دی سیٹزنز فاؤنڈیشن تعلیم کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہے، ریاض احمد کملانی

عارف عزیز  اتوار 6 نومبر 2016
1995 میں ’’دی سٹیزنز فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور آج ملک بھر میں یہ ادارہ علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

1995 میں ’’دی سٹیزنز فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور آج ملک بھر میں یہ ادارہ علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

آنکھوں میں دمکتے خوابوں کو تعبیر، دلوں میں کروٹ لیتی امیدوں اور جگمگاتی خواہشوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کوئی آسمان سے نہیں اترا۔ کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا، ایسا کچھ نہیں جسے عقل سے ماورا اور حدِ فہم سے باہر سمجھا جائے۔ یہ سب ایک فکر اور جذبۂ خدمت کا نتیجہ تھا۔

قدرت نے انسان کو اس قوت اور جوہر سے نوازا ہے جو تقدیر بدل سکتا ہے، وہ حوصلہ، جو اڑان بھرے تو آسمان کی وسعتیں اس کے آگے بے بس ہوجائیں، وہ طاقت، جو پہاڑ کا سینہ چیر دے۔ بات صرف ہمّت اور ارادہ کرنے کی ہے اور انہوں نے یہی کیا۔

مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے
مری اڑان کے آگے تو آسماں کم ہے

وہ اُس معاشرے کا حصّہ تھے جس میں مسائل اور مشکلات کی وجہ سے خوابوں اور امیدوں کی تکمیل آسان نہ تھی۔ غربت اور بھوک کے ہاتھوں زندگی قدم قدم پر رُسوا ہوتی، بیماری کا دوسرا نام موت تھا، جہالت کی تاریکی نے استحصال کا راستہ ہموار کر رکھا تھا اور خوش حالی اور بہتر زندگی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ وہ پانچ دوست تھے، تجارت اُن کا پیشہ تھا اور اپنے کاروبار کی غرض سے شہرِ قائد میں مقیم تھے۔ ان کی زندگی کاروباری سودے اور نفع کے گرد گھومتی تھی۔

آسودہ حال، مطمئن اور شاد باد، مگر درد مندی، حساسیت، ایثار اور جذبۂ خدمت سے سرشار تھے۔ انہوں نے جانا کہ تمام مسائل کی جڑ جہالت ہے، ناخواندگی ملکی ترقی اور خوش حالی کا راستہ روکے کھڑی ہے۔ اگر ہم اِسے شکست دے سکیں تو غربت اور بھوک سے نجات مل سکتی ہے، جرائم کا راستہ روکا جاسکتا ہے، کردار سازی ممکن ہے، جس کا اثر فقط ایک کنبے پر ہی نہیں بلکہ معاشرے پر پڑتا ہے، سماج میں مثبت اور مؤثر تبدیلی کے ساتھ دوسرے تمام مسائل تعلیم عام ہونے سے حل ہوسکتے ہیں۔

یہ سوچ کر اِنہوں نے 1995 میں ’’دی سٹیزنز فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور آج ملک بھر میں یہ ادارہ علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ ایک مقصد اور سمت کا تعین کرکے آگے بڑھنے والوں نے طے کیاکہ فرد نہیں، فکر اور ادارے اہم ہوتے ہیں، کام بڑا ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ سوچ اور نظریہ آج بھی اس ادارے پر حاوی ہے۔ ٹی سی ایف کے تحت کراچی میں پہلے پانچ اسکولز بانیوں نے ذاتی خرچ سے بنائے اور پھر مخیرحضرات کا تعاون حاصل ہوا تو ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بھی اسکولز قائم کر کے تعلیم دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ٹی سی ایف ایک غیرمنافع بخش ادارہ ہے جو باقاعدہ نظام اور طریقۂ کار کے تحت کام کررہا ہے۔ ادارے کے بانیوں نے ناخواندگی اور تعلیم سے دوری کے اسباب کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکثر بچے اس لیے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کہ ان کے محلوں میں اسکولز نہیں ہیں، وہ دور نہیں جاسکتے، کیوں کہ والدین آمدورفت کا خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسی طرح نجی اسکولز کی فیسیں اور دیگر اخراجات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

دوسری طرف یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ والدین بیٹوں کو تو اسکول بھیجنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، لیکن لڑکیوں کو اپنی نظروں سے دور کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ اس کی وجہ عام معاشرتی مسائل ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کے ساتھ نامناسب سلوک اور ان کی عزت و وقار کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس ہے، اسی لیے ٹی سی ایف کے تحت دور دراز علاقوں میں اسکولز قائم کیے گئے تاکہ لڑکیاں بھی آسانی سے پہنچ سکیں۔

کراچی کی چند کچی بستیوں سے شروع ہونے والا سفر آج ملک بھر میں 1202 اسکول یونٹس کی صورت پھیلا ہوا ہے جن میں دو لاکھ سے زائد طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹی سی ایف نے متعدد سرکاری اسکولز کا انتظام بھی معاہدے کے تحت سنبھالا ہوا ہے۔

ریاض احمد کملانی چند سال سے اس ادارے کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عہدہ وائس پریزیڈنٹ کا ہے جب کہ نصابی امور ان کی مہارت کا شعبہ ہے۔ بتاتے ہیں کہ ٹی سی ایف کے انتظام پر نظر ڈالی جائے تو اسے تین بڑے حصّوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں تمام ضروری وسائل کی دست یابی اور انتظامی امور کے علاوہ نصاب، تعلیمی و تربیتی عمل اور دیگر متعلقہ پروگرامز شامل ہیں اور یہی کام ان کے سپرد ہے۔

روشنی کے اس سفر کی بابت وہ بتاتے ہیں کہ ٹی سی ایف کی بنیاد ایک مقصد اور منزل کی سمت کا تعین کرتے ہوئے رکھی گئی۔ چند لوگوں کی کوشش آج کئی آنکھوں کے سپنے اور امیدیں پوری کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمارے ہاں بچوں کی بڑی تعداد اسکولز اس لیے بھی نہیں جاتی کہ وہ ان کے گھروں سے بہت دور قائم ہیں، اگر قریب میں کوئی اسکول ہے تو بند پڑا ہے، اگر تدریسی عمل جاری ہے تو یہ ایسا اسکول ہے جس کی ماہانہ فیس اور دیگر اخراجات پورا کرنا ان کے والدین کے بس میں نہیں۔

ٹی سی ایف کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا کہ کوئی بھی بچہ اسکول کے دروازے سے اس لیے نہ لوٹایا جائے کہ اس کے والدین تعلیمی اخراجات پورے نہیں کرسکتے۔ ان اسکولز کی بنیاد رکھتے ہوئے ان نکات کو اہمیت دی گئی کہ درس گاہ تک رسائی آسان ہو، تعلیم کا معیار بلند اور تعلیمی سلسلے کے اخراجات والدین کے لیے قابلِ برداشت ہوں۔ ریاض احمد کملانی کے مطابق ایک طالب علم کا ماہانہ خرچ 1400 روپے ہے جس میں کتابیں، یونیفارم، ٹیچر کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل ہیں اور یہ ادارہ برداشت کرتا ہے۔

اوسط فیس کی بات کی جائے تو یہ دس روپے سے شروع ہوتی ہے جو اس ادارے کے انتظامی امور کے لیے ناکافی ہے۔ یہ اخراجات ڈونیشن سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہم وطن مختلف صورتوں میں اپنے عطیات ٹی سی ایف کو دیتے ہیں اور انہی کی بدولت یہ نظام چل رہا ہے۔ ریاض احمد کملانی نے بتایا کہ ٹی سی ایف کے فلاحی تعلیمی ادارے پاکستان میں کیٹی بندر، بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی، پنجاب کے قصبہ گجرات، خوشاب سے لے کر کشمیر کے دور دراز علاقے موری فرمان شاہ کے پہاڑی سلسلے پر بھی قائم ہیں۔

ٹی سی ایف نہ صرف والدین کا مالی بوجھ کم کرتے ہوئے نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ موجودہ دور کے نصابی تقاضوں کو بھی اپنے وسائل اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ریاض احمد کملانی کا کہنا تھاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے مثبت معاشرتی تبدیلی کے نمائندے ہوں، نصاب اسی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے اسکولز کی عمارتوں کے مخصوص طرزِ تعمیر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم شعور اور لاشعور دونوں کو اہمیت دیتے ہیں۔

ہمارا ماننا ہے کہ ماحول اور گردوپیش بچے کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں ذہن کی نشوونما یا وسعت کا عمل متأثر ہوتا ہے۔ ہمارے اسکولز میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت کچی آبادی میں چھوٹے اور تنگ کمروں پر مشتمل مکانات میں رہتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تازہ ہوا، روشنی اور کھلے ماحول سے دور ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے اسکولز کی عمارتوں میں ہوا اور روشنی کا گزر یقینی بنایا ہے تاکہ بچے کو فطری اور کشادہ ماحول میسر آئے۔

ہمارے اسکولز کی عمارت میں ایک بڑا صحن یا میدان ضرور ہوتا ہے اور اس کے اردگرد کلاس رومز تعمیر کیے جاتے ہیں۔ ہر کمرے میں کھڑکیاں نکالی جاتی ہیں جن سے سورج کی روشنی مختلف زاویوں سے اندر داخل ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بچے کا ذہن کھلتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ سیکھنے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اس کے ساتھ نصاب پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارا نصاب قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور طلبا کی ذہنی استعداد کے مطابق درجہ بہ درجہ راہ نمائی اور امتحانی ضرورت پوری کرتا ہے۔

بہتری اور تبدیلی کی گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے۔ ہم نے مزید بہتری کی ضرورت محسوس کی تو اپنا نصاب متعارف کروانے کا فیصلہ کیا اور آج ٹی سی ایف اسکولز میں ہماری نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر میں رائج طریقۂ تعلیم کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو بچہ زیادہ تیزی سے سیکھتا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو رابطے کی دوسری بڑی زبان میں تعلیم دی جائے۔ ہم نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنایا اور ہم بحالتِ مجبوری نہیں بلکہ فخر کے ساتھ پرائمری سطح سے اردو میں بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔

اپنے فلسفۂ تعلیم اور طریقۂ کار کی بابت ان کا کہنا تھا، ہمارا مشن ہے کہ بچے مثبت تبدیلی کے نمائندہ ہوں، اس لیے بہتر ماحول کی فراہمی کے ساتھ بچوں کے مفاد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ دوسری طرف اساتذہ کو نصاب پڑھانے کے لیے ایک طریقۂ کار کا پابند کیا گیا ہے، ان کے لیے کتابی صورت میں تدریسی ہدایات موجود ہیں۔ اپنے طریقۂ تعلیم کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے بھی تعلیم و تربیت میں مدد لے رہے ہیں، اس سلسلے میں ٹیچرز کی ٹریننگ سے لے کر طلبا کو سکھانے کے لیے آڈیو، ویڈیو روم بنانے کا ارادہ ہے، جو تربیتی عمل میں مددگار ثابت ہو گا۔

ان کا کہنا تھاکہ ٹیچرز کی ٹریننگ کے لیے باقاعدہ یونٹ موجود ہے جو اسی حوالے سے کام کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ’’رہبر پروگرام‘‘ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ آٹھویں جماعت سے شروع ہوتا ہے، اس میں طلبا کو معاشرے کے کارآمد اور مثبت لوگوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال کرنے، کھیل اور دیگر مفید سرگرمیاں انجام دینے کا موقع ملتا ہے۔

ان افراد کو ہم رضا کار تصور کرتے ہیں جو دراصل بچوں کی سوچ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ایک طے شدہ پروگرام پر عمل کرتے ہیں اور سات ہفتوں تک مقررہ اسکول کے طلبا کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ پرائمری کی سطح پر بات کی جائے تو ہمارا سمر کیمپ بہت اہم ہے۔ اس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا کو مدعو کیا جاتا ہے جو ہمارے اسکول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

معاشرے میں علم و آگاہی کے ذریعے مثبت تبدیلی کے خواب کی تکمیل کے لیے کوشاں ٹی سی ایف کے تحت نہ صرف تعلیم عام کی جارہی ہے بلکہ یہ ادارہ جامعات میں مضامین کے انتخاب اور عملی زندگی میں قدم رکھنے تک طلبا کی راہ نمائی کرتا ہے۔ ریاض احمد کملانی نے بتایا کہ نویں جماعت سے ہم کیریئر کاؤنسلنگ پر توجہ دیتے ہیں اور دسویں کے طالب علم کے لیے انٹر ایڈمیشن پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران مستقبل اور عملی شعبے کے چناؤ کے حوالے سے بھی ذہن سازی کی جاتی ہے۔

ٹی سی ایف سے جڑی کام یابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو کئی طلبا نامساعد حالات اور دیگر مسائل کو شکست دے کر معاشرے کا کارآمد حصّہ بن چکے ہیں۔ عظمیٰ سلیم انہی میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے علم و آگاہی، ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھا اور ٹی سی ایف سے میٹرک کرنے کے بعد شعبۂ تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ مالی مشکلات کے باوجود عظمٰی نے ایم بی اے کیا۔ سلائی کڑھائی اور ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کیے۔ جب پہلے سیمسٹر کا نتیجہ آیا تو یقین آگیا کہ خواب حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔

بس، ارادے کی پختگی اور محنت شرط ہے۔ عظمیٰ کو اسکالر شپ آفر ہوئی اور وہ اس سفر میں بھی نمایاں رہیں۔ بعدازاں سول سروسز  کا امتحان دیا اور شان دار کام یابی کے بعد اب اسٹیٹ بینک میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انعم فاطمہ کے والد ایک نجی ادارے میں ڈرائیور تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ اولاد تعلیم حاصل کرے اور بہتر زندگی گزارے۔ انعم نے ٹی سی ایف اسکول میں تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے ایم بی اے کیا۔

2013 میں اسکالر شپ کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے سمر پروگرام کا حصّہ بنیں۔ امریکا میں انٹرن شپ کا مرحلہ آیا تو انعم نے چھوٹے مائیکرو لینڈنگ پروجیکٹ ڈیزائن کیا اور وطن واپسی کے بعد لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کی عملی کوشش بھی کی۔ ذوالفقار چاچڑ کی کام یابیوں کا سفر بھی مثالی ہے۔ ان کا گھرانا مالی مسائل کا شکار تھا، مگر ٹی سی ایف کی بدولت تعلیمی سفر جاری رہا اور آئی بی اے میں داخلے کے بعد اسکالر شپ کے حق دار ٹھہرے۔

آج وہ معاشرے کے کارآمد شہری ہیں اور ٹی سی ایف کے رضاکار کے طور پر متحرک ہیں۔ کراچی کے علاقے لیاری کا تذکرہ آئے تو بدامنی، لوٹ مار اور زندگیوں کو لاحق خوف کا عکس ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے، مگر اسی ماحول کے پروردہ ایوب خان نے مثبت سوچ اور تعلیم کا راستہ چنا اور اب فائن آرٹسٹ کے طور پر اپنی پہچان بنارہے ہیں۔

اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ترقی اور خوش حالی کے ساتھ تعلیم مثبت معاشرتی تبدیلی کا واحد ذریعہ ہے، لیکن اس ضمن میں سرکاری سطح پر اہم اور مؤثر اقدامات کی ضرورت اب کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ماہرین تعلیمی بجٹ میں اضافے کے ساتھ اس شعبے میں سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں رائج تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اُن مخلص اور جذبۂ خدمت سے سرشار  لوگوں کو تمام وسائل اور اسباب مہیا کرے جو وطنِ عزیز کے روشن اور بہتر مستقبل کے لیے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔