تحریک انصاف نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے دھرنا موخر کردیا

ارشاد انصاری  بدھ 2 نومبر 2016
تحریک انصاف کے دھرنے کا معاملہ طے ہوتے ہی ایک دوسری بحث نے جنم لے لیا ہے۔ فوٹو: فائل

تحریک انصاف کے دھرنے کا معاملہ طے ہوتے ہی ایک دوسری بحث نے جنم لے لیا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ذمہ دار سیاسی رہنما ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملہ کی تحقیقات کے حوالے سے مجوزہ جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے بارے میں دیئے جانے والے احکامات کے بعد آج (بدھ)کا دھرنا موخر کرتے ہوئے کال واپس لے لی ہے۔

اس سے اگرچہ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں مایوسی بڑھ گئی ہے کیونکہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مورال ڈاؤن ہو رہا تھا لیکن اس اقدام سے مزید مورال ڈاون ہوا ہے مگر پی ٹی آئی کی قیادت کے اس فیصلہ سے ملک میں کچھ عرصے سے جاری سیاسی تناؤ وکچھاؤ تو ضرورختم ہوگیا ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے عدالتی آرڈر ملک کی سیاسی جماعتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی معاملات حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور ناکامی کے بعد خود سیاسی جماعتیں نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے فریقین کے درمیان جاری معاملہ حل کرنے کیلئے کردار ادا کیا ہے اور عدالتی احکامات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پارٹی ترجمان اور دیگر رہنماؤں کے جذباتی اعلانات سے ہٹ کر دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور دھرنا موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دھرنے کیلئے آنے والے تمام کارکنوں کو واپس گھروںکو جانے کی ہدایات جاری کردی ہیں کیونکہ اس وقت ملکی سرحدوں پر شدید کشیدگی جاری ہے لہٰذا ایسے حالات میں ملک اندرونی سطح پر سیاسی کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

لہٰذا تحریک انصاف کی قیادت کا فیصلہ درست دکھائی دیتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق اور دوسرے رہنما عدالتی احکامات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جذباتی انداز میں اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے اعلانات کر رہے تھے اور واضح کر رہے تھے کہ 2نومبر کو دھرنا ہوگا مگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے میڈیا کے سامنے آکر قوم کو اپنا فیصلہ سنایا اورمجوزہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے عدالتی آرڈر کے بعد دو نومبر کا دھرنا ختم کردیا۔

آج یوم تشکر منانے کا اعلان کرتے ہوئے آج (بدھ) ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی بجائے پریڈ گراونڈ میں اجتماع ہوگا جس میں آج (بدھ)کے دن کو یوم تشکر کے طور پر منائیں گے اورنوافل ادا کریں گے کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 3نومبر سے وزیراعظم کی تلاشی شروع کرنے کا کہہ دیا ہے۔

اس سے پہلے منگل کو اسلام آباد میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواستوں کی سماعت کی اور سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین سے تین نومبر تک ضوابطِ کار طلب کر لئے ہیں اور سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہے کہ عدالت مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کر چکی اورکیس کو زیادہ طویل نہیں رکھیں گے۔

سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے عدلیہ نے سیاسی جماعتیں سیاست جاری رکھیں مگر پاناما مسئلے کو اب عدالت حل کرے گی اب فریقین اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کوئی حکم نہیں دے رہے پر امید ہیں بہتر سوچ سامنے آئے گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر فریقین پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ کمیشن کے ضوابطِ کار پر متفق نہ ہوئے تو عدالت خود ضوابطِ کار بنائے گی اس سے قبل عدالت میں پیشی کے وقت اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی رہنما و وکلاء خوشگوار موڈ میں دکھائی دیئے اورعدالت عظمیٰ میں پیش ہونے کیلئے آنے والے اپوزیشن جماعتوں کے وکلاء وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سے گلے ملے جبکہ وزیر ریلوے خواجہ آصٖف نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی لو یو عارف علوی جس پر وہ مسکرا دیئے، اب گیند عدالت کی کورٹ میں ہے اور عدالت اس معاملے پر اپنا فیصلہ دے گی۔

سب سے خوش آئند بات ہے کہ تمام فریقین نے عدالت عظمیٰ پر اعتماد کا اظہارکیا ہے عدالت کے روبر حکومتی وکیل سلمان بٹ نے بتایا کہ وزیرعظم نواشریف لندن جائیدادوں پر کمیشن کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں اور الزامات ثابت ہوئے تو وزیراعظم قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے۔ اسی طرح تحریک انصاف سمیت دیگر فریقین نے بھی عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اتفاق کیا ہے کہ عدالت کا قائم کردہ جوڈیشل کمیشن جو فیصلہ دے گا اسے تسلیم کیا جائے گا۔

عدالتی احکامات کے بعد حکومت اور اس کی سب زیادہ حریف و مخالف جماعت تحریک انصاف نے عدالت کے روبرو اپنائے جانے والے موقف پر عملدرآمد کا عملی نمونہ پیش کیا، جیسے ہی عمران خان نے آج کا دھرنا موخرکرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے بھی تمام بند راستے کھولنے اورکنٹینر ہٹانے کے احکامات جاری کردیئے جس سے نہ صرف اسلام آباد بلکہ ملک بھر کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے دھرنے کا معاملہ طے ہوتے ہی ایک دوسری بحث نے جنم لے لیا ہے اور تحریک انصاف کے دھرنے کی کال واپس لینے کے اعلان پر مختلف آراء و تجزیئے سامنے آرہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بالآخر حکومت کی رٹ کو تسلیم کرلیا ہے اور حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو دیئے جانے والے ٹف ٹائم کے باعث عمران خان کو دھرنے میں ناکامی نظر آرہی تھی اور انہوں نے عدالتی آرڈر کے بعد بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے فیس سیونگ کی راہ اپنائی جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی کچھ اہم لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں انہیں دھرنے کی کال واپس لینے پر قائل کیا گیا لیکن دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد ان پر سیاسی حریفوں کی جانب سے تنقید کے نشتر برسنا شروع ہوگئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹویٹ میں عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کو ایک اور یوٹرن کا نام دیا ہے جبکہ پانسہ پلٹتے ہی عوامی تحریک انصاف کے سربراہ طاہر القادری بھی میدان میں آگئے اوراپنا تبصرہ کرتے ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ دیا اورکہا کہ ان کے پاس اس سے بہتر کوئی الفاظ نہیں ہیں کیونکہ انکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے اوروہ بہت زیادہ حیرت میں ہیں، لیکن بعض طبقات کا خیال ہے تحریک انصاف کا شو ختم ہونے کے بعد اب اگلا شو پیپلز پارٹی کا شروع ہونے کو ہے اور اب پیپلز پارٹی متحرک ہوگی۔

پاکستان پیپلز پارٹی پہلے سے 27نومبر کو لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے عدالتی احکامات کے بعد میڈیا کے سامنے اپنے موقف میں کہا کہ عدالت کو خود سے ٹی او آر نہیں بنانے چاہئیں اس سے عدلیہ کے متنازعہ ہونے کا خدشہ ہے اور ہم عدالت کو متنازعہ نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ٹی او آر بنانا عدالت کا کام نہیں ہے اورانہوں نے عندیہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگر اپنے ٹی او آر بنائے تو اس کے خلاف وہ عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔

یوں معلوم ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی سٹریٹ پاورکا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اگلے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں اور پی ٹی آئی کے دھرنے کی ناکامی کے بعد اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ آئندہ الیکشن 2018 میں ہی ہوںگے اور پیپلز پارٹی فرنٹ پر آکر کھیلے گی اور عوام میں اپنی مقبولیت کی بحالی کیلئے سیاسی سرگرمیاں تیز کرے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔