اقبال شناسی، اہل دانش کی رائے

سہیل یوسف  بدھ 9 نومبر 2016
اقبال سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔

اقبال سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کی ہمہ جہت شخصیت پر بہت کچھ لکھا گیا، اب بھی تحریر ہورہا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ فکرِ اقبال کے حوالے سے دنیا بھر کی جامعات میں گوشہ اقبال، اقبال چیئر، ادبی کمیٹیاں، مباحثے اور فکر کی انجمنیں اب بھی قائم کی جارہی ہیں جو ان کی فکرِ تازہ کی دلیل ہیں۔ اسی طرح دنیا کی کئی زبانوں میں اہلِ دانش اُن کی شاعری اور خیالات کا ترجمہ بھی کررہے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف علامہ اقبال کی شخصیت پر تحریریں لکھی جارہی ہیں تو انفرادی سطح پر ایسے مضامین بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں یا پھر وہ جلدی میں تحریر کی گئی ہیں۔ ان کا مقصد تو خود صاحبان مضمون ہی بتا سکتے ہیں لیکن انہیں پڑھ کر اقبال کی شخصیت کو دھندلانے کی کوشش واضح نظر آتی ہیں۔ میری ذاتی اور ناقص رائے یہ ہے کہ انہیں لکھتے وقت چھان بین اور تحقیق نہیں کی گئی اور جب میں نے اُن پر سوال اٹھائے تو خود لکھنے والے بھی جواب نہ دے پائے۔ اگر آپ یہ تحریر بغور پڑھیں تو یہ کئی سوالات کا جواب رکھتی ہے لیکن یہ جوابات ان انتہائی محتاط اور عظیم لوگوں کے خیالات ہیں جن کی اکثریت نے خود اقبال کو قریب سے دیکھا تھا اور ان سے گفتگو کرکے اپنی رائے قائم کی۔

اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ جنہوں نے اقبال سے خود فیض حاصل کیا ہو ان کی بات درست ہوگی یا پھر دہائیوں بعد اعتراض اٹھانے والوں کا مؤقف صحیح قرار پائے گا؟ اِس کا جواب بھی میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

پاکستان میں اقبال اکادمی لائق صد تحسین ہے جس نے اقبالیات پر بیش بہا کام کیا ہے اور انہی کی کتابوں کی مدد سے ہم فکر اقبال کے ان پہلوؤں کو پیش کررہے ہیں جن میں سے ایک بھی لفظ میرا لکھا ہوا نہیں بلکہ خود ایسے لوگوں کے خیالات ہیں جن کے علم، تدبر، فکر اور نیت پر کوئی بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام پر عجمی اثرات سے بیزاری مگر اولیاء اللہ سے خصوصی محبت

’اقبال نے جابجا خانقاہوں اور خانقاہ نشینوں پر اعتراضات کئے ہیں۔ اسرار خودی کے شائع ہونے پر ان کو تصوف اور سلاسل تصوف کا مخالف سمجھا گیا تھا، مگر ان کے کلام کے وسیع مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا اعتراض ریا کار، دوکاندار، دنیا طلب صوفیوں پر ہے اور وہ تصوف سے ان دور از کار عقائد و مسائل کو خارج کرنا چاہتے ہیں جوعجمیت کے زیر اثر اسلامی تصوف میں داخل ہوگئے ہیں۔

اکابر طریقت سے ان کی عقیدت کا حال اسی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کی نظم سے بے حد متاثر تھے۔ پیر رومی کا ذکر ہر جگہ بڑی تعظیم سے کرتے ہیں اور خود کو ان کا مرید ہندی کہتے ہیں۔ بزرگوں کے مزارات پر بالقصد بغرض زیارت و طلب برکت حاضر ہوتے تھے۔ بانگ درا میں ان کی نظم ’التجائے مسافر‘ کو دیکھیئے۔ اس سے حضرت محبوب الہٰی سے انتہائی عقیدت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اقبال کی جوانی اور انگلستان جانے سے پیشتر کا واقعہ ہے۔ لیکن اگر بالفرض یہ جوانی کی خام کاری تھی تو بعد کی پختہ کاری بھی قابل غور ہے۔ بال جبریل ملاحظہ ہو۔ اس کے صفحہ 38 پر ایک نظم درج ہے، جس کا پہلا شعر ہے۔

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ ِ صحرا

(تحریر: غلام بھیک نیرنگ مجلہ اقبال لاہور اکتوبر1958)

اقبال کے ابتدائی شعر بے وقعت نہ تھے

ناقدین کی جانب سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اقبال کا ابتدائی کلام ان کی فکر کو ظاہر نہیں کرتا اور یہ بھی کہ ان کے اشعار بے وقعت اور عام سے تھے۔ اس کا جواب اقبال کے عہد کے ایک مصنف شیخ عبدالقادر اس طرح دیتے ہیں۔

’انتہائی نو عمر اقبال لاہور کی ایک محفل میں شریک ہوئے اور یہ شعر پڑھا،

تم آزماؤ ہاں کو زبان سے نکال کے
یہ صدقے ہوگی میرے سوال ِ وصال کے

مطلع کا پڑھنا تھا کہ کئی سخن آشنا کے کان متکلم کی طرف لگ گئے، اور کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ مشاعرہ میں یہ رسم تھی کہ میزبان شاعر کی تعریف کرکے اس سے حاضرین کی شناسائی کرا دیتا تھا۔ مگر اس نوجوان منچلے شاعر کو خود میزبان جانتا تک نہیں تھا۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ پہلے حضرت کی تعریف تو فرمائیے۔ نوجوان شاعر نے کہا

’لیجیئے میں خود عرض کئے دیتا ہوں کہ میں کون ہوں، خاکسار کو اقبال کہتے ہیں، اور یہی میرا تخلص ہے۔ سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اور یہاں کے سرکاری کالج میں بی اے کی جماعت میں پڑھتا ہوں۔ حضرت داغ سے تلمذ کا فخر حاصل ہے۔‘

اس کے بعد چند شعر پڑھے تو قریب قریب ہر شعر پر بے ساختہ داد ملی۔ یہاں تک کہ اس شعر تک پہنچا،

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

مشاعرے میں مرزا ارشد گورگانی دہلوی تشریف رکھتے تھے بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے’’میاں اقبال اس عمر میں، اور یہ شعر!‘‘ اور واقعی اس رنگ کی کہنے والے کی عمر اور وضع سے توقع نہیں ہوسکتی تھی۔

علامہ اقبال کی پیش گوئیاں

1912ء میں حضرت علامہ نے شمع اور شاعر پڑھی تھی اس میں بعض واضح پیش گوئیاں تھیں جو خدا کے فضل سے پوری ہوچکی ہیں۔ لیکن 1912ء میں میرے علم کی حد تک کسی کو احساس بھی نہ تھا یہ نظم پیش گوئیوں پر مشتمل ہے۔

حضرت علامہ کی اس نظم کے سلسلے میں ایک جھگڑا رونما ہوا۔ انجمن کے اجلاسوں کی صدارت کے لئے وہ اصحاب تجویز کئے جاتے تھے جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم فراہم ہوسکے۔ اتفاقیہ اس سال 2 ایسے اصحاب تھے جن کے ذریعے بڑی رقم وصول ہونے کا امکان تھا اور وہ دونوں اصرار کر رہے تھے کہ اقبال کی نظم ان کی صدارت میں ہو۔ آخر اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ ان دونوں کی صدارتیں یکے بعد دیگرے ہوں۔ شمع اور شاعر کے ابتدائی 6 بند ایک صدر کے اجلاس میں پڑھے جائیں۔ پھر علامہ کچھ وقت آرام کریں اور باقی بند دوسرے کی صدارت میں پڑھے جائیں۔

شمع اور شاعر مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے اپنے پریس میں چھپوادی تھی۔ 10 ہزار کاپیاں چھاپی گئی تھیں اور ہر کاپی کی قیمت خلاف معمول 8 آنے رکھی گئی۔ مولانا ظفر علی خاں نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اس طرح نظم کی کاپیاں بِک جانے سے 5 ہزار روپے وصول ہوں گے اور یہ رقم ڈاکٹر اقبال کے حوالے کرکے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تبلیغ اسلام کے لئے جاپان چلے جائیں۔

غلام رسول مہر

ملازم علی بخش سے ایک انٹرویو

علامہ اقبال کے دیرینہ ملازم علی بخش دن رات ان کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے۔ علی بخش اقبال کے معمولاتِ شب و روز سے اچھی طرح واقف تھے جو ایک مختصر انٹرویو سے ظاہر ہے جس کا ترجمہ جناب سہیل عمر نے کیا ہے اور تحریر ممتاز حسن کی ہے۔ یہ انٹرویو 22 ستمبر 1958ء کو ممتاز حسن نے کیا جس کا ترجمہ جناب سہیل عمر نے کیا ہے۔

  • اقبال صبح کوعموماً کب بیدار ہوتے تھے؟

علی بخش: بہت سویرے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم خواب تھے۔ نماز فجرکی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔

  •  وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے تھے؟

علی بخش: جب تک ان کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی، وہ قرآن کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور تھے مگر بلند آواز سے نہیں۔

  •  نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے؟

علی بخش: آرام کرسی پر دراز ہوجاتے۔ میں حقہ تیار کرکے لے آتا۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے۔ اس دوران شعر کی آمد بھی ہونے لگتی۔

  •  آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعر گوئی کی کیفیت طاری ہورہی ہے؟

علی بخش: وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے’’میری بیاض اور قلمدان لاؤ‘‘ میں یہ چیزیں لے آتا تو وہ اشعار لکھ لیتے۔ اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہوجاتے۔ شعر گوئی کے دوران اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے۔ شعر گوئی کےعلاوہ بھی دن میں کئی بار مجھے بلا کر قرآن مجید لانے کی ہدایت کرتے رہتے۔

  •  وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا؟

علی بخش: وکالت میں ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو مصروف نہیں ہونے دیتے تھے۔ عام طور پر یوں تھا کہ 500 روپے کے برابر فیس کے کیس آجاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔ دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے۔ اگر مہینے کے پہلے تین، چار دنوں میں چار، پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی سارا مہینہ مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے۔

  • یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی تھی؟

علی بخش: ان کا تخمینہ تھا کہ انہیں ماہانہ اخراجات کے لئے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس زمانے میں اس رقم میں گھر کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں، منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات سب شامل تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب علامہ صاحب انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے۔

  • علامہ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی؟

علی بخش: جب تک انہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی، وکالت کرتے رہے۔ یہ اندازاً 1932ء یا 1933ء کا زمانہ تھا۔

  •  گلے کی بیماری کیسے شروع ہوئی تھی؟

علی بخش: وہ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ سردی کا موسم تھا گھر واپس آکر سویوں پر دہی ڈال کر کھایا جو انہیں بہت مرغوب تھا۔ اگلے ہی روز گلے کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس رات کے دو اڑھائی بجے تک کھانستے رہے۔ اگلے دن ان کی آواز بیٹھ گئی اور وفات تک آواز کی یہی کیفیت رہی۔

  •  کیا وہ گھر پرعدالت کا کام کیا کرتے تھے؟

علی بخش: اگلے روز کے مقدمات سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔

  •  سہ پہر میں سونے کی عادت تھی؟

علی بخش: معمول تو نہیں تھا، کبھی سو بھی جاتے۔

  •  ان کی نیند کیسی تھی؟

علی بخش: نیند کچی تھی، ذرا سی آواز سے چونک جاتے تھے۔

  • جسمانی تکلیف اور بے آرامی برداشت کرنے میں کیسے تھے؟

علی بخش: بہت نرم دل تھے۔ تکلیف کی برداشت بہت کم تھی۔ کسی اور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خون بہتا دیکھنے کی بالکل تاب نہ تھی، ایک مرتبہ پاؤں پر بھٹر نے کاٹ لیا، اس سے وہ ایسے لاچار ہوئے کہ حرکت کرنے کے لئے بھی میرے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ایک مرتبہ جاوید کو بچپن میں ابرو کے قریب چوٹ لگ گئی جس سے تھوڑا سا خون بہہ نکلا، خون دیکھ کر علامہ کو غش آگیا۔

  •  کھانا کس وقت کھاتے تھے؟

علی بخش: بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔

  • کھانے میں کیا پسند تھا؟

علی بخش: پلاؤ، ماش کی دال، قیمہ بھرے کریلے اور خشکہ

  •  شام کو کبھی کہیں باہر جایا کرتے تھے؟

علی بخش: شام کو کہیں باہر نکلنا ان کے لئے تقریباً ناممکن تھا۔ جس زمانے میں قیام بھاٹی دروازے کے اندر تھا تو بسا اوقات حکیم شہباز الدین کے گھر کے باہر کے چبوترے تک ٹہل لیتے تھے۔ کبھی کبھار سر ذوالفقار علی اپنی موٹر لیکر آجاتے اور انہیں باہر گھمانے لے جاتے۔

  • رات کو سوتے کس وقت تھے؟

علی بخش: شام کو احباب کی محفل جمتی تھی۔ چودھری محمد حسین ہمیشہ سب سے آخر میں رخصت ہوتے تھے۔ مجلس عموماً 10 بجے برخاست ہوجاتی اور اس کے بعد علامہ چودھری محمد حسین کے ساتھ بیٹھ کر انہیں اس روز کے تازہ اشعار سنایا کرتے تھے۔

  •  چودھری صاحب عموماً کتنی دیر ٹھہرتے تھے؟

علی بخش: رات کے بارہ ایک بجے تک، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سونے کے لئے لیٹ جاتے۔ لیکن بمشکل دو، تین گھنٹے سو کر تہجد کے لئے بیدار ہوجاتے۔

  •  طیش میں آتے تھے یا نہیں؟

علی بخش: بہت نرم دل اور طبیعت کے مہربان تھے۔ شاذ و نادر ہی غصے میں آتے لیکن اگر اشتعال میں آجاتے تو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہوجاتا۔ مجھے ان کی نرم دلی کا ایک واقعہ یاد ہے۔ ایک مرتبہ گھر میں ایک چور گھس آیا۔ ہم میں سے کسی نے پکڑ کر اس کی پٹائی کردی۔ علامہ اقبال نے اس کا ہاتھ روک دیا اور کہا کہ چور کو مت پیٹو۔ یہی نہیں بلکہ اسے کھانا کھلایا اور آزاد کردیا۔

  •  تہجد پابندی سے پڑھتے تھے کیا؟

علی بخش: جی ہاں پابندی سے پڑھتے تھے۔

  •  تہجد کے بعد کیا معمول تھا؟

علی بخش: اس کے بعد ذرا دیر کو لیٹ رہتے، تاوقتیکہ فجر کا وقت آن لیتا اور وہ نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے۔

  • کیا شعر کی آمد رات کو بھی ہوتی تھی؟

علی بخش: جی ہاں! راتوں کو بھی شعر گوئی کرتے۔ عموماً یہ کیفیت ان پر رات کے دو اور اڑھائی کے درمیان طاری ہوتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا مجھے آواز دے کر بیاض اور قلمدان طلب کرتے۔

(اقبالیات ،لاہور، جولائی تا ستمبر 2000)

صرف قرآن سے لگاؤ

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔

ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے، اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھنے بیٹھ گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنی  فلسفہ سازی اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربی ﷺ کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔

ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اصحابِ تلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے، اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔

اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں، اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لئے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔

اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے کی حاجت نہ تھی۔ ان کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومت ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا، مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے، سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور خود لارڈ لنگڈن کو کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں، احکام اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔

قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔

(سید ابوالاعلیٰ مودودی رسالہ جوہر…  اقبال نمبر1938، بہ حوالہ : اقبال اور مودودی)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

سہیل یوسف

سہیل یوسف

سہیل یوسف سائنسی صحافی اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ ویڈیو، سلائیڈ شو میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔