دو کپتان

ایاز خان  پير 7 نومبر 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

عمران خان کرکٹ کے کپتان اور نواز شریف سیاست کے کپتان۔ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کیا خوب موازنہ کیا ہے۔ پہلے کرکٹ کے کپتان کی بات کرتے ہیں جس نے اور بہت سی کامیابیوں کے ساتھ کرکٹ کا عالمی کپ بھی جیت کر اپنی شاندار کپتانی پر مہر ثبت کر دی۔ یہ کپتان جب اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترتا تھا تو اس کی نظر صرف جیت پر ہوتی تھی۔

اسے نہ صرف ہر کھلاڑی کی اہلیت کا بخوبی علم ہوتا تھا بلکہ مخالف ٹیم کے ہر کھلاڑی کی صلاحیت پر بھی نظر رکھتا تھا۔ اسے یہ معلوم تھا کہ کب کس بولر کے ہاتھ میں گیند دینی ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کن حالات میں کون سا بیٹسمین بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ کپتان کہا کرتا تھا جب مخالف ٹیم کے 5 بیٹسمین آؤٹ ہو جائیں تو پھر مکمل چڑھائی کر دی جائے۔ ٹیسٹ ٹیم میں عموماً 6 سے زیادہ اسپیشلسٹ بیٹسمین نہیں کھلائے جا سکتے۔5 کھلاڑی آؤٹ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے ٹیل شروع ہو گئی۔ کوئی ٹیم آدھی ٹیم جلد آؤٹ ہونے کے بعد بھی بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہو جائے تو آپ سمجھیں کہ اس کا مخالف کپتان کمزور ہے۔

سیاست کے کپتان کی بات کریں تو اس کی کامیابیاں بھی بے شمار ہیں۔ کرکٹ کے کپتان نے صرف ایک بار ورلڈ کپ جیتا تو یہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کا کپ جیت چکے ہیں۔ کرکٹ میںعالمی کپ جیتنے کا کارنامہ کوئی اور کپتان انجام نہیں دے سکا تو (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا تذکرہ اس لیے نہیںکیاکہ موازنہ دوبڑے کپتانوں کا ہو رہا ہے) سیاست میں بھی تین بار کوئی وزیراعظم نہیں بن سکا ہے۔ سیاست کے میدان کا یہ کپتان ہر کھلاڑی، ہر گیند، ہر شاٹ اور ہر چال پر نظر رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس کا کھیل اتنا زبردست ہوتا ہے کہ مخالف ٹیم نہیں ٹیمیں تلملا کر رہ جاتی ہیں۔

آپ کرکٹ کا میچ دیکھ رہے ہوں تو کبھی یوں بھی لگتا ہے کہ بیٹسمین تمام تر کوشش کے باوجود اسکور نہیںکر پاتے۔ ان کی ہر شاٹ سیدھی فیلڈر کے ہاتھ میں جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے میدان میں گیارہ کے بجائے 13 فیلڈر کھڑے کیے گئے ہیں۔ (براہ کرم امپائر اس میں شامل نہ کیے جائیں)۔ پھر جب دوسری ٹیم بیٹنگ کے لیے میدان میں اترتی ہے تو اتنی تیزی سے رنز بننا شروع ہوتے ہیں کہ 11 فیلڈربھی کم پڑ جاتے ہیں۔

کرکٹ کے کپتان نے سیاسی میدان میں اپنے مخالف کپتان کو چیلنج کیا تو وہ اس کی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ اسے لگتا تھا جیسے اس نے کرکٹ کے میدان میں بڑے بڑے کپتانوں کو پچھاڑ دیا ہے ویسے ہی اس کپتان کو بھی وہ آسانی کے ساتھ زیر کر لے گا۔ جیسے پانی میں اترے بغیر اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا ویسے ہی سیاست کے میدان میں مخالف سے پنجہ آزمائی سے پہلے اس کی طاقت معلوم نہیں ہوتی۔ پرانے دھرنوں کو ایک طرف رکھتے ہیں اور تازہ ترین میچ کی طرف آتے ہیں۔ 7 ماہ کے قریب ہو چکے ہیں جب پانامہ لیکس سامنے آئیں۔

ان لیکس کے سامنے آتے ہی کرکٹ کے کپتان کو لگا وہ  اب سیاست کے کپتان سے سارے حساب چکتا کر سکتا ہے۔ اسے لگا کہ ترپ کا پتہ اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے مخالف کا دھڑن تختہ دنوں کے اندر نہ بھی کر سکا تو چند ہفتوں میں اس کا کام تمام کر دے گا۔ سیاست کے کپتان نے فریش گارڈ لیا اور سارے یارکر اور باؤنسر گراؤنڈ سے باہر پھینکے شروع کر دیے۔ جارحانہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنے دفاع کو بھی مضبوط بنانا شروع کیا۔ قوم سے تین بار خطاب اور پھر پرزور مطالبات کے بعد پارلیمنٹ میں پیش ہو کر خود کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ سپریم کورٹ کو ٹی او آر بھجوائے مگر وہ ’’شکریے‘‘ کے ساتھ واپس کر دیے گئے۔ ٹی او آر منظوری کے لیے نہیں بھجوائے گئے اصل مقصد وقت کا حصول تھا جس میں سیاست کا کپتان کامیاب رہا۔

اس کے بعد جیسے جیسے پریشر بڑھا کپتان نے اپنے قابل اعتماد کھلاڑی میدان میں اتارے۔ جنہوں نے ٹی او آرز پرکمیٹی کمیٹی کھیلنا شروع کر دیا۔گھنٹے دنوں اور دن ہفتوں میں تبدیل ہونے لگے۔ کپتان کی حکمت عملی کامیاب جارہی تھی۔ کمیٹی کمیٹی کے کھیل نے کئی ماہ کا وقت دلا دیا۔کرکٹ کے کپتان کو سارا کھیل سمجھنے میں کافی دیر ہو گئی۔ اس نے سولو فلائیٹ کے بجائے سب کو ساتھ مل کر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب ہو سکتی تھی نہ ہوئی۔ وہ ایک بار پھر مایوس ہو کر سولو فلائیٹ کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ رائے ونڈ میں اس نے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد جمع کر لی تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے 2 نومبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسے توقع تھی کہ طاہرالقادری ضرور وطن واپس آجائیں گے مگر قادری صاحب نے آنے سے انکار کر دیا۔ ق لیگ اور شیخ رشید نے ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ سیاست کے کپتان نے اس بار طے کر لیا کہ ایک بھی ایسی گیند نہیں دی جائے گی جس پر چوکا یا چھکا مارا جا سکے۔ پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔گرفتاریاں، شیلنگ اور لاٹھی چارج معمول بن گیا۔ 2 نومبر کو لاک ڈاؤن یوم تشکر میں تبدیل کرنا پڑا۔ کرکٹ کا کپتان بدترین حالات میں بھی اچھے خاصے کھلاڑی اسلام آباد میں جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پانامہ لیکس کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سیاست کے کپتان کی وقت حاصل کرنے کی حکمت عملی ابھی تک کامیابی سے جاری ہے۔ سیاسی کپتان پورے میدان میں نظر رکھے ہوئے ہے۔ پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نئے کھلاڑی بھی میدان میں اتارے جا رہے ہیں۔

پاکستان بار کونسل اپنا ترجمان تبدیل کر چکی ہے۔ پی بی سی کے وائس چیئرمین بیرسٹر فروغ نسیم اچانک اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ عدالت عظمیٰ کی کارروائی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیلنج کر چکے ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف ہیں لیکن ان کی درخواست کا حکومت سے کوئی ’’تعلق‘‘ نہیں۔ سیاسی کپتان کے وکیل کو پانامہ لیکس درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں تھا۔ اٹارنی جنرل نے مخالفت کی تھی مگر اس کا بھی کپتان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کے کمیشن کی مخالف ہے۔ یہ بھی اس جماعت کی ذاتی رائے ہے۔ اثاثوں کے حوالے سے آڈٹ فرم کی رپورٹ اس کے علاوہ ہے۔ سیاسی کپتان ابھی اور کھلاڑی میدان میں اتارے گا۔ کرکٹ کا کپتان آج بھی تنہا کھڑا نظر آرہا ہے۔ ایک کے پاس وقت کم اور دوسرے کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ایک حالیہ میچ کا فوری فیصلہ چاہتا ہے، دوسرے کی خواہش ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک ورنہ اتنا وقت ضرور گزار لیا جائے کہ آیندہ الیکشن کا مرحلہ قریب آجائے۔ مقابلہ سخت ہے لیکن کس کپتان کے لیے؟ یہی اصل سوال ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔