میرے مونوگرام کے ذخیرے میں حیدرآباد دکن کی تاریخ چھپی ہے

اقبال خورشید  جمعرات 3 نومبر 2016
جو ہندو نام کے ساتھ آصف جاہی لکھتے تھے، سقوط کے بعد وہ یک سر بدل گئے۔ فوٹو: فائل

جو ہندو نام کے ساتھ آصف جاہی لکھتے تھے، سقوط کے بعد وہ یک سر بدل گئے۔ فوٹو: فائل

سب سے پہلے جو شے ہمارے ہاتھ لگی، وہ سن 1892 کا ایک رسالہ ’’حسن‘‘ تھا، جو حیدرآباد دکن سے نکلا کرتا تھا۔ ماہ اپریل کا وہ ایشو تھا۔ گو 125 برس پرانا، مگر اچھی دیکھ ریکھ کی گئی تھی۔ جلد بنی ہوئی تھی۔ اسے عماد نواز جنگ مرتب کیا کرتے تھے۔

پہلا مضمون موجودہ ہندوستانی ریاست، کرناٹک کے تاریخی شہر گلبرگہ سے متعلق تھا، جو اُن کا آبائی وطن۔ گلبرگہ حیدآباد دکن سے 200 کلومیٹر دور تھا۔ سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ سید محمد حسنی، المعرف حضرت خواجہ بندہ نواز، گیسو دراز کا مزار بھی وہیں، جس کی وجہ سے اُسے گلبرگہ شریف بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ حیدرآباد کی درس گاہوں میں رائج رہی، جس کا شمار اردو کی ابتدائی نثری تخلیقات میں ہوتا ہے۔

عبدالرزاق گلبرگوی کو یہ قدیم اور بیش قیمت رسالہ ان کے والد عبدالرحیم فضل نے سونپا۔ اب اُن تک کیسے پہنچا، اس کی انھیں خبر نہیں۔ عبدالرحیم فضل غزل کے بڑے پختہ شاعر تھے۔ ’’روئے گل‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ آیا۔ حیدرآباد دکن میں اُن کا کاروبار تھا۔ البتہ کاروبار سے زیادہ سیاست میں انھیں دل چسپی رہی۔ بہادر یار جنگ کے خاصے قریب رہے۔ خاکساروں کی وردی پہنا کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد اِدھر آئے، تو کراچی میں قیام کیا، اور ایک بینک میں ملازم ہوگئے۔

والد کے ذخیرے سے انھیں کانپور سے شایع ہونے والی 1904 کی ایک جنتری بھی ملی، جو اب خاصی خستہ حالت میں ہے۔ ایک بیش قیمت آٹو گراف بک بھی اُن کے پاس۔ کچھ ممتاز شخصیات سے ان کے والد کی ملاقات ہوئی، چند سے وہ ملے۔ اس میں قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح، خواجہ حسن نظامی اور جوش سمیت کئی معروف ہستیوں کے دست خط ثبت۔ عبدالجمید سالک کا آٹو گراف بھی ہے، جن کی بابت کہتے ہیں،’’ان کی ہینڈ رائٹنگ بہت خوب صورت تھی۔ ایک بار مولانا ابوالکلام آزاد ان سے ملے، تو کہا؛ بھئی آپ کے کسی مضمون سے میں اتنا متاثر نہیں ہوں، جتنا آپ کے طرز تحریر سے متاثر ہوا۔‘‘

ایک آٹو گراف اور۔ انتہائی جاذب نظر اور دل چسپ۔ یہ نام وَر مصور، صادقین کا آٹو گراف ہے۔ آرٹس کونسل میں 71ء میں ملاقات ہوئی۔ ان سے آٹو گراف کی درخواست کی، تو انھوں نے کارڈ پر ایک اسکیچ بنا کر انھیں دیا۔ اس زمانے میں صادقین غالب پر کام کر رہے تھے۔ اس ملاقات کی بہت سی یادیں گم ہوگئی ہیں۔ بس اتنا ذہن میں ہے کہ ان کے ہاتھوں پر جا بہ جا رنگ لگے تھے، انگلیاں ٹیڑھی معلوم ہوتی تھیں۔

عبدالرزاق کے پاس مونوگرام کا بھی بیش قیمت ذخیرہ، جس میں حیدرآباد دکن کی تاریخ چھپی ہے۔ کیسے منظم ادارے تھے، پرشکوہ عمارتیں، باوقار افسران؛ سب ہی کی عکاسی کرتے ہیں یہ مونوگرام۔ ان باکمال خطاط کی خبر بھی دیتے ہیں، جو یہ دل کش اور جاذب نظر امہار بنایا کرتے تھے۔ کہیں مونوگرام پر سکہ چسپاں ہے۔ کہیں سیپ کو بہ طور میٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔ کہیں دھاگے اور تار۔ سینئر استاد اور محقق، معین الدین عقیل نے اس ذخیرے کو دیکھا، تو کہا: ’’سلطنت آصفیہ کے تعین میں یہ ذخیرہ بے حد قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے، جو کم از کم بیسویں صدی کے حوالے سے مطالعہ و تحقیق میں معاون و مددگار رہے گا۔‘‘ فاطمہ ثریا بجیا نے بھی اُن کے کام کو قابل قدر اور ذخیرے کو تاریخی ورثہ ٹھہرایا۔ مدینۃ الحکمہ نے بھی پذیرائی کی۔

نصف مونوگرام سرکاری، نصف ذاتی۔ چند لیٹر ہیڈ پر استعمال ہوتے تھے، چند لفافوں پر۔ ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ۔ سو سے ڈیڑھ سو برس قدیم۔ میر محبوب علی خان کے مونوگرام سب سے قدیم۔ کلیکشن میں وہ مہریں اور مونوگرام بھی شامل، جو نظام آف حیدرآباد استعمال کیا کرتے تھے۔ مہاراجا سر کشن پرشاد کی مہریں بھی ہیں۔ وہ شاد تخلص کرتے تھے۔ حیدرآباد دکن میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اقبال سے اُن کے گہرے مراسم تھے۔ جن مونوگرامز میں سکے اور سیپ کا استعمال ہم نے دیکھا، وہ مہاراجا کشن پرشاد ہی کے تھے۔

یہ دراصل عبدالرزاق کے سسر کے والد، امجد علی کا کلیکشن تھا۔ ان کی شادی کی سال گرہ پر ساس نے تحفے میں دیا۔ گذشتہ پانچ عشروں سے ان کے پاس۔ اچھی حالت میں ہے۔ بڑی توجہ سے اسے سنبھالا۔ خواہش مند ہیں کہ کوئی قدرداں خرید لے۔ کچھ لوگوں سے رابطے کیے، مگر کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ ان کے مطابق ان مونوگرامز کے ذخیرے سے حیدرآباد دکن کی تاریخ کا تعین ہوتا ہے، مگر افسوس اُنھیں سمجھنے والا کوئی نہیں۔ نہ تو یہاں، نہ ہی ہندوستان میں۔

اب ذرا ان کے حالات زندگی پر نظر ڈال لی جائے:

عبدالرزاق گلبرگوی 1938 میں گلبرگہ، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد عبدالرحیم فضل کا تذکرہ اوپر آگیا۔ 50ء میں ان کا خاندان پاکستان چلا آیا۔ البتہ نوجوان عبدالرزاق 56ء تک ادھر رہے۔ رہایش چچا کے ہاں تھی۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا، مگر اس میں رکاوٹیں حائل رہیں۔ کچھ اور عوامل بھی تھے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے پولیس ایکشن کا تذکرہ آیا۔ کہتے ہیں، جب حالات بگڑنے لگے، تو ان کے اہل خانہ گلبرگہ سے بیل گاڑیوں میں حیدرآباد کی سمت چل پڑے۔ راستے میں بمباری کی خبر ملی، تو رُک گئے۔ پھر ٹرین لے کر شہر پہنچے۔ حالات وہاں بھی بگڑ رہے تھے۔ سقوط قریب تھا۔

سقوط کے بعد کا زمانہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،’’تعصب بڑھ گیا تھا۔ ہندو مسلمانوں کو ستانے لگے۔ ہماری پھوپھی کا مکان لوٹ لیا گیا۔ ایسے اور بھی واقعات ہوئے۔ وہاں ہم رومی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ اس ٹوپی کو ہندو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے، سر سے اتار کر پھینک دیا کرتے۔ ایک بار میں غلطی سے پہن کر باہر چلا گیا، تو میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دراصل بیش تر مسلمان سرکاری ملازم تھے۔ سقوط کے بعد انھیں ملازمتوں سے نکالا جانے لگا۔ ان کے پاس روزگار کا متبادل ذریعہ نہیں تھا۔ ہندوؤں کو نظام کے احسانات یاد نہیں رہے۔ جو ہندو اپنے نام کے ساتھ فخر سے آصف جاہی لکھتے تھے، وہ یک سر بدل گئے۔‘‘

پاکستان آنے کے بعد عبدالرزاق کا تعلیمی سلسلہ بحال ہوا۔ میٹرک کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں، جو کراچی میں ہوا کرتی تھی، ایک برس مترجم رہے۔ تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ گریجویشن کیا۔ حیدرآباد کالونی میں اسٹیشنری کی ایک دکان ’’گلبرگہ اسٹور‘‘ کر لی، جو 60 برس چلائی۔ 66ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، ایک بیٹی سے نوازا۔ تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ بال بچوں والے ہیں۔ زندگی سے بالکل مطمئن۔ بچے بڑے باادب۔ بہت خیال رکھتے ہیں۔

کچھ ٹکٹ بھی ان کے پاس ہیں۔ زیادہ قدیم تو نہیں، مگر ان کی ترتیب اہم ہے۔ ایک بڑے سے کارڈ پر 71ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان کے ٹکٹ چسپاں، جن پر بنگلا زبان میں پاکستان لکھا ہوا ہے، اور پھر ایک جانب 71ء کے بعد اس علاقے سے شایع ہونے والے ٹکٹ، جو اب بنگلا دیش ہوگیا ہے۔ یہ کارڈ یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اس وقت کیا کھویا۔

حیدرآباد دکن سے جو لوگ یہاں آکر آباد ہوئے، ان سے متعلق بھی گفت گو ہوئی۔ کہنے لگے؛ پہلے ان کا بڑا مرکز حیدرآباد کالونی تھا۔ بہادر آباد اُس کے بعد آباد ہوا۔ جو پیسے والے تھے، وہ پوش علاقوں میں جا بسے۔اب حیدرآباد کالونی میں میمن برادری کی اکثریت ہے۔ ادھر کمیونٹی کے مخیر حضرات کے عطیات سے، 25 سال قبل، ایک بڑا پلاٹ خریدا گیا تھا، مقصد یہ تھا کہ وہاں لائبریری اور آڈیٹوریم قائم ہو، مگر ایک عرصے سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے۔ خواہش مند ہیں؛ بہادر یار جنگ اکیڈمی کے سیکریٹری، خواجہ قطب الدین اور دیگر سرکردہ شخصیات اس ضمن میں کوشش کریں۔ عبدالرزاق صاحب خود بھی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک معروف بلڈر سے بھی رابطہ کیا ہے۔

حیدر آباد کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے، چار عشروں قبل، کراچی کی سطح پر، احباب ویلفیر سوسائٹی بنائی گئی تھی۔ عبدالرزاق کے مطابق جب وہ قائم ہوئی تھی، تو کئی منصوبے تھے، بہت سی امیدیں تھیں، مگر دھیرے دھیرے وہ غیرفعال ہوتی گئی۔ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکی۔

وہ ساڑھے تین کروڑ پونڈز۔۔۔

گفت گو کے دوران نظام آف حیدرآباد کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد پر برطانوی عدالت کے تازہ فیصلے کا بھی ذکر آیا۔ کہنے لگے،’’نظام نے ستمبر 48ء میں اپنے بینک کو پاکستان کے لیے دس لاکھ پونڈز جاری کرنے کی ایڈوائس کی تھی۔ ایڈوائس تو برطانیہ پہنچ گئی، مگر اس کے اگلے ہفتے قائد اعظم کا انتقال ہوگیا۔

چند ہفتوں بعد انڈیا نے پولیس ایکشن کر دیا۔ جب ہندوستانی حکومت کو پتا چلا کہ انھوں نے پاکستان کو دس لاکھ پونڈز دینے کی ایڈوائس کی ہے، تو ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ اسے رکوا دیں۔ خیر، یہ معاملہ لٹک گیا۔ عشروں تک کیس چلتا رہا۔ اب رواں برس پاکستان کے حق میں فیصلہ آیا ہے۔ 48ء کے دس لاکھ پونڈز اب ہوگئے ہیں ساڑھے تین کروڑ پونڈز، جو بینک آف انگلینڈ ادا کرے گا، مگر اس سلسلے میں منظر واضح نہیں۔ خبر نہیں کہ حکومت نے وہ پیسے وصول کیے ہیں یا نہیں۔ اگر کیے ہیں، تو کن مقاصد میں استعمال ہوں گے۔‘‘

شوق فوٹو گرافی کا۔۔۔

ایک زمانہ ایسا بھی تھا، جب کیمرا کاندھے سے لٹکا رہتا۔ جہاں کوئی بیش قیمت منظر دکھائی دیتا، بٹن دبا کر اسے محفوظ کر لیتے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، شوق ماند پڑتا گیا، مگر یہ ضرور ہے کہ جوانی میں بنائی ہوئی تصاویر وقت کے ساتھ بیش قیمت ہوتی گئیں۔ زیر تعمیر مزار قائد کی بھی تصاویر بنائی تھیں، جو ان کے پاس موجود۔ یہ مختلف مراحل کی عکاسی کرتی ہیں۔

ایک تصویر اور ہے۔ جب 1960 میں ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سندھ طاس منصوبے پر دست خط کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، تب اتفاق سے ایئرپورٹ سے باہر آتے سمے اُن کی، بنا چھت والی کار عبدالرزاق صاحب کے سامنے سے گزری۔ انھوں نے فوراً تصویر بنا لی۔ تصویر اتنی واضح نہیں۔ ہاں، نہرو کا سر دکھائی دیتا ہے، اور حفاظتی حصار، جو چند موٹرسائیکل سوار پولیس اہل کاروں پر مشتمل۔ اس زمانے میں پروٹوکول کا اتنا تام جھام نہیں تھا۔ پھر سیکیورٹی مسائل بھی ایسے گمبھیر نہ تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔