براستہ مونا باؤ بھارت جانے کا دشوار ترین سفر

فروا حیدر  پير 7 نومبر 2016
مونا باو میں پلیٹ فارم نام کی کوئی چیز ہی نہیں جسکے سبب مسافروں کو تو اترنے چڑھنے میں دقت ہوتی ہی ہے بلکہ سامان اتارنا، چڑھانا بھی مشکل مرحلہ ہے۔ ایسی صورت میں کوئی معذور شخص تو وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ جب پلیٹ فارم ہی نہیں تو ویل چئیر ٹریک تو دور کی بات ہے۔

مونا باو میں پلیٹ فارم نام کی کوئی چیز ہی نہیں جسکے سبب مسافروں کو تو اترنے چڑھنے میں دقت ہوتی ہی ہے بلکہ سامان اتارنا، چڑھانا بھی مشکل مرحلہ ہے۔ ایسی صورت میں کوئی معذور شخص تو وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ جب پلیٹ فارم ہی نہیں تو ویل چئیر ٹریک تو دور کی بات ہے۔

کہتے ہیں کہ رشتوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اگر کوئی خونی رشتہ سات سمندر پار آپ سے بچھڑ جائے تو دل بس یہی چاہتا ہے کہ کاش آپ کے پاس بھی پر ہوں اور اُڑ کر اپنے پیاروں کے پاس پہنچ جائیں۔ ایسا ہی کچھ میرے والد کے ساتھ ہوا جب انہیں اپنے والد کے انتقال کی خبر ملی۔ لیکن جس ملک سے انہیں یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی وہ اور کوئی ملک نہیں بلکہ ہندوستان تھا جہاں جانا جان جوکھوں میں ڈالنے سے کم نہیں۔

میرے والد، دادا کی میت کو کندھا تو نہیں دے سکے لیکن دل میں ایک آس باقی تھی کہ کاش ایک بار میں اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکوں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے سے ڈر نہیں لگتا، لیکن اگر ڈر لگتا ہے تو پڑوسی ملک بھارت جانے سے لگتا ہے۔

اپنے والد کی اتنی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اللہ کا نام لے کراپنے والدین کے ہمراہ براستہ مونا باؤ بھارت جانے کا فیصلہ کر ہی ڈالا۔ میں اس سے قبل بھی بھارت جاچکی ہوں لیکن براستہ واہگہ بارڈر، یہی وجہ ہے کہ مونا باؤ کا راستہ میرے لیے بالکل ہی انجان تھا۔ یہ 2015ء کی بات ہے اس وقت دونوں ممالک کے حالات اتنے کشیدہ نہیں تھے اس لئے بھارت کا ویزہ حاصل کرنے میں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔

آخرکار ہم نے رخت سفر باندھا اور کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچ گئے۔ ہماری ٹرین تھر ایکسپریس رات 12 بجے پاکستانی بارڈر زیرو پوائنٹ کے لئے روانہ ہوئی جو حیدرآباد اور میرپورخاص سے ہوتی ہوئی اگلی صبح کھوکھراپار پہنچی جہاں پاکستانی بارڈر زیرو پوائنٹ ہے۔ زیروپوائنٹ سے بمشکل 10 منٹ کے فاصلے پر بھارتی بارڈر شروع ہوجاتا ہے جسے موناباؤ کہا جاتا ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے سیکیورٹی رسک کے پیش نظر ہماری ٹرین کی کھڑکیاں بند تھیں، اس لئے رات بھر کھڑکی کے نظارے سے محروم ہوکر ہی سفر کرنا پڑا۔ علی الصبح جب پاکستانی بارڈر آیا تو یہی سوچا کہ کم از کم اپنے ملک کے بارڈر پر تو کسٹم کے دوران کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور بڑے آرام سے پاکستانی سرحد کوعبور کرتے ہوئے بھارتی سرحد میں داخل ہوں گے۔ یہ خیال محض خیال ہی رہ گیا اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھرے بغیر نہ رہ سکی کیوںکہ جہاں بارڈر بنایا گیا ہے وہاں تو پلیٹ فارم نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی جس کے باعث مسافروں کو ناصرف خود اترنے چڑھنے میں دقت ہوتی ہے بلکہ سامان اتارنا اور چڑھانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ایسی صورت میں کوئی معذور شخص تو وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جب پلیٹ فارم ہی نہیں تو ویل چئیر ٹریک تو دور کی بات ہے۔

خیر اللہ اللہ کرکے ہم نے اپنا آپ اور سامان کھوکھراپار کے ریگستان میں اتار ہی لیا، لیکن اس قدر مسافروں اور قُلیوں کے ہجوم میں جیسے قدم جم کر ہی رہ گئے۔ اندر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ابھی کسٹم شروع ہونے میں کافی دیر ہے۔ اسی لئے سوچا کہ کیوں نہ تھوڑا منہ ہاتھ دھو کر آرام کرلیا جائے لیکن اندر نہ تو مسافروں کے لیٹنے کے لئے کوئی مسافر خانہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی پینے اور منہ ہاتھ دھونے کے لئے صاف پانی کا انتظام ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسٹم بارڈر پر پکی چھت بھی نہیں جس کی مدد سے گرمی اور سردی سے بچا جاسکے۔ بیٹھنے کے لئے چند ایک بینچز موجود ہیں جہاں گدھے بھی پاس میں ہی بندھے تھے۔ سمجھ نہیں آیا کہ بارڈر پر گدھوں کو کس مقصد کے لئے باندھا گیا ہے؟ صبح کے طویل ترین انتظار کے بعد دوپہر کو پاکستانی کسٹم حکام نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستانی بارڈر پر کسٹم کی کارروائی سے فارغ ہوکر ہم بھارتی بارڈر مونا باؤ پر پہنچ ہی گئے۔

بھارتی بارڈر پر ہمارے ساتھ جو ہوا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ زیروپوائنٹ پر چاہے جتنی ہی تکلیف کیوں نہ برداشت کرنی پڑی کہ آخر اپنا گھر تو اپنا ہی ہوتا ہے. چند منٹوں بعد ہی یہ سوچ کر وطن کی یاد اور بھی زیادہ ستانے لگی کہ اب پرائے ملک میں بھارتی کسٹم حکام کا نجانے کیسا برتاؤ ہوگا۔ وہاں پلیٹ فارم بھی تھا، مسافر خانہ بھی اور پینے کے لئے صاف پانی بھی۔ لیکن وہاں کے کسٹم حکام کا رویہ بہت ہی تضحیک و ہتک آمیز تھا۔ دوپہر سے ہونے والا انتظار شام تک پہنچ گیا اور پھر کہیں جاکر امیگریشن کے بعد کسٹم کا آغاز ہوا۔ جنوری کا مہینہ تھا اس لئے سردی بھی عروج پر تھی۔ ایک ایک منٹ بہت بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ کسٹم سے فارغ ہوئے تو بھارتی ریل گاڑی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں بھی بہت انتظار کرنا پڑا۔ ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد رات گئے ہم بھارتی ٹرین میں سوار ہوئے۔ جس کے بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہمارے ملک سے ریلوے کے ذریعے بھارت یا تو واہگہ بارڈر کے ذریعے جایا جاسکتا ہے یا پھر براستہ زیروپوائنٹ، اور مہنگائی کے اِس دور میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ظاہر ہے ریل گاڑی کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ لیکن اُن کی اس مجبوری کو سمجھنے اور اُن کی اذیت کی جانب توجہ کرنے والے حکام نے آنکھیں بند کی ہوئیں ہیں۔ متعلقہ حکام کو چاہیئے کہ اس اہم ترین بارڈر پر توجہ دیں اورمیرے مطابق درج ذیل بنیادی اقدامات کردیں تاکہ مسافروں کے لئے سفر کچھ سہل ہوسکے۔

  • پلیٹ فارم تعمیر کروایا جائے، تاکہ مسافروں کو سامان اتارنے اور چڑھانے میں دقت نہ ہو۔
  • ایک ایسی انتظار گاہ قائم کی جائے جہاں مسافر طویل ترین کسٹم کے عمل کے دوران آرام کرسکیں۔
  • آرام گاہ میں موسم کی مناسبت سے مسافروں کی سہولت کا خیال کیا جائے تاکہ سرد و گرم موسم کی شدت سے بچا جاسکے۔
  • پینے کا صاف پانی تو ہر صورت میسر ہونا چاہیئے۔
  • واش رومز کی تعمیر کے ساتھ ان کی صفائی کا باقاعدہ خیال رکھا جائے۔
  • اور اس کے ساتھ کسٹم کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کو شش کی جائے اس سلسلے میں دنیا بھر میں رائج جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اور ایک اہم گزارش ہمارے وزیر ریلوے صاحب سے، جو زبان و کلام کے ماہر ہیں۔ ان سے اتنا ہی کہنا ہے کہ ذرا اس جانب بھی توجہ کیجئے اور دیکھئے کہ دور کا سفر کرنے والوں کو کیسی کیسی تکالیف جھیلنا پڑتی ہیں۔ جبکہ بنیادی سفری سہولیات فراہم کرکے اور سفر کو سہل بنا کر ریلوے کو بھی ترقی دی جاسکتی ہے۔ تھوڑی سی توجہ درکار ہے، کیونکہ اس انداز کے اذیت ناک سفر کے بعد شاید ہی کوئی دوبارہ یہ تجربہ کرنے پر آمادہ ہوگا۔

کم از کم وزارت ریلوے اس اہم ترین بارڈر پر پلیٹ فارم، مسافر خانہ اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو تو یقینی بنا سکتی ہے یا وہ بھی ممکن نہیں؟۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

فروا حیدر

فروا حیدر

بلاگر ابلاغ ِ عامہ میں بی ایس کرنے کے بعد نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔