میاں صاحب،کیامیدان صاف ہے؟

اقبال خورشید  پير 7 نومبر 2016

شام ڈھلتے ہی شہر پردھول سی چھا جاتی۔ سرما تو نہیں ہے، مگر اس کا التباس ہے۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ پھر شروع ہوگئی،کچھ اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں ۔

کچھ روز ادھر ایک عزیزکا برقی خط موصول ہوا۔ شکوہ تھا، تم زبان وادب کے گریے میںگم، زمانہ قیامت کی چال چل گیا،دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔پوچھا، تو پہلے ہماری لاعلمی پر تاسف کیا۔ پھر خبر دی’’ لال حویلی کے سامنے عجیب واقعہ ہوا۔ضعیف سیاست دان گاڑی کی چھت پر بیٹھا پیش گوئیاں داغ رہا تھا۔عوام کوکشتیاں جلانے کا مشورہ دینے والے کھلاڑی، جن کا دعویٰ تھا کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اپنے سبزہ زار میں ڈنڈ پیلتے تھے۔

شاہ کے مداح سراؤں کا شور ایسا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ۔ مغلظات، دشنام طرازیاں اور ہاں، ایک خبرکا بھی بڑا غلغلہ رہا۔ وزیراطلاعات کی قربانی دی گئی،آخر بیاباں میں منصف اعظم کی پکار سنائی دی، ایک مجلس بنائی گئی ہے، دھرنا یک دم ختم ہوگیا۔ کارکن چلا اٹھے ’’مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے‘‘کینیڈامیں بیٹھے جو صاحب انقلاب کے منتظر تھے، انھیں کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا:’’دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا‘‘سب نے ہاتھ جھاڑے۔ اٹھے اور چل دیے۔ محفل تمام ہوئی، شام ڈھلتے ہی شہر پر دھول سی چھا جاتی۔ سرما تو نہیں ہے، مگر اس کا التباس ہے۔

دوستوں کا شکوہ تھا کہ تم زبان وادب کے گریے میں گم رہے، زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جواباًاب اُنھیں ہم کیا کہتے۔ حالی کہہ گئے’’ راست گوئی میں ہے رسوائی بہت‘‘ یہاں غالب کا نسخہ کارگر:

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے تھے

پر قلم کار ٹھہرے، یہ بھی لازم ہے کہ جو دل پرگزری ہے، رقم کرتے رہیں۔ پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ ہم، بہ طور قوم، ذہنی طور پر بڑے پس ماندہ۔ ابھی اس سطح پر نہیں کہ جمہوریت کو سمجھ سکیں، اُسے سنبھال سکیں۔ یہ جو بار بار ماضی کے آمروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں اور جو موجودہ سالار اعظم، اُنھیں ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں، اس کے پیچھے یہی ناپختگی۔ اس معاملے میں خود سیاست دانوں بھی قصور وار ۔اس درجے پر نہیں، جہاں قتل کوکرامت کا روپ دے سکیں۔ خنجر پر چھینٹ بھی ہے، دامن پر داغ بھی۔ جمہوری اداروں کو بدعنوانی کوگھن لگ گیا۔جو عہدے پر آیا، اُس نے فقط اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پروا کی۔ جنھوں نے منتخب کیا، پلٹ کر ان کی خبر نہ لی۔ بس، اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔

جمہوریت کا المیہ فقط اتنا کہ جو وزیراعظم بنا، اس نے خود کو بادشاہ جانا اور عوام کو رعایا۔ جہاں تک حزب اختلاف کا تعلق، ہیں تو وہ جمہوریت کے علم بردار، مگر اس مظلوم کے نام پر وہ جو احتجاجی تحریکیں چلاتے ہیں،انھوں نے فقط آمریت کو دعوت دی۔ میرے عزیز ہم وطنو کی صدا سنائی دی۔ مارشل لا لگا، اور وقت ٹھہر گیا۔ جنھوں نے آمریت کے لیے راہ ہموار کی تھی، وہ نوازئے گئے۔ مخالفین کچھ توجیلوں میں ڈال دیے گئے،کچھ نظر بند ہوئے اور جو بارسوخ تھے، انھیں جلاوطنی کا راستہ دے دیا گیا۔ یہ ہے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ۔ کبھی حب الوطنی کے نام پر،کبھی مذہب کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا گیا اور سلسلہ یہ اب بھی جاری۔ جب جب جمہوریت آئی، اِسے کمزورکیا گیا۔ کچھ انھوں نے جن کی سرکار تھی اورکچھ انھوں نے جو اپوزیشن تھے۔ان سات عشروں میں جو حال عوام کا تھا، اُسے سودا نے یوں بیان کیا:

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے

دھرنے کا معاملہ عجب۔ بار بار امپائرکا تذکرہ آتا۔بساط لپیٹنے کی بات ہوتی۔ جو الزامات خان کی تحریک کا محرک بنے، وہ درست ۔ بے شک وزیراعظم کے خاندان پر بدعنوانی کے الزامات اورجو ان سے پہلے گزرے، وہ بھی نشان زدہ ۔ بے شک گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اورجو انتخابات اُس سے پہلے ہوئے، وہ بھی داغ داغ ۔ تو خان کا جوازٹھیک تھا، مگرکیا کیجیے کہ یہاں جمہوری تحریکیں اغوا کر لی جاتی ہیں۔آخر میں یہی منہ سے نکلتا ہے، وہ انتظار تھاجس کا، یہ وہ سحرتو نہیں۔ اسی وجہ سے وہ احباب، فقیر سمیت، جو خان کے موقف کو درست جانتے تھے، متذبذب تھے۔

خیر ہوئی، عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا۔ معاملہ سنبھال لیا۔ بہتر یہی ہے کہ آئینی اورقانونی طریقہ اختیارکیا جائے، خان کو ابھی اب بڑھکیں مارنے کی عادت ترک کرکے، پی ٹی آئی اور اپنے حامیوں سے متعلق سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ انتخابات قریب ۔ ضمنی اور بلدیاتی معرکوں میں پی ٹی آئی جن مسائل سے دوچار رہی، اس سے واضح کہ پارٹی کے پاس چہرے ہیں، مگر تنظیم نہیں۔مداح ہیں، کارکن نہیں۔ اگر خان واقعی اس ملک سے سنجیدہ ، تو چاہے احتساب کا نعرہ نہ چھوڑیں، احتجاج کی دھمکیاں بھی دیتے رہے، مگر اپنی پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیں۔ کارکنوں کو باشعور بنائیں، ان کی تربیت کریں، تاکہ خود کو حقیقی معنوں میں ایک متبادل ثابت کرسکیں، جہاں تک پی پی کا معاملہ، بلاول زرداری میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ چٹکلے بھی چھوڑتے ہیں۔اس میں کوئی مضایقہ نہیں،مگر کھوکھلے نعروں، جھوٹے وعدوں سے اجتناب بہتر۔ چلے ہوئے کارتوسوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ممکن ہے، اگلے انتخابات میں بھی سندھ میں آپ جیت جائیں۔۔۔ سندھ موئن جودڑو بننے کا سفر جاری رکھے، لیکن اس کے بعد شاید آپ کی پارٹی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ خان اور بلاول کی سیاست دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ میاں صاحب کے لیے میدان صاف ہے۔

گو ہم اُن قلمکاروں میں سے نہیں، جن کی رسائی شاہی خاندان تک۔ جو شاہ اور اس کے خاندان کی اپنی تحریروں میں ایسی تصویر کھینچتے ہیں کہ آدمی بدمزہ ہوجائے۔ پھر ہمارا انداز بیاں بھی بہت شوخ نہیں، اِس کے باوجود امید رکھتے ہیں کہ ہماری بات اہل حکم کے دلوں میں اترجائے۔میاں صاحب تین بار وزیر اعظم بن چکے ہیں، اگلے انتخابات بھی قریب۔اگر وہ تحقیقات مکمل ہونے تک، جذبۂ خیر سگالی کے تحت اپنا عہدہ چھوڑ دیں، تب بھی ن لیگ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔البتہ اپوزیشن کا احتجاج بے معنی ہوجائے گا اور آپ کا قد مزید بڑھے گا۔جناب، ریاستیں رہتی ہیں،انسان کو تو ایک روز جانا ہی ہوتا ہے۔ بہ قول ناصرکاظمی۔

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔