حکومت کی سمجھ داری یا بیوقوفی

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 5 نومبر 2016

وہ تمام لوازمات جو کسی بھی تحریک میں جان ڈالنے کے لیے درکار ہوتے ہیں، حکومت اپنی حد سے زیادہ سمجھ داری سے یا انتہائی بے وقوفی سے اپوزیشن کو اپنے ہاتھوں مہیا کرچکی ہے۔ ملکی حالات اب اس موڑ پر آ کے کھڑے ہوگئے ہیں کہ حکومت اگر اچھا کرے گی بھی تو بھی اس کے لیے برا ثابت ہوگا اور اگر برا کرے گی تو ظاہر ہے برا ہی ہوگا جب آپ پر برا وقت شروع ہوجائے تو پھر آپ کے مخالفین کو کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا ہے۔

اس کا کام بھی آپ ہی کر دیتے ہیں کیونکہ بوکھلاہٹ، گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں کیے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات کے نتائج ہمیشہ آپ کے خلاف جاتے ہیں، اپنی جلائی ہوئی آگ کو کبھی بھی آپ خود نہیں بجھا سکتے ہیں۔ اس بات پر تو اب سب متفق ہیں کہ حکمران اس وقت بالکل تنہا کھڑے ہوئے ہیں جب کہ دیگر تمام اکثریتی جماعتیں اور ملک کے عوام دوسری جانب کھڑے ہیں۔

ظاہر ہے ملک کے عوام 18/18 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ برداشت کرکے آپ کے حق میں کلمہ خیر اور آپ کے مخالفین کو برا بھلا تو کہیں گے نہیں۔ بیروزگاری، غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی سے تنگ آکر اپنے جسموں کے اعضاء فروخت کرنے والے اپنے لخت جگروں کی سرعام بولی لگانے والے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ اجتماعی خودکشیاں کرنے والے آپ کی خیرخواہی اور آپ کی حکومت کی عمر درازی کی وصیت کر کے تو جائیں گے نہیں۔

آپ چاہیں تو بلاول بھٹو، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری، شیخ رشید، چوہدری برادران اور ان کے تمام رفقاء ساتھیوں ان کے تمام پرستاروں اور تمام کارکنوں کو نظر بند بھی کردیں اور آپ اپنے ایک بھی مخالف کو آزادانہ چھوڑیں پھر بھی لوگوں کی آہیں صدائیں، آہ و بکا، گریہ ضرور رنگ لائیں گی،کیونکہ آہ جو دل سے نکلتی ہے وہ کبھی بھی خالی نہیں جاتی ہے۔

اگر آپ اب بھی خود کو مضبوط، طاقتور اور مستحکم سمجھ رہے ہیں تو آپ ایک اور بے وقوفی کررہے ہیں عوام کو ہر بات اچھی طرح سے سمجھ میں آرہی ہے کیونکہ عوام آپ سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ وہ یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ جب آپ اپنے آپ کو طاقتور، مضبوط ہونے کی بات کرتے ہیں اور مخالفین کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہیں تو اصل میں آپ اپنی کمزوری کا اعلان کررہے ہوتے ہیں، آپ کے وزراء جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاد ار بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں انھیں بولنے کی بیماری لگ گئی ہے۔

بغیر سوچے سمجھے بغیر تولے بولے ہی چلے جاتے ہیں وقت سب سے بڑی درس گاہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ عقل کے استعمال کو کفر کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ۔ مشہور کہاوت ہے کہ جب بچہ سیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے تو استاد فوراً وہاں آجاتا ہے وہ وزراء روز نجی چینلز پر بیٹھ کر اپنے خوف اور کمزوری کا بھانڈا سر عام پھوڑ رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام حکومتیں جب کمزوری کی انتہائی نچلی سطح پر پہنچیں ان تمام میں ایک حیرت انگیز مماثلت پائی گئی ہے کہ حکومت اور ان کے وزراء اپنے آخری وقتوں میں وہی کچھ کہتے رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں جو آج کل حکومت اور حکومتی وزراء کہہ رہے ہیں اورکر رہے ہیں ۔ حکومت کو طاقت عوام فراہم کرتے ہیں جو حکومت عوام کی طاقت کے بجائے پولیس اور ریاست کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھنے لگ جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ وہ حکومت عقل اور دانش سے محروم ہوچکی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں کسی بھی حکمران کو اس کی ریاست کی طاقت یا پولیس نہیں بچا پائی ہے۔ افلاطون کہتا ہے ’’سیاست کو سمجھنے کے لیے ہمیں بدقسمتی سے نفسیات کو سمجھنا پڑتا ہے انسان اور مملکت میں مشابہت ہے حکومتوں میں بھی ایسا ہی فرق ہوتا ہے، جیسا کہ انسان کی سیرتوں میں ہوتا ہے ۔ مملکت فطرت انسانی کی بنی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے ہم اس وقت تک بہتر مملکتوں کی توقع نہیں کرسکتے جب تک ہمارے پاس بہتر آدمی نہ ہوں۔ کیسے دلچسپ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ علاج کراتے اور اپنی تکلیفوں کو بڑھاتے اور پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں۔

یہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی عطائی نسخہ ہاتھ آجائے گا اور وہ اچھے ہو جائیں گے مگر ان کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ در حقیقت ایک ہائڈر گارجیاس (یونانی ضنمیات میں ہائڈر اس سانپ کوکہتے ہیں جس کے ایک سر کے کاٹنے کے ساتھ ہی اور بہت سے سر پیدا ہوجائیں) کا سر کاٹ رہے ہیں ‘‘ ہماری حکومت بھی آج کل درحقیقت ایک ہائڈرگارجیاس کا سر کاٹنے میں مصروف ہے ۔

آئیں! ذرا ایک کہانی ملاحظہ کرتے ہیں ’’میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ بتاؤ جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سو چ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں، جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ لہذا میں نے کہا ’’امی میر ے کان‘‘ انھوں نے کہا ’’نہیں دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہوتے ہیں تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی‘‘ بہت سے سال گذرنے کے بعد انھوں نے پھر پوچھا میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ امی نظر ہر ایک کے لیے بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونی چاہییں۔

انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا تم تیزی سے سیکھ رہے ہو لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہوگیا اور پھر بہت سے سال گذرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہ ہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کی طرح ان کا جواب یہ ہی تھا کہ نہیں لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جارہے ہو پھر ایک سال بعد میرے دادا وفات پاگئے ہرکوئی غمزدہ تھا ہرکوئی رو رہا تھا یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے یہ مجھے خاص طور پر اس لیے یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پھر پوچھا کیا تم جانتے ہوکہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسا ہے تو مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقعے پر یہ سوال میں تو ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے۔

انھوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا یہ بہت اہم سوال ہے تم نے جو جوابات مجھے دیے تھے وہ غلط تھے اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی تھی کہ کیوں لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے۔ انھوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں انھوں نے کہا بیٹا جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں۔

میں نے پوچھا کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے میرے سرکو اٹھا رکھا ہے۔ انھوں نے کہا نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ کندھے اس کے سرکو سہارا دے سکتے ہیں۔ ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے میں صرف یہ امید اور دعا کرسکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو ۔‘‘

کسی بھی سیاست دان کے لیے سب سے قیمتی چیز عوام ہوتے ہیں جو وقت پڑنے پر اپنے کندھے سمیت ہر چیز ان پر قربان کردیتے ہیں ۔ میاں صاحب حکومت بچاتے بچاتے سارے کندھے مت کھو دیجیے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت بھی نہ رہے اور کسی پیارے اور مخلص کا کندھا بھی نہ ملے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔