دعا کیجیے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ فتحیاب ہوجائے

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 8 نومبر 2016
ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے جہاں امریکہ کو پتا لگے گا کہ ہم اس کیلئے کتنے ضروری ہیں وہاں ہمیں بھی احساس ہوگا کہ اپنے مسائل آپس میں مل جل کر بیٹھنے سے ہی حل ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے جہاں امریکہ کو پتا لگے گا کہ ہم اس کیلئے کتنے ضروری ہیں وہاں ہمیں بھی احساس ہوگا کہ اپنے مسائل آپس میں مل جل کر بیٹھنے سے ہی حل ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

30 جولائی 1788ء کی رات امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے کنوینشن میں آئے ہوئے ایک مقرر (جس کا نام ولیم لان کیسٹر تھا) نے مہمانوں سے کہا کہ ایسا بالکل ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند سو سالوں میں ایک مسلمان امریکہ کا صدر بن جائے اور ہمارے آئین میں ایسی کوئی بات نہیں جو ایسا ہونے سے روک سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا صرف دو صورتوں میں ممکن ہے۔ اول یہ کہ پورے کا پورا امریکہ مسلمان ہوجائے، پھر تو ان کا حق بنتا ہے کہ اپنے جیسے ہی کسی مسلمان کو صدر بنائیں یا دوسری صورت یہ کہ وہ تمام اخلاق، خصوصیات، ہنر، صلاحیتیں، عقائد اور اصول جو امریکی آئین اور معاشرے  کی بنیاد ہیں، صرف کسی ایسے شخص میں پائی جائیں جو مسلمان ہو۔ تب بھی مسلمان ہی کو امیریکہ کا صدر ہونا چاہیئے۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر ولیم لان کیسٹر صاحب آج سوا 2 سوسال بعد زندہ ہوتے تو شاید پوچھتے کہ کیا ٹرمپ امریکہ کا صدر بن سکتا ہے؟ اور حیرت انگیز طور پر ایسا ہوسکنے کی بھی وہی دو صورتیں بنتی ہیں۔ یا تو امریکہ کی اکثریت ٹرمپ جیسی ہوجائے یا پھر سب کی اخلاقیات اور سوچ کا لیول بھی ٹرمپ جیسا ہوجائے اور ان دونوں صورتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی امریکہ کا صدر بننا جچتا ہے۔ جس حمام میں سب ننگے ہوں، وہاں الزام کپڑے پہننے والوں پر ہی آتا ہے۔

ٹرمپ محض صرف ایک شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عقیدہ، جنون اور وہ سوچ ہے جو لوگوں میں نفرت و تعصب کے جذبات بھڑکا کر اپنے مطلب کا کام نکلوانا چاہتی ہے۔ یہ اس سوچ اور ذہنی تعصب کی آبیاری کرتی ہے جو لوگ عام حالات میں کھلےعام زبان پر نہیں لاتے کہ معاشرتی اقدار اس کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ اقدار و قوانین اسی ملک نے دیئے ہیں، جس کیلئے آج ہم ووٹ دینے جارہے ہیں۔ ٹرمپ کا تو بالکل کیمونسٹ جیسا پروپیگنڈہ ہے کہ دولت، طاقت، اختیار اور حقوق وہاں دے دیئے جائیں جہاں ان کا کوئی حق نہیں اور آج بدلتا ہوا امریکہ چاہتا ہے کہ ہم ان باتوں پر ایمان لے آئیں۔

ویسے بدلتا ہوا امریکہ کوئی آج کی نئی بات تو ہے نہیں بلکہ یہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے گزشتہ 20 برسوں سے بدل رہا ہے مگر ہم اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف تھے کہ ہم نے خیال ہی نہ کیا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس سال امریکہ میں نوبل انعام پانے والے 6 کے 6 سائنسدان مہاجر ہیں؟ جو دوسرے ملکوں سے آکر امریکہ میں بس گئے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں کو چلانے والے ماہرین سب امریکہ کے باہر سے آئے ہیں؟ 40 فیصد سے زائد انجنیئرنگ پروفیسر امیگرینٹ ہیں؟ اور 51 فیصد سے زائد اسٹارٹ اپس کی فنڈنگ امیگرینٹس کرتے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو شاید ہی کوئی چھوٹا بڑا اسپتال امریکہ میں ملے جہاں کوئی ساؤتھ ایشین ڈاکٹر نہ ہو۔ آپ کو کوئی کنسٹرکشن سائٹ ایسی نہ ملے گی جہاں کوئی میکسیکن یا ساؤتھ امریکن کام نہ کر رہا ہو۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکہ نے صرف 2015ء میں 23 لاکھ نوکریاں ملک سے باہر آؤٹ سورس کردیں اور انہیں صرف 25 سینٹ سے 1 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے تنخواہیں دی گئیں حالانکہ امریکہ میں یہ تنخواہیں کم سے کم تنخواہ 8 سے 15 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ 13.3 فیصد امیگرینٹ پاپولیشن سب سے زیادہ باصلاحیت لوگوں میں تین فیصد ہیں۔ امیگریشن کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی کا کام چلتا ہے۔ یہ امریکہ کے بیچلرز ڈگری ہولڈرز کا 24 فیصد اور انجینئرنگ پی ایچ ڈیز کا 47 فیصد ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ورک فورس کا 50 فیصد ہیں۔ صرف ٹاپ 10 کمپنیوں میں 20 ہزار سے اوپر آسامیاں خالی ہیں۔ جو صرف امیگرینٹس باآسانی بھرسکتے ہیں۔ امریکہ کی دس بڑی کمپنیوں میں سے 7 امیگرینٹس نے بنائی ہیں جس کی سالانہ آمدنی 4.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ ٹیکنالوجی کی 25 بڑی کمپنیوں میں سے60 فیصد امیگرینٹس نے بنائی ہیں۔ 42 فیصد کینسر پر تحقیق کرنے والے امریکی شہری نہیں ہیں اور ہر ایک فارن ورکر امریکیوں کیلئے کم از کم اوسطاً 5 نئی نوکریاں پیدا کرتا ہے۔ 80 فیصد مٹیریل سائنس اور یونیورسٹیوں میں سے 30 سے 94 فیصد تک طالب علم غیر ملکی ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود، ہم لوگ زانی بھی کہلائیں، دہشت گرد بھی اور سرحدوں کے مابین دیواریں بنائے جانے کی باتیں بھی سہیں۔ ہم لوگ یہاں آکر کوہلو کے بیل کی طرح 18، 18 گھنٹے کام کرتے ہیں تاکہ امریکن 9 سے 5 ورک لائف بیلنس جیسی عیاشیاں افورڈ کرسکے۔ ہم ایئر پورٹس پر تلاشیوں اور لائنوں میں ذلیل و خوار ہوں، ویزہ کیلئے دھکے کھائیں اور کام بھی کریں۔ یہاں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر اس لئے نہیں آتے کہ ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مباحثوں اور طعنوں کا حصہ بنیں۔

میرے خیال سے وقت آگیا ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے یہاں سے ہمارے راستے جدا ہوجانے چاہئیں۔ عرصہ دراز سے امریکہ سپر پاور کا درجہ انجوائے کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ ہوجائے، یا تو امریکہ ذمہ دار ہے کیوںکہ کسی اور پر الزام لگانا ہمارا قومی فریضہ ہے یا امریکہ ذمہ دار ہے کہ ہمیں ڈالر دے تاکہ ہم اپنے مسائل سے نکلیں۔ ہم اپنے مسائل کی ملکیت مانتے ہی نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے جہاں امریکہ کو پتا لگے گا کہ ہم اس کیلئے کتنے ضروری ہیں وہاں ہمیں بھی احساس ہوگا کہ اپنے مسائل آپس میں مل جل کر بیٹھنے سے ہی حل ہوں گے۔ اب بہت ہوچکی، آئیں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہیں تاکہ سارا امریکہ ان مسائل و مشکلات کو جان سکے جس سے ہم روز گزرتے ہیں اور دنیا کو پتا لگ جائے کہ یہ وہ امریکہ نہیں رہا جو کبھی لوگوں کا آئیڈیل ہوا کرتا تھا۔

ویسے بھی جب مودی بھارت میں جیت سکتا ہے، برطانیہ brexit کرسکتا ہے تو ٹرمپ بے چارے نے کیا قصور کیا ہے؟

اِس لیے میرا ووٹ ٹرمپ کے نام !!

امریکہ کی موجودہ صورتحال اور ٹرمپ کی فتح کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔