قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی

اوریا مقبول جان  جمعـء 4 نومبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں جہاں کہیں سودی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ جمہوری نظام نافذ ہے وہاں ایک تصور بہت عام ہے، ’’قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی‘‘ ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انصاف کو قانون کے ماتحت ہونا چاہیے‘ اور قانون وہ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندے اکثریت کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ جمہوریت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اگر اکیاون فیصد ممبران اسمبلی انچاس فیصد اقلیت کے خلاف ایک قانون منظور کر لیتے ہیں تو وہ اس ملک کا قانون بن جاتا ہے۔

چار سو کے لگ بھگ ارکان اسمبلی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک قانون منظور کرتے ہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء کے مالی معاملات میں کوئی عدالت‘ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا بددیانتی اور کرپشن کے خلاف کارروائی پر مامور محکمہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ انھیں طلب نہیں کر سکتا‘ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا‘ اگر وہ ایسا کرے گا تو ان کا استحقاق مجروح ہو گا۔ایسے میں یہ ملک کا قانون بن جاتا ہے اور اس پر اگر مکمل طور پر عملدرآمد ہو جائے تو اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک لفظ ہوتا ہے ’’انصاف کی حکمرانی‘‘۔ اس کا بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی طاقتور ایک قانون اپنے حق میں منظور کر والیتا ہے تو اس کو پس پشت ڈال کر کمزور‘ محکوم اور مجبور کو اس کا حق دلایا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کے اصول کسی پارلیمنٹ یا کانگریس کے مرہون منت نہیں ہیں۔

یہ اصول ہر معاشرے کو صدیوں سے ازبر ہیں۔ اس لیے کہ یہ اصول دنیا کے ہر الہامی مذہب نے اصول ہدایت کے طور پر لوگوں کو سکھائے ہیں۔ انھیں اکیاون فیصد اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ سو فیصد لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون کو سچ اور جھوٹ کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ دھوکا‘ فریب‘ بددیانتی‘ کرپشن‘ حق تلفی‘ قتل اور تشدد جیسے جرم بھی تعارف اور تعریف کے محتاج نہیں ہوتے۔

لوگوں کو یہ بھی خوب پتہ ہے کہ انصاف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب طاقتور ترین اور کمزور ترین کے درمیان کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ‘ قبیلہ‘ برادری یہاں تک کہ سیاسی پارٹی کا تعصب بھی انصاف کی حکمرانی کا تصور باطل کر دیتا ہے۔ اسی لیے انصاف کی حکمرانی کے تمام اصول ازلی‘ ابدی اور الہامی ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کے اصول انسانی اکثریت کے محتاج ہیں۔

انسانی معاشرے نے شروع دن ہی سے اپنے درمیان عدل اور انصاف کرنے کے لیے انسانوں کو ذمے داریاں سونپیں اور ادارے تخلیق کیے۔ جرگے سے پنچایت تک اور قاضی سے جج تک ایسے تمام ادارے اور فرد اس لیے منتخب کیے گئے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں موجود کہانیوں کا آغاز ایک جیسے فقرے سے ہوتا ہے ’’ایک تھا بادشاہ جس کے دور میں اس قدر انصاف تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔

انصاف پہلے بھی جرگہ‘ پنچایت‘ قاضی اور جج کے پاس تھا اور آج بھی یہ انھی کی ذمے داری ہے۔ پہلے بادشاہ قاضی یا جج پر قدغن لگا کر اسے اپنے احکامات کا پابند کرتے تھے اور آجکل جمہوری معاشرے‘ قانون کی حکمرانی کے نام پر عدالتوں کے اختیار صلب کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انصاف کی بالادستی کی کہانی سناتی ہے جب کہ جمہوریت کی تاریخ پارلیمنٹ کی بالادستی کا درس دیتی ہے‘ یعنی اکثریت کی بالادستی۔

جس طرح بادشاہوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے انصاف کی حکمرانی کے علمبردار قاضیوں کے وجود سے تاریخ کی صفحات روشن ہیں‘ اسی طرح پارلیمنٹ کی آمریت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے والے جج بھی دنیا کی ہر جمہوریت میں پائے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا وہ انصاف کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو مسترد کر سکتی ہے یا نہیں تو اس وقت عدالتوں کے سامنے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل Jan Marshall کا وہ شہرہ آفاق فیصلہ ضرور پیش ہوا جو انھوں نے مشہور مقدمے مربری بمقابلہ میڈیسن (Marbury VS Madisan) میں دیا تھا۔

1803ء میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جس میں یہ بنیادی سوال سامنے آیا کہ اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کر لیتی ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جن میں انصاف کا حق بھی شامل ہے‘ اس سے متصادم ہے تو کیا عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

اس پر جسٹس مارشل کا تاریخی فیصلہ گونجتا ہے کہ انصاف کی حکمرانی ایک تصور ہے جس کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے اور اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے جس سے انصاف کے بنیادی حق پر ضرب لگتی ہے تو عدالت اسے منسوخ کر سکتی ہے اور عدالت کسی ایسی پابندی کو بھی نہیں مانتی جو کانگریس اس کے اس بنیادی اختیار کو محدود کرنے کے لیے لگاتی ہے جس کا مقصد انصاف کی حکمرانی‘ بالادستی اور فراہمی ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ ترین عدلیہ کا یہ اختیار مسلم سمجھا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد انصاف کی حکمرانی ہے کیونکہ اس کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے قوانین جو انصاف کی فراہمی سے روکیں‘ سپریم کورٹ انھیں ختم کر سکتی ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ایسی ہی ایک تاریخ مرتب کرنے جا رہی ہے۔ اس کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب انھوں نے حکومت کی جانب سے 1956ء کے تحت کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس طرح کی لامتناہی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ ہمیں بتائیں کس کس کے خلاف تحقیقات کرنا ہیں۔ حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور پھر اس کی سفارشات پر سانپ بن کر بیٹھا جائے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ میں باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ہے۔

گزشتہ سات ماہ سے نواز شریف حکومت اس خط کا جواب نہیں دے رہی تھی اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹی او آر کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب وہ ادارے جن کی ذمے داری تھی کہ پاکستانی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کرتے جیسے نیب‘ ایف آئی اے‘ اور ایف بی آر‘ وہ صرف اس لیے اپنی نااہلی کا اظہار کرتے رہے کیونکہ وزیراعظم کے خاندان کے لوگوں کے نام اس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دو سو کے قریب افراد جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا ان پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔

حکومت کو اندازہ تھا کہ جیسے اس ملک میں باقی اسکینڈل دفن ہو جاتے ہیں‘ ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دفن ہو جائے گا‘ لیکن عمران خان کی پاکستانی سیاست پر یہ مہربانی یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پانامہ لیکس کے اس اسکینڈل کو دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ اسکینڈل زندہ رہا اور اس نے 20 کروڑ عوام کو مضطرب‘ بے چین اور بے خواب رکھا۔ لوگ مسلسل سوچتے تھے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا یہ اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت ختم ہو گی اور پوری ن لیگ پکارے گی کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے لیکن نہیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ انصاف کی حکمرانی اور بالادستی صرف اور صرف انھی کا فریضہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو سنیں گے اور قوم کو بے یقینی کے عذاب سے نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی دفعہ 184(3) کے مطابق جو اختیارات ہیں‘ ان کے تحت وہ عوامی اہمیت کے ہر معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کر سکتی ہے اور آرٹیکل 190 کے تحت اس حکم کے نفاذ کی ذمے داری پاکستان میں موجود ہر انتظامی اور عدالتی فرد یا ادارے پر ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ طے کرے گا کہ پاکستان میں اگر پوری پارلیمنٹ بھی انصاف‘ عدل اور اخلاق کے خلاف متحد ہو جائے‘ سپریم کورٹ اکیلی اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمے داری انصاف کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی اس کے تابع ہے۔

نوٹ:میرے نام سے فیس بک پر بہت سے خیر خواہوں نے مختلف قسم کے پیج بنا رکھے ہیں جو میرے نام سے منسوب ہیں‘ لیکن ایک پیچ Orya Maqbool Jan Official ایسا پیج ہے جس سے لوگ اکثر یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ یہ میرا اصل پیج ہے۔ میرا اس پیج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس پر شایع شدہ مواد کا ذمے دار ہوں۔ میرے ذاتی فیس بک پیج کا ایڈریس یہ ہےhttps://m.facebook.com./oryamj/۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔