نیویارک کا قدیم کتب خانہ؛ علم و آگہی کی ترویج کا اہم ذریعہ

غزالہ عامر  منگل 8 نومبر 2016
یہ کتب خانہ 1940ء کی دہائی میں قائم ہوا تھا جب کہ انٹرنیٹ اور سرچ انجنوں کا تصور بھی موجود نہیں تھا : فوٹو : فائل

یہ کتب خانہ 1940ء کی دہائی میں قائم ہوا تھا جب کہ انٹرنیٹ اور سرچ انجنوں کا تصور بھی موجود نہیں تھا : فوٹو : فائل

فی زمانہ معلومات کا حصول بے حد سہل ہوگیا ہے۔ بس گوگل کرنے کی دیر ہے، معلومات کا خزانہ اسکرین پر بکھرتا چلا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو لوگ سوالوں کے جواب کیسے تلاش کرتے تھے؟ اس زمانے میں حصول معلومات کا ذریعہ کتابیں تھیں۔ لوگ علم و آگہی حاصل کرنے کے لیے کتابوں اور کتب خانوں سے رجوع کرتے تھے۔

اس دور میں مغربی ممالک کے کئی کتب خانوں میں فون سروس بھی موجود تھی۔ بڑے کتب خانوں میں کئی افراد پر مشتمل عملہ عوام الناس کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ نیویارک پبلک لائبریری کا شمار بھی ایسے ہی کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ انٹرنیٹ کے اس دور میں، جب کہ معلومات کے خزانے آپ کی انگلیوں کی پوروں پر موجود ہیں، اس کتب خانے کی فون سروس فعال ہے اور لوگ اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔

نیویارک کا یہ عوامی کتب خانہ دنیا کا چوتھا بڑا کتب خانہ ہے جس میں پانچ کروڑ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ یہاں کئی درجن ملازمیں صرف فون پر پوچھے جانے سوالات کا جواب دینے کے لیے مخصوص ہیں۔ انٹرنیٹ عام ہوجانے کے بعد ان ملازمین کے لیے ’ ہیومن گوگل‘ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی تھی جو ڈیڑھ صدی تک قدیم کتابیں کھنگال کر مشکل ترین سوالات کے جوابات فراہم کرتے ہیں۔

یہ کتب خانہ 1940ء کی دہائی میں قائم ہوا تھا جب کہ انٹرنیٹ اور سرچ انجنوں کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ آج انٹرنیٹ ہر کسی کی پہنچ میں ہے، اور ہر قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اسی ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود نیویارک پبلک لائبریری سے فون کالز، ای میل، چیٹ اور تحریری پیغامات کے ذریعے یومیہ تین سو سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سرچ انجنز کے جنم سے پہلے یہاں کی جانے والی فون کالز کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی۔

سوال موصول ہونے یا پوچھے جانے پر کتب خانے کے ملازمین کتابیں کھنگالتے تھے، مگر اب وہ وقت بچانے کے لیے انٹرنیٹ سے بھی استفادہ کرنے لگے ہیں۔ این وائی پی ایل کی فون سروس جسے ’’ آسک این وائی پی ایل‘‘ کہا جاتا ہے ،کی مینیجر روزا لی کہتی ہیں،’’ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اب زیادہ سے زیادہ معلومات آن لائن دستیاب ہیں، تاہم بہت سی چیزیں اب بھی انٹرنیٹ کی دسترس سے باہر ہیں۔ جن سے متعلق سوالات کے جواب جاننے کے لیے لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔‘‘ روزا لی کے مطابق کئی لوگ محض کتب خانے کے نمائندوں سے بات کرنے کے لیے بھی فون کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معلومات تو ہم انٹرنیٹ سے بھی حاصل کرسکتے تھے مگر کسی انسان سے سوال کا جواب حاصل کرنے کا لطف ہی الگ ہے کیوں کہ اس بہانے اس سے بات چیت کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ دوسری جانب کتب خانے کے ملازمین بھی جوابات فراہم کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔