جنابِ عمران خان! اگر اُڑنا نہیں آتا تھا تو پنگا کیوں لیا؟

رحمت علی رازی  اتوار 6 نومبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

2 نومبر کے ’’سقوطِ دھرنا‘‘ کی کیا روداد بیان کریں کہ عمران خان نے تو ایک ایسا جرنیل ہونے کا ثبوت دیا جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتا ہے‘ کپتان نے سیاست کی بساط پر لڑی جانے والی اس زندگی موت کی جنگ میں گھمسان کے عین ایک روز قبل سرنڈر کر کے نہ صرف سیاسی خودکشی کی بلکہ اپنی پارٹی کا صدقہ دیکر نون لیگ کے سر سے تمام بلائیں بھی ٹال دی ہیں‘ اسے عمران کی بودی حکمتِ عملی نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے جس نے وینٹی لیٹر پر پڑے وزیراعظم کو حیاتِ نو عطا کر دی ہے۔

اس کے پرستار تو یہ سمجھ رہے تھے کہ کپتان آخری گیند تک فائٹ کریگا مگر وہ تو سفاک باؤلروں کے خوف سے ڈریسنگ روم سے باہر ہی نہیں نکلا‘ جو میدان میں نہیں اُترتا اسے مردِمیدان نہیں کہا جاتا‘ ہارجیت مقدر کی بات ہے مگر مجاہدوں کے لیے لڑنا فرض ہے۔ نیک مقصد کے لیے جان دینے والوں کو ہلاک نہیں شہید کہا جاتا ہے اور زندہ لوٹنے والوں کو غازی! اب تو پی ٹی آئی کے شہنشاہ کو شہید ہی کہہ سکتے ہیں، نہ غازی! میچ فکس کرنیوالوں یا جان بخشی کرانیوالوں کو تاریخ اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتی۔

گزشتہ کالم میں ہم نے پی ٹی آئی کے دھرنے کے حوالہ سے نومبر میں پیش آ سکنے والے ممکنہ حالات و واقعات کا نقشہ کھینچا تھا اور کچھ ایسے منفی اور مثبت مفروضات پیش کیے تھے جو متوقع طور پر کپتان اور وزیراعظم کے ساتھ پیش آ سکتے تھے مگر جب عمران خان نے ایک ایسی غیریقینی اور غیرمتوقع چال چلی کہ سب تجزیے اور پیش بینیاں دھری کی دھری رہ گئیں تو یوں لگا جیسے کھلاڑی نے ستاروں اور برجوں کو بھی دھوکا دیدیا ہے، تاہم ہمیں اس پر بھی یقین نہ آیا اور ہم سمجھے کہ ماہِ دسمبر میں کپتان کو راستے سے ہٹا دیے جانے کا بھی تذکرہ تھا، ہو سکتا ہے وہ موت سے ڈر گیا ہو اور راہِ فرار اختیار کر کے سپریم کورٹ میں پناہ لے لی ہو مگر ایسا نہیں تھا‘ دراصل غلطی تو ہمارے مفروضے میں تھی بلکہ غلطی نہیں کمی تھی کیونکہ نومبر میں پیش آمدہ ممکنہ حادثات و واقعات میں ہم نے ایک واقعہ کا ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ ہمیں یہ اُمید نہیں تھی کہ کپتان کوئی بزدلانہ حرکت بھی کر سکتا ہے۔

وہ واقعہ یہ ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو جب پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ان کے گھروں پر ہی نظربند کیا جانے لگا اور جب عمران خان کو اس بات کی اطلاع ملی تو وہ لمز یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے‘ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ اپنی بہنوں کے گھر زمان پارک جا پہنچے تو وہاں بھی پولیس موجود تھی جس نے انہیں گرفتار نہ کیا اور وہ اندر بھی چلے گئے مگر خوف کے مارے انھوں نے بھانجے کی مدد سے دیوار پھلانگی اور ہمسایوں کے باغ میں جا چھپے‘ اس کے بعد کیا ہوا یہ وہی جانتے ہیں‘ اس واقعہ کا تذکرہ انھوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی کر رکھا ہے۔

اگر ہمیں یہ اندازہ ہوتا کہ یہ بہادری وقتی نہیں تھی بلکہ یہ تو جناب کا وصفِ حمیدہ ہے، تو ہم ضرور نومبر کے مفروضات میں یہ اضافہ بھی کر دیتے کہ عمران خان بنی گالہ میں نظربندی کے دوران کمال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاری کے ڈر سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے اور کوئی نہ کوئی فرار کا جواز تلاش کریں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ واقعی خود کو دہراتی ہے اور ستاروں کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا۔

ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ٹل گئی‘ ہم محاذآرائی کی سیاست کے قطعی حمایتی نہیں‘ ہمیں تو افسوس کپتان کی حکمتِ عملی پر ہے‘ اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ عیش وآرام کی زندگی ترک نہیں کرنا چاہتا‘ اسے عوام کا کوئی درد نہیں‘ وہ فقط اپنی اَنا کی جنگ لڑ رہا ہے، بھلے ہی اس کام میں اس کی اَنا داؤ پر لگ جائے‘ کپتان کے عمل نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اسے پانامہ لیکس کے ایشو سے کوئی سروکار نہیں‘ اس کی جنگ صرف ذاتی جیت کے لیے ہے جس کے لیے وہ شریفوں پر کبھی کوئی بہانہ تراش کر یلغار کرتا ہے، کبھی کوئی۔

اگر وہ عوام کی جنگ لڑ رہا ہوتا تو اپنی جان کی قربانی سے بھی گریز نہ کرتا اور ٹیپو سلطان کی طرح شیرِمیدان بن کر دکھاتا‘ جو مرنے سے ڈرتا ہے وہ انقلاب کے معنی کیا جانے۔

باریوں اور دیہاڑیوں کی سیاست اور جمہوریت کے چندھیا دینے والے حسن نے وطنِ عزیز کو ناکام ریاست بنا دیا ہے‘ کرپشن اور خویش پروری کے نظام اور طاقتوروں کے محافظ قانون نے 80 فیصد عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے‘ بنیادی سہولیات اور انسانی حقوق سے محروم اس پاکستانی معاشرے میں انسان کیڑے مکوڑوں کی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ ایسے میں یہ قوم کسی مسیحا کی تلاش میں تھی جو عوام کے ارمانوں کا خون کرنیوالے کرپٹ سیاستدانوں اور افسرشاہوں سے انکو نجات دلا سکے۔

عمران خان کے ظہور نے اندھیرے معاشرے میں اُمید کی کرن جگائی تھی اور 2013ء کے انتخابات سے پہلے پاکستان کی نوجوان نسل نے اسے اپنا سیاسی امام تصور کر لیا تھا‘ اس کے لیے گھریلو کرداروں کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کے اکابرین کو بھی تحریکِ انصاف کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا تھا مگر انتخابات میں معمولی شکست نے کپتان کے اوسان خطا کر دیے اور یوتھ کو مزید مضبوط کرنے کے بجائے اس نے دیگر سیاسی جماعتوں کی تلچھٹ اور غلاظت سمیٹنے کو غنیمت جانا۔

جب اس نے دھاندلی کا شور مچایا (جوشاید درست بھی تھا) تب اس کے مداحوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور سوا چار ماہ تک اسلام آباد میں اس کے دھرنائی بن کر بیٹھے رہے مگر جب اس نے سیاسی حماقتوں کا ارتکاب کرنا شروع کیا اور یوٹرن پہ یوٹرن مارنے لگا تو اس کے اپنے ووٹر بھی بددل ہوتے گئے‘ پھر جب پارٹی کو شہنشاہ کی طرح ڈیل کیا اور دائیں بائیں درباری شہرت والے مشیر کھڑے کر لیے تو اس کا گراف آسمان سے کھجور میں آ پڑا اور لطف تو یہ ہے کہ جناب کو اس اَمر کا احساس تک نہ ہوا اور خوش فہمی میں چل چلاؤ کرتے رہے۔

یوتھ کو ازسرِنو منظم نہ کرنے اور پارٹی کی اندرونی توڑپھوڑ سے نظریں چرانے کے عمل نے عمران خان کو اصغر خان بنا دیا اور تحریکِ انصاف کو تحریکِ استقلال۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ریاستی ادارے اور عوام بحیثیت ِ مجموعی سیاستدانوں کی کرپشن سے ناک ناک آ گئے تھے اور ذہنی اور دلی طور پر پانامہ لیکس کی جنگ کو زندہ رکھنے پر عمران خان کے حمایتی تھے اور اگر وہ تھوڑی سی ہمت کرتے تو اس بار نیا پاکستان بن سکتا تھا۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے جاری جنگ اب سڑکوں سے نکل کر سپریم کورٹ میں پہنچ گئی ہے‘ اس جنگ کو سپریم کورٹ سے سپریم کورٹ تک کا سفر طے کرنے میں تقریباً 7 ماہ لگے‘ بلاشبہ اس دوران صرف ایک ہی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتی دکھائی دی‘ اس نے اگر یہ بیڑا نہ اٹھایا ہوتا تو یہ ایشو نا جانے کب کا اپنی موت آپ مر چکا ہوتا کیونکہ باقی کسی جماعت نے اس معاملے کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے لائق ہی نہ جانا۔

پارلیمانی جدوجہد میں ناکامی کے بعد صرف تحریکِ انصاف ہی وہ واحد جماعت تھی جو پانامہ پیپرز کے معاملے میں حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف سڑکوں پر نظر آئی، اسی جدوجہد کے نتیجے میں یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ ہماری دانست کے مطابق ’’مہربانوں‘‘ کی حکمت عملی تھی یا حکمرانوں نے ہاتھ جوڑے کہ اگراحتجاج کا یہ سلسلہ نہ رُکا تو اس کا کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کی یہ حکمت عملی بھی درست ثابت ہوئی کہ تحریک انصاف اور دیگر 4 جماعتوں کی سماعت لاک ڈاؤن کی تاریخ سے پہلے کر لی جائے تو عوام کو اس کے مضر اثرات سے بچایا جا سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ اب لاک ڈاؤن کی کال واپس لینے پر عمران خان کی مخالف جماعتیں ان پر تنقید کر رہی ہیں‘ انہیں یوٹرن خان قرار دیا جا رہا ہے۔ کپتان کے اس انوکھے یوٹرن نے اس کے ڈائی ہارڈ ووٹروں کو بھی انگشتِ بدنداں کر دیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے کارکنان ان کی یوٹرن کی پالیسی سے مایوس ہیں اور دیگر اہم پارٹی رہنماؤں کی طرح دباؤ میں بھی ہیں۔

3 سال کے دوران اپنے رہنما کے مایوس کن یوٹرن کے باوجود ان کے ساتھ کھڑے رہنے والے تحریکِ انصاف کے کئی حمایتی و کارکنان اپنے ہم خیال ساتھیوں کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں جو مسلسل سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

عمران خان ہر یوٹرن کے بعد اپنے لاتعداد حامیوں، خیرخواہوں اور ووٹروں کو کھو دیتے ہیں‘ نوازشریف اور چوہدری نثار کو بنی گالہ جا کر عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ کپتان ہمیشہ ہی حکومت کے محسن ثابت ہوئے ہیں۔ اگر کھلاڑی خود باہر نکلتا تو اس کی ٹیم بھی باہر نکلتی‘ وہ زیرو پر بھی آؤٹ ہو جاتا تو نقشہ کچھ اور ہوتا مگر جب ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر میچ سے پہلے ہی ہار ڈیکلیئر کر دی گئی تو ایسی صورتحال پر تبصرہ نہیں بلکہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

2014ء کے دھرنے میں پی ٹی آئی کا جو مومینٹم بنا تھا اس کی وجہ بھی اب سمجھ میں آتی ہے جو یقینا طاہرالقادری اور ان کے فدائین تھے جو موت سے بھی ٹکرانے کے لیے تیار تھے‘ اس بار جب کپتان کے فرنٹ لائن ووٹر باہر نہیں نکلے تو ثابت ہو گیا کہ کپتان کی طرح اس کا ہراوّل دستہ بھی خطروں سے ٹکرانے کا حوصلہ نہیں رکھتا کیونکہ ایسے کاموں میں برگر سوسائٹی بِلوں میں چھپ جاتی ہے کیونکہ یہ سوسائٹی خود کرپشن کی پیداوار ہے اور ان کے لیے شمشیر و سناں نہیں بلکہ طاؤس و رباب اوّل ہے۔

کھلاڑی کی اس قلابازی سے اس کے حلیفانِ بغل شیخ رشید اور طاہرالقادری بھی سخت مایوسی میں ہیں‘ قادری نے تو پاناما لیکس پر اِنا للّٰہِ وانا الیہِ راجِعون پڑھ کر کہہ دیا، ’’لگتا ہے پانامالیکس کہیں گم ہو گئی ہے‘ میرا تجربہ ہے اداروں میں جانے سے کچھ نہیں ملتا‘ پاناما لیکس کا معاملہ پانی میں مدھانی ڈالنے کے مترادف ہے‘ اس معاملے میں مکھن نہیں نکلے گا‘ چیف جسٹس آئندہ ماہ ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا ان کے بعد نیا بینچ قائم ہو گا؟ نوازشریف یہ وقت گزار لینگے، وہ معاملات ٹالنے کے ماہر ہیں‘‘۔

اس بار طاہرالقادری نہیں تھے اور شیخ رشید بھلے اکیلا تھا مگر وہ مرد کا بچہ ثابت ہوا‘ وہ لال حویلی میں ’’ون مین جلسہ‘‘ کر کے ہیرو بن گیا اور کپتان بھونڈا یوٹرن مار کر زیرو ہو گیا۔ خطرہ تو بینظیربھٹو کو بھی تھا مگر وہ نڈر خاتون تھی‘ وہ اپنے ووٹرز کے لیے باہر نکلی اور جان دیکر شہیدِ جمہوریت کے مقام پر فائز ہو گئی۔

اب معاملہ عدالت میں جا پہنچا ہے اور کپتان نے اپنی تلوار عدلیہ کو سونپ کر یومِ تشکر بھی منا لیا ہے مگر تعجب ہے عمران خان نے کس بات پر جشن منایا؟ کیا انھوں نے اس پانچ دن کے بچے کی ہلاکت کا جشن منایا جسے تحریک کا پہلا شہید قرار دے رہے تھے یا کھائی میں گر کر جاں بحق ہونیوالے فوجی افسر کی شہادت کا جشن منایا؟

عمران خان کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے ایکشن پر یومِ تشکر منانے کا اقدام ناقابلِ فہم ہے‘ ابھی تو فیصلہ ہونا ہے، اس سے پہلے اس طرح کے کام مناسب قرار نہیں دیئے جا سکتے‘ کل کو اگر فیصلہ نوازشریف یا ان کے بچوں کے حق میں آ جاتا ہے تو پھر وہ کیا کرینگے؟ کیا وہ دھرنے میں بدترین ناکامی اور قوم کا وقت ضایع کرنے پر جھوٹی اور جعلی فتح کا جشن منا رہے تھے یا پھر اپنے 1500 کارکنوں کی گرفتاری کا؟ کپتان نے میچ ختم ہونے سے قبل ہی جشن منانا شروع کر دیا جب کہ میچ تو ابھی شروع ہوا ہے لیکن کیا اعتبار ہے کہ کپتان عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم بھی کریگا؟

یہ بھی کیونکر مان لیا جائے کہ نوازشریف عوام کے مسائل حل کیے بغیر بڑھکیں مارتا رہیگا اور کپتان کل کو دوبارہ سڑکیں نہیں ناپے گا، اس لیے اب کوئی تجزیہ کرنا عبث ہو گا کیونکہ ایک طرف روایتی داؤپیچ کی سیاست ہے اور دوسری طرف یوٹرن پولیٹکس۔ ملک کی سیاسی صورتحال میں یہ ڈرامائی تبدیلی ہے‘ سپریم کورٹ نے ایک طرح سے ازخودنوٹس لے لیا ہے‘ اس میں پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے کا ایشو نہیں رہا۔

وزیراعظم نے پرویز رشید کو فارغ کر کے فوج کو پیغام دیا کہ فوج کی تشویش میری تشویش ہے‘ اس پیغام نے بھی صورتحال کی تبدیلی میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا‘ پل ہی پل میں کیا ماجرا ہوا؟ ڈویلپمنٹ اچانک نہیں ہوئی‘ عدالتِ عظمیٰ چند روز سے حالات کا مشاہدہ کر رہی تھی‘ نون لیگ کو اندازہ تھا کہ سپریم کورٹ نے کوئی راہ نکالی تو عمران خان دھرنا منسوخ کر دیں گے‘ سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے تو عجیب سا دعویٰ کر دیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں بیک ڈور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا‘ یہ مذاکرات کامیاب رہے۔

پلی بارگیننگ نے دھرنے کو دھرا رہنے دیا اور تشکر میں تبدیل کر دیا‘ ہمارے نزدیک دھرنا منسوخ کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ حکمرانوں نے رکاوٹوں اور تشدد کی حکمتِ عملی اپنائی، اس وجہ سے وہ معقول تعداد میں مظاہرین کو اسلام آباد میں جمع نہ کر سکے‘ ویسے ان کی شہرت یہ رہی ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کرتے لیکن اس بار انھوں نے سپریم کورٹ‘ اسلام آباد و لاہور ہائیکورٹس کے فیصلوں کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل کیا‘ عمران کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے وعدوں سے مکر جاتے ہیں۔

2014ء میں بھی انھوں نے چوہدری نثار سے ریڈزون نہ جانے کا وعدہ کیا تھا‘ اس بار بھی عمران خان کے منصوبے کی متعدد وجوہات ہیں‘ جب ان کا کارکن پولیس کا سامنا کر رہا تھا وہ بنی گالہ میں بیٹھے رہے اور ٹی وی پر باتیں کرتے رہے، 27 اکتوبر سے یکم نومبر تک پولیس اور ایف سی کے ساتھ تحریکِ انصاف کی جھڑپوں کے دوران عمران خان اپنے کارکنان کو ریسکیو کرنے کے لیے ایک بار بھی اپنی آرائشی رہائشگاہ بنی گالہ سے نہ نکلے جسکے نتیجے میں عمران خان نے کئی وفادار کارکنان کا اعتماد چکناچور کر دیا جو 30 اکتوبر 2011ء سے تحریکِ انصاف کی درجنوں ریلیوں اور دھرنوں میں شرکت کر چکے تھے۔

تحریکِ انصاف کی قیادت کا یہ حیران کن طرزِعمل تھا کہ عمران خان اعلان کے باوجود نہ توشیخ رشید کے جلسے میں 28 اکتوبر کو راولپنڈی پہنچے نہ ہی اعلان کے باوجود سپریم کورٹ آئے‘ اس عرصے میں انھوں نے پولیس کی وہ پکیٹ تک کراس نہیں کی جو پولیس نے ان کی رہائشگاہ سے کچھ فاصلے پر قائم کی تھی‘ دوسری جانب ان کے اتحادی شیخ رشید بلاخوف و خطر راولپنڈی پہنچے اور اسلام آباد میں بھی گھومتے پھرتے دکھائی دیئے۔

دھرنا ختم کرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کارکنان کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی کی جنرل باڈی کا اجلاس بلا کر عمران خان کو چارج شیٹ کریں اور مستقبل کے لیے ایسی ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی بنائیں جو پی ٹی آئی کو آئندہ ناکامی سے ہمکنار نہ کر سکے۔

یہ درست ہے کہ پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کارکنوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے لیکن کسی مجمع نے ویسے ہی اسلام آباد پہنچنے کی کوشش بھی نہ کی‘ پنجاب میں پی ٹی آئی کے سارے رہنما کارکنوں کو نکالنے کی بجائے بنی گالہ میں دبکے رہے‘ ماسوائے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے، عمران سمیت کسی بھی پی ٹی آئی رہنما نے سختی کا سامنا کرنے کی جرأت نہ دکھائی‘ پرویز خٹک کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے زہریلی آنسو گیس اور تشدد کا سامنا کر کے پی ٹی آئی کی لاج رکھ لی۔

پنجاب سے مایوسی کے بعد عمران خان کی آخری اُمید خیبرپختونخوا تھا‘ یہ کوشش بھی سرکاری مشینری نے سخت اقدامات سے ناکام بنا دی‘ جلوس اسلام آباد نہ پہنچنے پر عمران فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے‘ درحقیقت وہ تبھی لاک ڈاؤن ختم کرنیکا فیصلہ کر چکے تھے جب انھوں نے پرویز خٹک کو صوابی جانے کو کہا‘ لوگ جمع نہ کر سکنے سے پورے پاکستان میں پی ٹی آئی کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ بھی بے نقاب ہو گیا ہے۔

2013ء میں دوسرے نمبر پر آنیوالی پارٹی اسلام آباد میں چند ہزار لوگ بھی جمع نہ کر سکی‘ سندھ اور بلوچستان نے لاک ڈاؤن پر صفر ردعمل دیا‘ کسی لیڈر نے لوگ لانے کا اعلان تک نہ کیا‘ دس لاکھ افراد کا عمران کا ہدف کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہت بڑا تھا‘ بنی گالہ کے آس پاس موجود لوگوں کی تعداد بھی چند سَو ہو گی‘ یہ واضح ہو گیا کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور ٹیکسلا، جہاں پی ٹی آئی نمائندوں کو 2013ء میں کافی ووٹ ملے تھے، وہاں کے عوام نے بھی کپتان کے لاک ڈاؤن پر کوئی توجہ نہ دی‘ اگر وہ لوگ توجہ دیتے تو وہاں سے چند ہزار لوگوں کا نکلنا مشکل نہ تھا‘ لاک ڈاؤن کا سارا شور بنی گالہ میں اور خیبرپختونخوا تک محدود رہا۔

یکم نومبر ان لوگوں کے لیے ضرور شامِ غریباں کی حیثیت رکھتا ہے جو سمجھتے تھے کہ عمران خان کے پیچھے فوج ہے‘ اب ثابت ہو گیا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، عمران خان اپنے طور پر سب کچھ کر رہے تھے۔

سپریم کورٹ کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت نیچے تو ضرور آیا لیکن جمہوریت کے ساتھ ساتھ سیاست کی ہار بھی ہوئی‘ اگر سیاست جیتی ہوتی تو معاملہ عدلیہ تک نہ جاتا پارلیمنٹ میں ہی طے ہوتا‘ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین جاری رہنے والی آنکھ مچولی نے یہ ثابت کیا کہ سپریم کورٹ کی بروقت کارروائی نے جہاں حکومت کو مزید بدنامی کا شکار ہونے سے بچا لیا وہیں عمران خان کی عزت بھی بچ گئی۔

عمران خان کے پاس پچاس ہزار لوگ ہوتے تو وہ سپریم کورٹ والی بات کبھی نہ مانتے‘ انھوں نے دھرنے میں متوقع ناکامی دیکھتے ہوئے عدالت کا کہا مانا‘ پاناما معاملہ پر عمران خان کی حکمتِ عملی ناکام اور وزیراعظم کی کامیاب ہو گئی ہے‘ سپریم کورٹ میں عمران خان اور نوازشریف دونوں کی ڈس کوالیفکیشن کی درخواستوں پر بہت جلد فیصلہ ہو جائے گا‘ نوازشریف پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کیس دو دن میں ختم نہیں ہو سکتا‘ اس لیے عدالت اس راستے پر نہیں جائے گی‘ چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ (30دسمبر) سے قبل ایک سے دو ماہ کے اندر معاملہ ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

حکومت اور اپوزیشن ٹی اوآرز پر متفق نہیں ہو رہے تھے، اس صورتحال میں سپریم کورٹ کو ہی قانون اور ٹی اوآرز کا فیصلہ کرنا تھا۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریکِ انصاف ٹی اوآرز پر اتفاق کر سکیں گی؟ اعتراز احسن کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ خود ٹی اوآرز نہ بنائے‘ ٹی او آرز اسمبلی میں پاس ہونگے جسکے تحت قانون بنے گا‘ اسی قانون کے تحت سپریم کورٹ میں کیس چلنا چاہیے۔

عدالت کو تو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ خود ٹی او آرز بنائے‘ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عدالت کس قانون کے تحت یہ تحقیقات کریگی‘ اس فیصلے سے مزید سوالات نے جنم لیا ہے‘ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا کمیشن کے ٹی اوآرز پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو جائے گا؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ قانون سپریم کورٹ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک طاقتور کمیشن بنا دے، کمیشن بنانے کے موجودہ قانون کے محدود دائرہ کار کا حوالہ دیکر سپریم کورٹ پہلے ہی کمیشن بنانے سے انکار کر چکی ہے‘ اب کونسی ایسی پاور ہے جسکا استعمال کر کے کورٹ ایک طاقتور کمیشن بنائے گی؟

پیپلزپارٹی پانامابل بھی جزوی پاس کرا چکی ہے جسکے ذریعے وہ زرداری ٹولے کے علاوہ سب کا احتساب چاہتی ہے‘ اس ضمن میں سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ نے اعتزاز احسن کا ہم آواز بن کر احتجاج کیا ہے کہ سپریم کورٹ پاناما لیکس ٹی اوآر کے معاملہ پر کوئی کمیشن وغیرہ تشکیل نہ دے بلکہ اس کیس کو ٹرائل کے لیے متعلقہ عدالت میں بھیجا جائے۔

اگر یہ روایت قائم کر دی گئی کہ کرپشن کیسز میں پہلے ملزم فریق ٹی اوآر بنوائے تو پھر ہر ملزم اس کا فائدہ اٹھائے گا اور کہے گا کہ ٹرائل سے پہلے اس کی مرضی کے ٹی اوآر بنائے جائیں۔ بعض پی ٹی آئی رہنما ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے سپریم کورٹ کمیشن صرف وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف کارروائی کریگا یا تحقیقات میں مدد دیگا حالانکہ 5 میں سے 4 درخواست گزار پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ ان کی درخواستوں میں اب تک افشاء تمام آف شور کمپنیوں کی تفصیلی طور پر تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔

کپتان کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نون لیگ نے بھی حنیف عباسی کے ذریعے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ٹیکس چوری اور کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے کے الزام میں سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کروا دی ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے مجوزہ اعلیٰ اختیاراتی جوڈیشل کمیشن میں اس بات کا امکان ہے کہ اس میں مرکزی کردار نیب کا ہو گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی سیاستدان نیب کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں‘ نیب کو تحقیقاتی ادارہ نامزد کرنے سے پہلے یہ بھی خیال رہے کہ 1980ء سے تحقیقات کا آغاز کرنے کے لیے نیب آرڈیننس میں قانونی ترمیم کی ضرورت ہو گی جو پارلیمنٹ کا کام ہے۔

بظاہر تو لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میںسیاسی بحران ٹل گیا ہے، حکومت اپنی مدت پوری کریگی اور انتخابات اپنے وقت پر ہونگے مگر درحقیقت سیاسی بحران ابھی ٹلا نہیں ہے، جب تک نون لیگ پر پاناما لیکس اور ڈان لیکس کی دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا‘ مستقبل میں نوازحکومت کے لیے خطرات بڑھیں گے، بحران سنگین ہو گا اور نواز حکومت کے قبل از وقت خاتمے کا امکان بھی بڑھ جائے گا‘ یہ بھی امکان ہے کہ مجوزہ جوڈیشل کمیشن انہیں مستعفی ہونیکا کہہ دے کیونکہ اس پر کپتان کا مسلسل دباؤ ہو گا۔

نوازشریف خود تو معصوم بن رہے ہیں اور پاناما لیکس میں نام نہ ہونے پر بری الذمہ ہونیکی کوشش میں ہیں مگر ان کے بچوں نے بھی کوئی تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع نہیں کروایا‘ حسن، حسین اور مریم کو خودکفیل ظاہر کیا جا رہا ہے مگرکیا ان کراماتی بچوں سے پوچھا جائے گا کہ کم عمری میں اربوں کی جائیدادیں کس جادو کی چھڑی سے خریدی گئیں؟

وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے فلور پر جو موقف دیا وہ عدالت میں جمع کروائے گئے بیان سے متصادم ہے‘ یہ کہنا کہ کوئی بچہ ان کی زیرکفالت نہیں، 2013ء میں الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں سے متصادم ہے‘ 7 ماہ کے طویل عرصہ میں کاغذات میں ضروری ردوبدل اور تبدیلیاں عمل میں لائی جا چکی ہیں‘ دیکھتے ہیں تحقیقات کرنیوالوں کا دائرہ اختیار کب چیلنج ہوتا ہے اور عوام اور آئین کی ’’حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ‘‘ شفاف تحقیقات کی خاطر کونسا نیا قانون پاس کرتی ہے۔

کرپشن کا یہ واحد کیس ہے جسکے ثبوت ملزمان کے بیانات اور خود چلتے پھرتے ملزمان اور ان کی جائیدادیں ہیں‘ وزیراعظم کے خلاف پٹیشن کی منظوری اور سماعت کے آغاز سے نوازشریف کی بطور وزیراعظم اخلاقی حیثیت ختم ہو گئی ہے مگر شریف برادران کی جمہوریت اور اخلاقیات کا آپس میں کیا لینا دینا؟ کمیشن پہلے بھی کئی بنے اور آئندہ بھی بنیں گے مگر رپورٹیں منظرعام پر نہیں آتیں۔

دھرنے کی منسوخی اور پاناما لیکس کا سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ حکومت کی فتح ہے یا اپوزیشن کی کیونکہ اس کا دارومدار سپریم کورٹ کی آئندہ کارروائی پر ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کڑا پیمانہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال ہوا تھا، کیا وہی پیمانہ نوازشریف کے خلاف بھی استعمال ہو گا یا نہیں؟

ہم سمجھتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے اپنے کندھوں پر بہت بھاری قومی بوجھ اٹھا لیا ہے جسکے بعد اب تمام اہم سیاسی جماعتوں، میڈیا اور تجزیہ نگاروں کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو کسی منطقی نتیجہ پر پہنچنے دیں اور اپنے فیصلے نہ سنائیں‘ اگر سپریم کورٹ اس کرپشن کا پتہ لگانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر موجودہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ طویل عرصہ تک برقرار رہ سکتا ہے جو پاکستان اور اس کے عوام کی بڑی بدقسمتی ہو گی۔

ہم تو عدالتِ عظمیٰ سے یہ بھی عرض کرینگے کہ آصف زرداری، الطاف حسین، اسفندیار ولی، فضل الرحمن اور جو بھی اقتدار میں رہے ہیں انہیں بھی اس کمیشن میں شامل کر لیں، باقی جو بزنس مین بھی پاناما لیکس میں آتے ہیں انہیں بھی جوابدہ بنایا جائے اور جو بھی مجرم ٹھہریں ان سے بدعنوانی کا پورا پیسہ وصول کر سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے، تبھی اس کمیشن کا فائدہ ہو گا، اگر ایسا نہ ہوا تو اس مشقت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔