مسافر رخصت چاہتا ہے

اسلم خان  ہفتہ 5 نومبر 2016
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

زندگی کے سفر میں پھر ایک غیرمتوقع مرحلہ درپیش ہے، فیصلہ بھی معمولی نہیں جدائی کا مقام آن پہنچا ہے۔ برادرم ایاز خان اور لطیف چوہدری جیسے عزیزاز جان دوستوں سے جدائی ،خواہ وہ پیشہ وارانہ ہی کیوں نہ ہو، بڑا کٹھن مقام ہوتا ہے۔ خدا گواہ ہے یہ سب اچانک اور غیر متوقع ہورہا ہے میں تو ایکسپریس کو اپنی آخری منزل قرار دے چکا تھا جہاں ہر طرح کا آرام اور آسائش میسرہے۔

گذشتہ چھ سال کے دوران اس عاجز کو پیشہ وارانہ امور کی نئی جہتیں تلاش کرنے کا موقع ملا، جناب اعجاز الحق نے کارپوریٹ کلچر کے مثبت پہلوؤں سے روشناس کرایا اور جذباتیت کے بجائے ، بے رحم حقائق کی روشنی میں پالیسی سازی کا ہنر سکھایا۔ جس میں افراد کے بجائے ادارے ذمے داریوں کا تعین کرتے ہیں، پالیسی سازی اوراس پر عمل در آمد فرد واحد کے بجائے اجتماعی دانش سے کیاجاتاہے ۔اس ماحول میں ہر شخص سختی سے اپنے دائرہ کار اور متعین کردہ حدود میں بروئے کار رہتا ہے۔

اس ماحول میں کالم نگارنے منظم انداز میں سوچنے، حقائق کی جانچ پڑتال اوراعدادوشمار کو جانچنے اور پرکھنے کاہنر سیکھا، اس کے بعد سنجیدگی سے ان موضوعات پر توجہ دی جو اس وقت تک مقبول عام موضوع بحث نہیں بنے تھے۔

2012میں شام کی بگڑتی صورتحال پر قبائلی علاقے سے ’’مجاہدین‘‘ کے گروہوں کی شام میں میدان جنگ سجانے پر لکھا تو برادرم لطیف چوہدری حیرانی کااظہار کرتے رہے، اسی طرح بھارت میں بی جے پی سرکار کی تشکیل پر جب انھیں صفحات پر تواتر سے وزیراعظم مودی کے سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈول کا ذکر ہوا تو دوستوں نے اس غیرمعروف کردار کو غیرمعمولی اہمیت دینے پر بڑی لے دے کی لیکن جب یہ صاحب پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا مرکزی کردار بن کر سامنے آئے تو شہ سرخیوں کاموضوع بن گئے۔

آج مجھے سید والا تبار، اپنے شاہ جی ،عباس اطہر بے طرح یاد آرہے ہیں، وہ ابتدائی لمحات دل و دماغ میں روشن ومنور ہیں جب ان کی انگلی پکڑ کر روزانہ صحافت کی راہ گذر پر پہلا قدم رکھا تھا اور پھر ان کے ساتھ اس آبلہ پائی میں مختلف منزلیں طے کرنے کے بعد ایکسپریس آخری منزل قرار پایا،  اس کٹھن سفر میں جس طرح سیدوالا تبار جناب عباس اطہر شجرسایہ دار بن کر مجھے دکھ مصائب اور تکلیفوں سے بچایا وہ کوئی اپنی سگی اولاد کے لیے بھی کیاکرے گا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ گستاخ فکری اور نظری اعتبار سے شاہ جی کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا جس کا معدود ے چند افراد کو ہی علم ہوسکا کہ وہ سب پیشہ وارانہ امور سے تعلق رکھنے والے معاملات تھے، اس معاملے میں ہمارے مدیر ادارتی امور برادرم لطیف چوہدری سب سے زیادہ آگاہی رکھتے تھے کہ بھٹومرحوم، پیپلزپارٹی اور آصف زرداری کے حوالے سے  ہماری بیشتر گفتگوؤں کے وہ امین تھے لیکن آفرین ہے شاہ جی پر کہ انھوں نے ذاتی زندگی اور تعلقات پر ان تکنیکی اور پیشہ وارانہ اختلاف رائے کا سایہ تک نہ پڑنے دیا، جدائی کے اس مرحلے پر اپنے اور شاہ جی کے حوالے سے ایک اوروضاحت کرنا چاہتاہوں کہ ایکسپریس میں میری آمد سے ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، جب میں نے ایکسپریس کے حوالے سے ان سے اجازت طلب کی تو وہ خود بڑے حیران ہوئے تھے۔

اور رہے برادرم ایاز خان تویہ اس سفر کی ابتداء سے ہی ہم قدم اور ہمنوا رہے ہیں، جناب وحید قیصر کے ٹیسٹ کا پل صراط ان کی مدد کے بغیر عبور نہیں کرسکتا تھا، ان کے صاحبزادگان شیرل اور نوفل ہمارے سامنے جوان ہوئے لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ذاتی تعلقات کو پیشہ وارانہ اُمور میں دخل انداز نہ ہونے دیا۔کوئی رعایت نہ مانگی نہ دخل درمعقولات کی۔

عزیزم جاوید چوہدری نے بے پناہ محنت کرکے اپنا موجودہ مقام پایا ہے لیکن ابتدائے سفر میں یہ بھی ہمارے ہم سفر اور ہم قدم تھے، معروف دانشور اور مصنف اصغرعبداللہ سے تو خاکسار کی پنجاب یونیورسٹی کے دنوں کی شناسائی ہے اور اسلام آباد میں ایکسپریس کے سابق مقامی مدیر تنویر قیصر شاہد کے علم وفضل کا عین جوانی سے مداح رہا ہوں، وہ جب تک اسلام آباد میں مدیرمقام رہے، گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں پھر وہ دنیاداری کے دھندے تیاگ کر کتابوں میں کھوگئے، اب ان سے ملاقات خال خال ہی ہوتی ہے لیکن ایکسپریس کے گل ہائے رنگین کی خوشبو اور اس کی یادیں تادم آخر میرے قلب و فرین کو معطر کیے رکھیں گی۔

بھائی اشفاق اللہ خان سے دوبارہ ملاقات کا سبب بھی ایکسپریس ہی تھا، میرا لاابالی پن ملاحظہ فرمائیں کہ ایک دن ان سے پوچھ لیا کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں جوکہ ایکسپریس کے اس وسیع و عظیم کارخانے کے کلیدی ارکان میں شامل ہیں۔

جناب سلطان علی لاکھانی سے اس کالم نگار کا ربط ضبط بہت محدود رہا لیکن ان سے احترام آدمیت کا ایسا سبق سیکھا کہ ہمیشہ کے لیے ذہن پر نقش ہوگیا، جناب لاکھانی فون پر اپنا نام بتانے کے بعد ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ فارغ ہیں، بات ہوسکتی ہے اس کے بعد بات شروع کرتے ہیں، جب کالم نگار نے دوست احباب سے اسی طرح شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کی ابتدا کی تو بیشتر حیرت سے سوال کرتے تھے، خیریت ہے یہ ادب آداب کہاں سے سیکھ رہے ہیں۔

اچھی طرح یاد ہے آغاز سفر پر پالیسی امور پر غیر رسمی گفتگو میں لاکھانی صاحب نے کہا تھا ’’پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ۔ پاکستان کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں‘‘پاکستان ایکسپریس کی پالیسی سازی کا مرکز ومحور ہے۔

برادرم ایاز خان اور محترم اعجازالحق نے طبعی ہیجان خیزی پر قابو پانے میں بڑی مددکی اور ذمے دار صحافت کی علمی اور عملی جہتوں سے روشناس کرایا، ایکسپریس ہمہ جہت اور کثیرالفکری گلدستہ بن چکا ہے جو محترمہ زاہدہ حنا، بزرگوار ملک عبدالقادر حسن، برادرم وسعت اللہ خان، تنویر قیصر شاہد ، مقام معرفت پاجانے والے اوریامقبول جان اورحاضر سروس بیوروکریٹ راؤ منظر حیات کی عقل و دانش سے مہک رہا ہے، مجھے تادم آخریہ فخررہے گا کہ مجھے بھی ان نابغہ روزگار شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا شر ف حاصل ہوا ، یہ سب ایکسپریس کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔

اپنی افتاد طبع اورذاتی مسائل کی وجہ سے کچھ عرصے سے لکھنے کے ناغے طویل ہوتے گئے۔لیکن قارئین کے ساتھ ساتھ برادرم لطیف چوہدری کی فہمائش پر ٹال مٹول کرتارہا،یہ بھی عجب واقعہ ہے کہ خاکسار بحرانوں میں 24/7 بروئے کار رہتا تھا لیکن پس پردہ جاری یہ اطلاعاتی سرگرمیاں منظر عام پر نہیںلائی جاسکتی تھیں کہ جس سے ذہنی تسکین کاساماںممکن ہوتا۔

آج بھاری دل اورپرنم آنکھوںکے ساتھ رخصت ہورہا ہوں، خداگواہ ہے کہ اس کا کبھی سوچا بھی نہ تھا لیکن وفا شعاری اور احسان نوازی نے اس پر مجبور کردیا ہے، خدا کا شکر ہے کہ سب دوست احباب جانتے ہیں کہ کوئی مادی منعفت یا جاہ طلبی اس معاملے میں بروئے کار نہیں ہے۔

حرف آخر یہ کہ ایکسپریس نے کارپوریٹ کلچر اور صحافت کی تال میل کو سمجھنے ، علاقائی اور عالمی رجحانات کے ایسے گوشوں سے روشناس کرایاجس کا یہ دیہاتی پس منظر رکھنے والا کالم نگارتصور بھی نہیں کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ایکسپریس خاندان کو تاقیامت آباد وشاد باد رکھے ۔

مسافرعافیت کی دعاؤں کے ساتھ رخصت چاہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔