- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
بہرے پن کی بیماری کو معمولی نہ سمجھیں
ایک نئی سائنسی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قوت سماعت میں خرابی اور دماغ کے درمیان تعلق ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں عمر گذرنے کے ساتھ دماغی کارکردگی کی سطح کم ہوتی جاتی ہے۔اس لیے بہرے پن کے عارضہ کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ حسیات کی خرابیوں میں بہرا پن سب سے زیادہ پائی جانیوالی خرابی ہے اور اس کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں جیسے جینیاتی ، شور کے باعث یا محض عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہونیوالا بہرا پن وغیرہ۔تحقیق میں ذیلی طور پر بتایا گیا کہ یوکے میں ہر سات میں سے ایک فرد کسی نہ کسی قسم کی سماعت کی خرابی سے دوچار ہے۔
قوت سماعت میں خرابی یا بہرا پن ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف سماجی زندگی میں بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے بلکہ تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بھی کئی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے 2005ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زائد افراد قوت سماعت کی خرابی سے دوچار ہیں اور ان میں پچاس فیصد ایسے ہیں جن کی عمر پینسٹھ سال سے زائد ہے اور ان کی قوت سماعت کی خرابی کی وجہ بھی عمر ہی ہے۔
اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ قوت سماعت کی خرابی کی بعض قسموں کا علاج ہوسکتا ہے اور یہ کہ بچوں میں ابتدائی تشخیص ، علاج اور مینجمنٹ کے ذریعے ان کی آئندہ کی زندگی کو مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے۔اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں فیکٹریوں کا شور کم ہورہا ہے تاہم پسماندہ اور غریب ممالک میں کم تر درجے کی مشینری کے استعمال کے باعث شور تاحال بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان معاشروں میں بہرہ پن بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔
اس قسم کے شور کو لائف اسٹائل میں بدلائو لاکر بہتر بنایا جاسکتا ہے۔مثال کے طورپر اگر ہیڈ فون پہنا جائے اور وہ بھی ایسے وقت جب ہم دوران سفر شور سے گذر رہے ہوتے ہیں۔اگر ہم ایسا کریں تو مسقبل میں ہمارے کانوں کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک المیہ یہ بھی درپیش ہے کہ لوگ بہرہ ہونے کے باوجود آلہ سماعت استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور یوں ان کا بہرہ پن بڑھتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ قوت سماعت کے آلات استعمال کرنے کے باوجود سماعت کی قدرتی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا اور صرف پندرہ بیس فیصد لوگوں کو قوت سماعت کے آلات سے کسی قسم کا فائدہ دیکھنے میں آتا ہے۔
تحقیق کے مطابق قوت سماعت کا مسئلہ اس وقت اور بھی زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب یہ دماغ کی شعوری صلاحیت کو بھی متاثر کرنے لگتا ہے اور ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب قوت سماعت کی خرابی کا مناسب طریقے سے علاج کرانے میں غفلت کی جاتی ہے۔اس طرح بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ قوت سماعت کے ساتھ ذہنی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
بالٹی مور میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے زیراہتمام قوت سماعت سے محروم افراد کے جب ذہنی ٹیسٹ کیے گئے تو اس بات کی تصدیق ہوئی اور ایسے افراد میں ذہن کی استعداد کار ایسے افراد سے چالیس فیصد کم تردرجے کی پائی گئی جن میں قوت سماعت کا مسئلہ نہیں تھا۔محققین نے قرار دیا کہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی نوعیت کی ہے اور دماغ کی ذہنی صلاحیت پر قوت سماعت کی خرابی کے منفی اثرات کو پرکھنے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔