو سہولت فراہم کرتی ہیں،ہمیں سب سے پہلے ان کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کو یہاں کوئی سہولت نہ مل سکے۔ ریمنڈ ڈیوس یہاں آیا، کاغذات کے مطابق وہ پشاور میں تھا مگر لاہور سے پکڑا گیا،اس کا مطلب ہے کہ یہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس کی مدد کی۔ حکومت کو چاہیے کہ جو واقعات ہو چکے ہیں۔

ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے اقدامات کرے تاکہ مزید ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ سانحہ کوئٹہ انتہائی افسوسناک ہے، چند سال قبل اسی طرز کا ایک واقعہ مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر لاہور میں بھی ہوا تھا لیکن حکومت کی جانب سے موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ چند ماہ قبل کوئٹہ میں ہی وکلاء پر حملہ ہوا جس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، اب یہ پولیس ٹریننگ سینٹر کا واقعہ ہوگیا جو انتہائی افسوسناک ہے لہٰذا حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ سیکورٹی کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔

چیف منسٹر کوئٹہ کو 2ماہ قبل کوئٹہ پولیس ٹریننگ سکول کی سیکورٹی بہتر کرنے کے حوالے سے درخواست دی گئی، اس سکول کی دیواریں کچی تھیں جہاں سے دہشت گرد اندر داخل ہوئے لیکن افسوس ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں، اس سکول کی سیکورٹی بہتر نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں ہمارے 62لوگ شہید ہوئے ہیں۔

ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے قوم تقسیم ہو۔ عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کی کال دی ہے جس سے مسائل پیدا ہونگے، طاہر القادری ان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی بھی 27دسمبر سے سڑکوں پر نکلنے کا ارادہ رکھتی ہے لہٰذا حکومت کو بہتر طریقے کے ساتھ ان کے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور سب کو ایک پیج پر لانا چاہیے تاکہ ایسی صورتحال میں اتحاد قائم ہو کیونکہ اس وقت ملک کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو نقصان پاکستان اور عوام کا ہوگا۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہمارے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہوں گے تب تک ہماری فارن پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

اس وقت ہمارے ملک کا کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر معاملات بہتر طریقے سے نہیں اٹھائے جا رہے۔ یہاں بیرونی ایجنسیاں کام کررہی ہیں، ’’را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت بھی موجود ہیں اور کلبھوشن یادو بھارتی حاضر سروس نیوی افسر ہے جو یہاں ملوث رہا ہے۔ ایجنسیوں کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے جبکہ اقدامات حکومت نے کرنا ہوتے ہیں، کلبھوشن سے تفتیش کے بعد شواہد حکومت کو دیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا لہٰذا جب حکومت کی جانب سے جب بروقت اقدامات نہ کیے جائیں تو معاملات خراب ہوتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر اب بھی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نہ کیے گئے تو خدا نخواستہ اس طرح کے مزید سانحات رونما ہو سکتے ہیں۔

فوج دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اپنا کام کررہی ہے ، سول حکومت کو بھی موثر کام کرنا چاہیے تاکہ ایسے واقعات نہ ہوں۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے چاروں صوبوں میں بلا امتیاز کارروائیاں کرکے دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جائے ۔ اب دہشت گردوں کا زور ٹوٹ چکا ہے، فاٹا بھی کلیئر ہوچکا ہے لیکن سول حکومت اپنی رٹ قائم نہیں کررہی اور نہ ہی ابھی اس کی تیاری کی گئی ہے۔ اکثر جنوبی پنجاب کی بات کی جاتی ہے، وہاں آپریشن کرنے میں کیا حرج ہے؟ ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارت فائرنگ کررہا ہے، ہم اس کا جواب تو دے رہے ہیں لیکن ہم نے عالمی برادری کے سامنے کلبھوشن یادو اور ’’را‘‘ کا نام نہیں لیا کہ وہ ہمارے ملک میں مداخلت کررہے ہیں۔

بیرونی محاذ کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں فل ٹائم وزیر خارجہ ہو تاکہ وہ یہ معاملات عالمی سطح پر اٹھا سکے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر جب گیٹ تعمیر کیے گئے تو معاملات خراب ہوئے حالانکہ یہ افغان حکومت کی رضامندی پر بنائے گئے اور ابھی مزید بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ عالمی طاقتیں یہاں امن قائم نہیں ہونے دیتیں کیونکہ ’’او آئی سی‘‘ کے 58ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے، اس کے علاوہ سی پیک منصوبہ بھی دنیا کو کھٹک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بیرونی مداخلت ہورہی ہے اور حالات خراب کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ سی پیک نہ بنے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)
کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، یہ ہماری جڑوں میں بیٹھ چکی ہے اور اس سے ہی بہت سارے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ آج جو بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں ان کا تعلق کرپشن سے ہے۔ کوئٹہ ہائی رسک ایریا ہے، یہاں پہلے بھی بہت سارے حملے ہوچکے ہیں، سریاب روڈ کوئٹہ کا سب سے حساس علاقہ ہے لیکن اس علاقے کی سیکورٹی کو بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہوئے اور حالت یہ ہے کہ اس روڈ پر واقع جس ٹریننگ سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کیا وہ ہٹ لسٹ پر تھا مگر اس کے باوجود سیکورٹی اقدامات نہیں کیے گئے اور حالت یہ ہے کہ اس سکول کی دیواریں بھی کچی تھیں ۔

ہماری روایتی بے حسی اور بیوروکریسی کی کرپشن کا نتیجہ ہے کہ یہ افسوسناک سانحہ رونما ہوگیا مگر ہم نے 2ماہ سے اس سکول کی سیکورٹی کے لیے دی گئی درخواست کو فائلوںمیں دبا دیا۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ کرپشن ہے اوروہاں کا سارا بجٹ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جبکہ ایک معمولی رقم عوام کی سیکورٹی اور فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس حملے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں اور افسوس ہے کہ جو بھی کارروائیاں ہوتی ہیں ان کا تعلق افغانستان سے نکلتا ہے۔

ہم نے برسلز کانفرنس میں افغانستان کے لیے 5کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا مگر وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہا، افغان حکومت جانتی ہے کہ اس کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی نیٹو فورسز یا امریکی افواج نے اس حوالے سے کوئی کارروائی کی۔ افغان حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہی ، اس میںہماری اپنی کوتاہیاں بھی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن کے حوالے سے ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو کرپٹ لوگوں کے خلاف بلاتفریق اور بلا خوف و خطر کارروائی کرسکے۔

اس حوالے سے نیب کا ادارہ بنایا گیا، اب سپریم کورٹ نے پلی بارگین پر پابندی لگا دی ہے، سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس کے مطابق 15سالوں میں 15سو بیوروکریٹس پلی بارگینگ سے استفادہ کرچکے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت کا تھوڑا سا حصہ پلی بارگین کے نام پر نیب کو دیکر واپس اپنے عہدوں پر بحال ہوچکے ہیں اور اداروں کا مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ملکی سیکورٹی کے پیسے میں کرپشن کی۔ عمران خان کی کال کرپشن کے خلاف ہے جو درست موقف ہے لیکن افسوس ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ اداروں کے بجائے شخصیات کو مضبوط کیا ۔

جنہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اداروں کو استعمال کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے جمہوری وزیراعظم بنے، انہوں نے 73ء کا جمہوری آئین دیا ، مضبوط ادارے دیے، عدلیہ کو آزاد رکھا گیا مگر جب سپریم کورٹ نے دو فیصلے ان کی حکومت کے خلاف دیے تو ایک سال کے اندر اندر اس آئین میں 6ترامیم کیں اور سپریم کورٹ سے اختیارات لے لیے بلکہ اسے انتظامیہ کے ماتحت کردیا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی اداروں کو مضبوط نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ پر حملہ کرادیا۔

اس کا مطلب ہے کہ ہم اداروں کو اہمیت نہیں دیتے۔ 2نومبر کی عمرا ن خان کی کال کرپشن کے خلاف ہے مگر اس دھرنے کا حاصل کیا ہوگا؟ اگر یہ کامیاب ہو بھی جائے تو کیا ملک کو اس سے فائدہ ہوگا ؟میرے نزدیک اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور ملک میں افراتفری پھیلے گی۔ اس کال کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ افسوس ہے کہ عمران خان بھی اسی طرز پر چل رہے ہیں، خود کو عقل کل سمجھ رہے ہیں۔ عمران خان ا ور نوازشریف نے پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کیا،کسی نے پارلیمنٹ کے ذریعے معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی، انہیں چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں جاتے، وہاں الیکشن ریفارمز لاتے، عدلیہ کا نظام بہتر کرتے اور سپریم کورٹ کو صحیح معنوں میں آئینی طریقے سے آزاد بناتے۔

اگر ایسا کیا جاتا تو معاملات بہتر ہوتے لیکن عمران خان تو عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں اور عدالتی فیصلے تسلیم نہیں کررہے۔ عمران خان نے پہلے دھاندلی اور حلقے کھولنے کی بات کی، اس پر الیکشن ریفارمز کی بات کی گئی لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی، اب الیکشن میں کم وقت رہ گیا ہے کیا اب الیکشن ریفارمز ہوسکیں گے؟آئندہ انتخابات بھی اسی سسٹم کے تحت ہونگے اور پھر دھاندلی و دیگر الزامات سامنے آئیں گے۔ انہیں چاہیے تھا کہ ریفارمز کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مضبوط کرتے تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ آزادانہ فیصلے کررہا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہم نے اداروں کو مضبوط ہونے نہیں دیا۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ملکی سلامتی کی خاطر شخصیات کے بجائے اداروں اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔اس وقت پاور پالیٹکس ہورہی ہے، اگر سب کی نیت صاف ہے تو پھر انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے اور اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نقصان صرف عوام کا ہوگا۔ کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ صرف نواز شریف استعفیٰ دے دیں بلکہ اس کے لیے جن ریفارمز کی ضرورت ہے اس کے لیے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے اندر تبدیلی نہیں آرہی بلکہ ہم نواز، عمران، بلاول میں پھنسے ہوئے ہیں۔

پارلیمانی نظام میں ایسی چیزیں نہیں ہوتی جو ہمارے ملک میں ہورہی ہیں اور شخصیات کی غلطیوں کے خمیازے عوام بھگت رہے ہیں۔ دھاندلی اور کرپشن کے حوالے سے عمران خان کی بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کیا کیا ؟ کرپشن کا تعلق دہشت گردی سے بھی ہے، ہمیں دہشت گردوں کی نرسری کو ختم کرنا ہوگا اور اس کے لیے غربت کا خاتمہ کیا جائے اور غربت کی جڑ کرپشن ہے۔ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہونگے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ادارے مضبوط بنائے جائیں۔

ڈاکٹر نادر بخت
(ماہر امور خارجہ)
جمہوریت، انصاف کا نام ہے۔ جو معاشرے جمہوریت کو لے کر چلے انہوں نے سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی، دستوری اور قانونی انصاف قائم کیا اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائی۔ افسوس ہے کہ پاکستان میں عوام، اشرافیہ، حکمران، ادارے غرض کے کوئی بھی طبقہ قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا اور سب جھوٹ اور منافقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اکابرین یا عوام و خواص، مذہبی جماعتیں یا سیاسی جماعتیں، تعلیمی ادارے یا دیگر تنظییں، ان سب میں اپنے لیے خاص مراعات جبکہ دوسروں کے لیے کچھ اور کی پالیسی ہمارا کلچر بن چکا ہے۔

پاکستان کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ برطانیہ دور میں انصاف نہیں تھا، مسلمان کے لیے قوانین او ران کا نفاذ الگ جبکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی کے لیے نظام مختلف تھا۔ مسلمان اس سے متاثرہ تھے، انصاف چاہتے تھے اس لیے پاکستان کا نعرہ بلند کیا ،ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں اور پاکستان بنایا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بن گیا یا ابھی بننا باقی ہے؟ اگر تو یہاں انصاف ہورہا ہے تو پاکستان بن گیا لیکن اگر ایسا نہیں ہواتو ابھی بننا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ ابھی تک ہم پاکستان میں انصاف قائم نہیں کر پائے لہٰذا ابھی پاکستان بننا باقی ہے۔

اگر اس تناظر میں دیکھیں تو ہم نے انصاف کے لیے یہ ملک بنایا لیکن وہ لیڈر شپ نہیں بن سکی جو عوام سے نکل کر آتی اور انصاف قائم کرتی۔ ہمیں ایک مخلص، ایماندار اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فوجی حکمرانوں نے سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہتر ڈیلور کیا۔ اب فوج نے اپنے گھر سے احتساب کا آغاز کیا، جرنیلوں کو سزائیں بھی ہوئیں۔ فوج ایک مضبوط ادارہ ہے لیکن کیا ہم فوج کو اقتدار میں لے آئیں؟ نہیں۔ یہ ان کا کام نہیں ہے اورجن کا یہ کام ہے وہ ڈیلور نہیں کرپاتے ۔ ہمارے سامنے ایران کا ماڈل ہے جس نے اساتذہ اور پروفیسروں کوالیکشن میں حصہ لینے میں مدد کی، انہیں پارلیمنٹ میں لایا گیا تاکہ معاملات بہتر ہوں۔ اسی طرح بھارت نے عام لوگوں کو سیاست میں لانے کا ماڈل دیا۔ ہم ابھی تک اشرافیہ کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس وقت ضرورت یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو پارلیمنٹ میں لایا جائے لیکن اس وقت ہمارا نظام تعلیم بے سمت ہے۔

ایسا نصاب ہی نہیں ہے جو سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی و دیگر مسائل حل کرنے میں رہنمائی کرسکے۔ ہمارے نظام تعلیم کا ان چیزوں سے تعلق ہی نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے حاصل کیا گیا۔ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر افسوس کہ یہاں کچھ بھی اسلامی نہیں ہے۔ اسلامی نظام حقوق و فرائض کا ہے لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آیا۔افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہوجائے تو کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ سب اپنے اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں اور کوئی بھی اس بیماری کا علاج نہیں چاہتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اسلامی نظام ہی مسائل کا حل ہے۔

ہمارے ادارے ، حکمران، لوگ خرابیوں کا شکار ہیں، کرپشن زدہ ہیں اور اس کا حل قانون کی حکمرانی ہے۔ عمران خان بالکل درست کہہ رہا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کا احتسا ب ہونا چاہیے۔ کرپٹ اگر وزیراعظم، وزراء، کابینہ یا کوئی بھی ہو تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ عوام ان دھرنوں سے بیدارہورہی ہے۔ اس وقت تو ملک میں کسی کی جان و مال اورعزت محفوظ نہیں ہے۔ مسائل کا حل یہ ہے کہ تعلیمی نظام بہتر کیا جائے، لوگوں کوان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے، انہیں اتنا با شعور بنایا جائے کہ وہ کسی کو اپنا حق چھیننے نہ دیں۔

ڈاکٹر زمرد اعوان
(پروفیسر شعبہ سیاسیات، ایف سی کالج )
کوئٹہ میں حالیہ واقعہ افسوسناک ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ اندرونی حوالے سے بات کریں تو اس سکول کی دیواریں کچی ہیں، وہاں اسلحہ کم تھا اور اس کے علاوہ سیکورٹی کے دیگر انتظامات بھی انتہائی ناقص تھے۔ اس سے پہلے بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فوج نے تو آپریشن ضرب عضب شروع کیا لیکن سول اداروں نے کیا کیا؟ہم افغانستان اور بھارت پر ان واقعات کا الزام لگاتے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ بیرونی مداخلت ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے خلاء پیدا ہورہا ہے۔ فاٹا میں امن قائم ہوچکا لیکن سول حکومت نے ابھی تک اپنی رٹ قائم نہیں کی، وہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

اسی طرح افغانستان کے ساتھ ہمارا طویل بارڈر ہے، وہاں گیٹس کم ہیں جبکہ لوگوں کی آمد و رفت کے پوائنٹس بہت زیادہ ہیں، وہاں کافی حد تک کنٹرول ہورہا ہے لیکن مکمل کنٹرول ابھی ممکن نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں معاملات بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ افسوس ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے اہداف کے حصول میں ناکامی اور اداروں کے مابین مسائل کی وجہ سے ملک مشکلات سے دوچار ہے۔ ہمارا وزیرخارجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے فارن پالیسی کے مسائل بھی ہیں۔ مودی نے افغانستان و دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر سارک کانفرنس ملتوی کرائی، وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے، بھارت کے تعاون سے کابل میں ڈیم بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے لیے پانی کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ہمیں ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے چاہئیں تاکہ عالمی تنہائی کا بھارتی پراپیگنڈہ ختم ہوسکے۔ ہمیں ایران کے تحفظات دور کرکے معاملات آگے بڑھانے چاہئیں۔ سیاسی صورتحال کی بات کی جائے تو صرف انتخابات کرا لینا جمہوریت نہیں ہے۔ اداروں کی مضبوطی، الیکشن ریفارمز، سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا اور اندرونی مسائل کا حل جمہوریت میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیکھنا یہ ہے کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے؟ اگر یہ تمام چیزیں ٹھیک نہ ہوں تو فنکشنل جمہوریت نہیں ہوسکتی۔

2نومبر کو عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے کی کال دی ہے، حکومت کو طریقے کے ساتھ معاملات حل کرنے چاہئیں اور سب کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر ان کے تحفظات دور کرنے چاہئیں۔

ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی، مقامی حکومتوں کا نظام فعال نہیں ہوا، الیکشن ریفارمز نہیں آسکے، ایسی صورتحال میں دھرنوں کا جواز بنتا ہے لیکن حکومت چاہے تو معاملات ٹھیک کرسکتی ہے، غلط اقدامات سے ان معاملات کو بگاڑا نہ جائے۔ماضی میں بھی دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف کے تحفظات دور نہیں کیے گئے اور پھر ایک طویل دھرنا دیکھنے میں ملا۔ حکومت کو سمجھ نہیں آتی کہ اسے کیا ایکشن لینا چاہیے۔موجودہ صورتحال میں حکومت کمزور دکھائی دے رہی ہے جبکہ بہت ساری جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔